ایک دور تھا کہ علاج بہت مشکل تھا کیونکہ طبیب بہت کم ہوا
کرتے تھے اس وجہ سے علاج میں بہت مشکل پیش آتی تھی لیکن جس طرح سائنس نے
ترقی کی ہے میڈیکل کے شعبے میں بھی خاطر خواہ ترقی ہوئی ہے،ایسی بے شمار
بیماریاں جو کہ لاعلاج تھیں ان کا علاج اب ممکن ہو گیا ہے۔اب جہاں مرد
میڈیکل کے شعبہ میں آرہے ہیں وہاں خواتین بھی بھی پیچھے نہیں میڈیکل کے
شعبہ میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں جو کہ ایک خوش
آئند بات ہے۔ جہاں ہر سال ہزاروں لڑکے ڈاکٹر بنتے ہیں وہاں ہزاروں لڑکیاں
بھی ڈاکٹر بنتی ہیں لیکن مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ میڈیکل
کے بہت سارے ایسے شعبے ہیں،جن میں صرف عورتوں کی ہی ضرورت ہے لیکن ان میں
مرد بھی کام کر رہے ہیں جو کہ ایک لمحہ فکریہ بات ہے،کیونکہ جب سے انسان
باشعور ہوا ہے اس شعبہ میں صرف اور صرف عورتیں ہی کام کرتیں آئیں ہیں لیکن
اب اس میں مردوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے،جو کہ ایک خوش آئند بات نہیں ایسا
بلکل نہیں ہونا چاہیئے۔ہمارا ملک ایک اسلامی ملک ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہمیں
کوئی بھی کام اسلام کے حدود کے اندر رہ کر کرنا چاہیئے تاکہ ہم گناہ سے بچ
سکیں لیکن آج ہم اسلام سے دور بہت دور نظر آتے ہیں۔میڈیکل میں ایک شعبہ
گائنی کا بھی ہوتا ہے۔پہلے دور میں یہی کام دائیاں سرانجام دیتی تھیں۔جس سے
بہت سارے کیس بگڑ جاتے تھے اور زچہ بچہ دونوں موت کا شکار ہو جاتے تھے یا
دونوں میں سے ایک موت کا شکار ہوجاتا تھا،لیکن اب باقاعدہ طور ہمارے ملک
پاکستان میں سرکاری و پرائیویٹ ہسپتالوں میں ایک شعبہ گائنی پایا جاتا ہے
جہاں بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ شعبہ گائنی میں لیڈی ڈاکٹر ہوتی تھیں۔ لیکن اب
جوں جوں وقت بدل رہا ہے لوگ ایڈوانس ہورہے ہیں،شرم وحیا کو اتار کر دور
پھینک دیا ہے۔ اور اب کوئی بھی بری بات بری نہیں لگتی کیوں کہ پاکستان میں
اب اسلام برائے نا م ہی رہ گیا ہے۔ہم اسلام سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں ہر
برائی کو مجبوری کا نام دے کر ہم حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں اور اسی بے راہ
روی کی وجہ سے بے حیائی عام ہو گئی ہے جس سے یہ فرق پڑا ہے جہاں گائنی وارڈ
میں عورتوں کی تعداد زیادہ تھیں اب گائنی وارڈ میں مرد ڈاکٹروں کی تعداد
میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور آج لیڈی ڈاکٹرز کے بجائے مرد ڈاکٹرز زیادہ اس
شعبہ میں نظر آ رہے ہیں یہاں تک کہ اب عورتوں کے آپریشن مرد ڈاکٹر ہی کرتے
ہیں۔ اور عورت مرد کے درمیاں جو پردہ ہے وہ فاش ہوتا جارہا ہے جو کہ اسلام
کے منافی ہے جب پاکستان میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں تو گائنی کے لیئے صرف
اور صرف لیڈی ڈاکٹر کو ہی ٹریننگ دی جانی چاہیے۔لیکن آج شعبہ گائنی میں
مردوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور گائنی وارڈ میں ڈلیوری کے وقت اس بری
طرح سے عورتوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے کہ انسانیت بلبلا اُٹھتی ہے۔یہ بات
اسلامی اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔اگر پاکستان ایک اسلامی ملک ہے تو اس میں
اصول بھی اسلامی ہونے چاہئیں ۔شعبہ گائنی میں مردوں ٹریننگ پر پابندی ہونی
چاہیئے۔ اور عورتوں کو ہی اس میں سپشل ٹریننگ دینی چاہیئے، تاکہ ایک
ماں،ایک بیٹی ایک بہن کا تقدس پامال نہ ہو جو کہ آج کل ان میل ڈاکٹرز کی
