عرصہ پندرہ سال قبل ہمارے علاقے میں ایک بزرگ شخص
نے آکر ڈیپارٹمنٹل سٹور بنایا تھا ۔اس سٹور کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں
ضروریات زندگی کی تمام اشیاء مل جاتی تھیں۔ اس سٹور کے مالک بزرگ شخص کے
تین بیٹے تھے ، جن کی عمر یں بالترتیب 35سال 25سال اور 20سال کے لگ بھگ
تھیں ۔ بڑا بیٹا شادی شدہ تھا اور اس کے بھی بچے جوان ہو رہے تھے ۔جبکہ
دوسرے چھوٹے دونوں بیٹے تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے جیب خرچ کی خاطر مختلف کام
بھی کرتے تھے ۔ وقت ہنسی خوشی گزر رہا تھا ۔وقت کا بے رحم پہیہ تیزی سے
گھومتا گیا اور اس بزرگ نے وقت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے چھوٹے بیٹوں کی
بھی شادیاں کر دیں ۔۔۔۔۔۔کچھ عرصہ بعد اس بزرگ نے محسوس کیا کہ گھر کے
ماحول میں کچھ پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں اس نے گھر کے ماحول کو خراب ہونے
سے بچانے کی خاطربڑے بیٹے کو علیحدہ کرنے کا سوچا۔۔اس سلسلہ میں اس نے اپنے
بڑے بیٹے کو ایک دن اپنے پاس بلایا اور اسے اپنی سوچ کے متعلق آگاہ کیا ۔۔۔بڑا
بیٹا انتہائی فرماں بردار تھا اس نے والد کو کہا کہ جیسے آپ کی مرضی اور آپ
کی مرضی میں میری خوشی ۔۔۔یوں باپ نے بڑے بیٹے کو علیحدہ کر دیا اور اس کے
ساتھ ساتھ بیٹے کو کچھ رقم اور ایک 3مرلہ کا مکان خرید کر دے دیا ۔۔ اور
کہا جاؤ اور جا کر اپناکوئی کاروبا ر کر لو اور اپنے بچوں کا پیٹ پالو۔باپ
نے بیٹے کو جو رقم دی تھی وہ نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اس بیٹے نے اف تک
نہ کی ۔۔۔بس اس کے ذہن میں یہ خیال ضرور آیا کہ اس نے جو سٹور چلانے کا کام
سیکھا ہے اور اس کے علاوہ اور کام بھی نہیں آتا اور باپ نے جو رقم دی تھی
اس سے اپنا ذاتی کاروبار بھی نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔اوپر سے مکان کی شفٹنگ
اور گھر کے اخراجات اس قدر زیادہ تھے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ
کیا کرے کیونکہ نئے گھر میں ہر ایک چیز نئے سرے سے بنوانی تھی ۔سب سے حیران
کن بات یہ تھی کہ اس بزگ شخص کے دونوں چھوٹے بیٹے انجینیرنگ پاس کر چکے تھے
لیکن ان کے شعبہ جات میں بھیجنے کے بجائے اپنے ساتھ سٹور پر رکھ لیا۔۔وہ
دونوں چھوٹے بھائی آجکل سٹور پر اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔۔لیکن میں جب
بھی ان کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ایک دن ان کو بھی الگ الگ ہونا پڑے
گا اور اس وقت تک پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔۔ اور سب سے زیادہ ہمدردی مجھے
اس بڑے بیٹے سے ہوتی ہے جو اپنی جوانی کے دن اور اپنے کچھ کرنے کے دن سٹور
پر گزار چکا تھا ۔۔۔ جبکہ بڑھاپے میں قدم رکھتے ہی اس کے والد نے اسے
استعمال شدہ چیز کی طرح نکال باہر کیا تھا۔۔ من حیث القوم ہم سب ایسے ہی
ہیں ۔۔۔جیسا کہ ایک مینڈک کو کسی برتن میں پانی ڈال کر تجربے کے طور پر اس
پانی کو ہلکا سا ٹمپریچر دیا جاتا ہے ۔۔جیسے جیسے پانی کا ٹمپریچر بڑھتا ہے
مینڈک بھی اپنے جسم کو اس ٹمپریچر کے مطابق ڈھالتا رہتا ہے ۔۔لیکن ایک وقت
آتا ہے کہ مینڈک مر جاتا ہے ۔۔ مینڈک پانی کے ٹمپریچر کی وجہ سے نہیں مرتا
بلکہ اپنی قوت فیصلہ کی کمی کی وجہ سے مرتا ہے ۔۔ اگر مینڈک موقع محل دیکھ
کر پانی سے جمپ کرجاتا تو اس کی جان بچ سکتی تھی ۔۔لیکن وقت پر فیصلہ نہ
کرنے کی وجہ سے مینڈک کی موت واقع ہوجاتی ہے ۔۔۔بلکل اسی طرح ہم لوگ بھی
وقت پر صحیح فیصلہ نہ کرنے کہ وجہ سے دوسروں کے لیے ڈسپوزیبل کا کام کرتے
ہیں ۔۔لوگ ہمیں استعمال کرنے کے بعد ناقابل استعمال اشیاء کی طرح اپنی
زندگیوں سے نکال دیتے ہیں ۔۔۔اور بعد میں ہمارے پاس پچھتاوے کے کچھ نہیں
بچتا۔۔آجکل الیکشن کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں ۔۔ایک سچا پاکستانی
ہونے کے ناطے میں اپنے قارئین کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ یہ صحیح وقت
ہے جمپ کرنے کا جن لوگوں نے سابقہ الیکشنز میں آپ کو ناقابل استعمال سمجھا
ان سے جان چھڑوائیں اوراپنے ووٹ کا صحیح استعمال کر کے اچھے لوگوں کو منتخب
کروائیں ورنہ ہمارے پاس پچھتاوے کے کچھ باقی نہیں بچے گا۔۔۔۔
تحریر ۔۔۔سجاد انور خانیوال |