وجہ سے ہو رہا ہے پاکستان میں شعبہ گائنی میں بہت قابل لیڈی ڈاکٹر موجود
ہیں جنہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے بہت سے ایسے کیسز کئے ہیں جو واقعی
انکی گراں قدر خدمات ہیں تو پھر مردوں کو اس شعبہ میں گھسا کر ایک عورت کو
کیوں ذلیل کیا جاتا ہے،اگر لیڈی ڈاکٹرز نہ ہو اور واقعی ہی مجبوری ہو تو
کچھ صورت نظر آتی ہے لیکن جب پاکستان میں لیڈی ڈاکٹرز ہیں تو ایک عورت کا
اس بری طرح تماشہ نہیں بنانا چاہیئے جیسا کہ آج پاکستان میں ایک عورت کا
تماشہ بنایا جا رہا ہے اسلا م نے جو ایک عورت کو رتبہ دیا ہے وہ کسی مذہب
نے نہیں دیا اس لیئے اسلام نے جو رتبہ عورت کو دیا ہے اس طرح کے بے حرمتی
کر کے عورت کے اس رتبہ کی تو ہین نہیں کرنی چاہیئے ۔ اس کے علاوہ میڈیکل کے
سٹوڈنٹس کو بھی گائنی میں ان عورتوں پر پریکٹکل کروائے جاتے ہیں ان کو ایک
برہنہ عورت دکھا کر لیکچر دیا جاتا ہے اس طرح ایک عورت کو کتنے ہی مرد
دیکھتے ہیں اور اس عورت کو ٹچ کرتے ہیں اور اس کی شرمگاہ تک دیکھتے ہیں کیا
یہ ایک لمحہ فکریہ بات نہیں اس پر مکمل پابندی لگائی جانی چاہیئے کہ صرف
لڑکیوں کو ہی کو یہ پریکٹکل کروایا جائے لڑکوں کو نہیں تاکہ ایک عورت ان
مرد ڈاکٹروں کے ہاتھوں تماشہ نہ بنے بہت ہی شرمناک بات ہے کہ آج ایک عورت
کی اس قدر بے حرمتی ہو رہی ہے مختف صورتوں میں جن میں سے یہ ایک ہے اس کے
علاوہ او،پی،ڈی میں سرجیکل شعبہ میں اکثر میل ڈاکٹر ہوتے ہیں بہت ساری پردہ
نشین عورتیں چیک اپ کے لیئے آتیں ہیں،کچھ بیماریاں بہت پوشیدہ ہوتیں ہیں جن
میں بواسیر قابل ذکر ہے جو عورتوں کو اس کے چیک اپ کیلئے کچھ کپڑے اتارنے
پڑتے ہیں کچھ خواتین تو اپنا علاج شرم کی وجہ سے اپنا کرواتی ہی نہیں تکلیف
برداشت کر لیتی ہیں لیکن کچھ خواتین کو مجبوری کے تحت اپنا چیک اپ ایک مرد
ڈاکٹر کو ہی کروانا پڑتا ہے جس سے ایک مرد ڈاکٹر اور اس عورت کچھ پردہ نہیں
رہ جاتا اور ڈاکٹر چیک اپ کے دوران باقاعدہ طور پر ایک عورت یا لڑکی جس کی
ابھی شادی نہیں ہوئی ٹچ بھی کرتا ہے۔جو کہ ایک لڑکی کیلئے بہت شرمناک بات
ہوتی ہے لیکن ایسا کروانا اس کی مجبوری ہوتی ہے،ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ
عورت کو چیک ایک لیڈی ڈاکٹر ہی کرے اور وہ میل ڈاکٹر کو رپورٹ دے اور
میڈیسن میل ڈاکٹر لکھ کر دے لیکن آج کل یہ عام ہو گیا ہے ایک ڈاکٹر کو
انسان نہیں دیوتا سمجھا جاتا ہے،وہ بھی غلطی کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ بھی بے
شمار جلدی بیماریاں ہیں جن میں ایک عورت کو ایک مرد کے سامنے برہنہ ہونا
پڑتا ہے ایسی امراض کیلئے خاص طور پر عورتوں کیلئے لیئے ایک لیڈی ڈاکٹر
لازمی ہونی چاہیئے جو کہ صرف اور صرف عورتوں کو چیک اپ کرے تاکہ ہماری
عورتیں ایک مرد کے سامنے برہنہ ہونے سے بچ سکیں۔ لیکن آج پاکستان میں اس
طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔آج ہسپتالوں میں ایک عورت کی اس قدر بے حرمتی کی
جارہی ہے کہ قابل بیاں نہیں۔آج اس کی روک تھام بہت ضروری ہے۔ آج لوگوں نے
اس کو مجبوری کا نام دے کر سمجھوتہ کر لیا ہے۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں
ایک لمحہ فکریہ اور قابل غور مسئلہ ہے،آج عوام اس پر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟
کیا یہ بات عورتوں کے حقوق کے خلاف نہیں؟ حقوق کی جنگ لڑنے والی خواتین اس
مسئلے پر آواز کیوں بلندنہیں کرتیں کیوں اپنے لبوں کو سی لیا ہے ان خواتین
نے؟حالانکہ یہ بہت ہی پیچیدہ اور اہم مسئلہ ہے - |