تحریر: عمران ظفر بھٹی
دنیا میں مزدوروں کی صحیح تعداد گننا انتہائی مشکل کام ہے کوئی بھی ادارہ
سو فیصد درست تعداد نہیں دے سکتامگر ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا
میں مزدوروں کی تعداد 2014میں 3ارب 38کروڑ چالیس لاکھ پچیس ہزار سات سو بیس
ہے جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مزدوروں کی تعداد6کروڑ 53لاکھ61
ہزار 409ہے جبکہ یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے ورلڈ بنک کی اسی رپورٹ کے
مطابق 2011میں پاکستان میں مزدوروں کی تعداد 6کروڑ ایک لاکھ51ہزار367تھی
اور تیزی سے بڑھتی ہوئی اب یہ تعداد ساڑھے 6کروڑ ہو چکی ہے اور لگتا ایسا
ہے کہ یہ تعداد 2016کے آخر تک 7کروڑ تک جا پہنچے گی۔مزدوروں کے کیا مسائل
ہوتے ہیں اے سی رومز میں بیٹھے حکمرانوں کو اندازہ تک نہیں ہوتا کیونکہ
آجکل وہ آلو کا ریٹ بھی 5روپے بتاتے ہیں جو کہ غلط ہے اور یہی بات ان کی لا
علمی کی دلیل کیلئے کافی ہے مزدور کئی اداروں میں مختلف قسم کی مزدوری کے
فرائض سر انجام دیتے ہیں اور ہرمزدور کی ایک الگ کہانی ہوتی ہے مزدوروں کی
ان اقسام میں ایک قسم بھٹہ مزدور کی بھی ہے ان افراد کیلئے جو جلدی میں
ہوتے ہیں ان کیلئے مختصر جائزہ دیتا چلوں کہ مزدور صبح سویرے چاہے سردی ہو
یا گرمی اپنے مقام پر پہنچ کر دوپہر 1-2بجے تک اینٹیں بناتا ہے نکاسی والے
گرمی اور آگ کی تپش میں اینٹیں نکالتے ہیں اور بھرائی اور جلائی والے بھی
یہی عمل چوبیس گھنٹے کرتے ہیں ان کیلئے صرف کھانے کے وقت کی چھٹی ہوتی ہے۔
ایک بھٹہ مزدور یخ بستہ سردی یا سخت گرمی کے موسم میں صبح نماز کے وقت اٹھ
کر اﷲ کا نام لیکر موسم کی پرواہ کیے بغیر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے
ہاتھ میں کسی اور بالٹی لیکر گھر سے بھٹہ کی جانب نکلتا ہے کئی مزدور تو
کئی کلومیٹر پیدل چل کر آتے ہیں اور کئی مزدوروں کے گھر بھٹہ کے قریب ہوتا
ہے۔اپنے مقام (پِڑ) پر پہنچ کر سب سے پہلے اس پر پانی کا چھڑکاؤ پھر ٹھنڈے
یخ گارے میں اتر کر اس گارے کو الٹ پلٹ کرتا ہے تاکہ ان میں کوئی سخت گارا
نہ رہ جائے اور اینٹ خراب نہ ہو جب اس کام سے فارغ ہو جاتا ہے تو میدان (پڑ)
پر رنگ مارتا ہے تاکہ وہ جگہ جہاں اینٹ بنانی ہے بالکل سیدھی بنے خراب نہ
ہو گارے سے نکل کر گارے کا لوتھڑاہاتھوں سے کاٹ کر پیٹ کے ساتھ لگا کر پِڑ
کے قریب رکھتا ہے جب یہ عمل مکمل کر لے تو اینٹ بنانے کیلئے اس لوتھڑے سے
چھوٹے پیڑے بناتا ہے جو قالب میں آجائے اور اینٹ بنا سکے سخت سردی کے موسم
میں اس بیچارے کو سخت ٹھنڈے پانی اور گارے میں ہاتھ پیر مارنے پڑتے ہیں جس
سے اسے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس کے ہاتھ پیر زیادہ ٹھنڈے ہیں یا پانی اور
گارامگر پھر بھی وہ اپنے خاندان کا چولہا جلانے کیلئے لگا رہتا ہے قلم کار
نے خود مزدوروں کو کام کرتے دیکھا مگر ان سب میں بھٹہ مزدور کو ہی زیادہ
محنت کش پایا اور افسوس یہ کہ اس بیچارے کو اتنی محنت کے باوجود مزدوری بہت
کم ملتی ہے یہ مزدور صبح نماز کے وقت سے لیکر مغرب تک لگا رہتا ہے اس وقت
میں وہ اکیلا صرف 500سے 700اینٹ ہی بنا پاتا ہے اور پانچ سو اینٹ کا معاضہ
اسے صرف 250ہی ملتا ہے یاد رہے یہ معاوضہ جتوئی شہر کا لکھا ہوا ہے دیگر
شہروں کا اس سے مختلف ہو سکتا ہے خیر جب یہ مزدور اپنا گارا ختم کر لیتا ہے
اور اینٹیں بنا لیتا ہے تو گزشتہ دن کی بنی ہوئی اینٹوں کو ترتیب(کھرک)
لگاتا ہے تا کہ وہ جلد سوکھ جائیں اسکے بعد ان اینٹوں کو بھٹہ کے منشی کے
حوالے کر کے اپنی دیہاڑی لیتا ہے اگر ایڈوانس ہو تو اس میں سے کٹوتی بھی
کرواتا ہے یہاں پر اس مزدور کا کام تو ختم ہو جاتا ہے مگر اینٹ کی کہانی
اگلے مزدور کی طرف بڑھ جاتی ہے دوسرا مزدور ان اینٹوں کو گدھوں پر لاد کر
اس پڑ سے بھٹہ تک لے جاتا ہے جہاں ایک اور مزدور ان اینٹوں کو بھٹے میں
بھرائی کر تا ہے جب بھٹہ اینٹوں سے بھر جائے تو آگے جلائی والا اپنا کام
شروع کرتا ہے اس کیلئے تجربہ کار مزدور ہی کام کرتے ہیں کیونکہ بھٹہ میں آگ
اوپر سے لگائی جاتی ہے اور اینٹوں کے اوپر چلنا پڑتا ہے بھٹہ کے آگ لگانے
کے بعد بھٹہ کے اوپر چلنا اصل امتحان ہوتا ہے کیونکہ اوپر پتہ نہیں چلتا کہ
کہاں اینٹوں کا سوراخ ہے اور مزدور اچانک بھٹہ میں گر جاتے ہیں اور جل کر
خاک بھی ہو جاتے ہیں اس لیے یہاں تجربہ کار لوگوں کو لگایا جاتا ہے تھوڑی
سی غفلت بہت بڑے نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔ جلائی کا عمل دو سے تین ماہ چلتا
ہے اور پھر اینٹوں کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے جب اینٹ ٹھنڈی ہو
جائے تو انکو نکال کر علیحدہ علیحدہ ورائیٹوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جن
میں اول، دوئم، سوئم، نیم پکی(ڈھک)، کھنگر اور ٹوٹا شامل ہے اول کا ریٹ
6000سے 7000ہزار دوم 4500سے 5500، رتا پکا3500سے4000سوم 2500سے 3000تک جبکہ
ٹوٹے کا ریٹ بھی یہی اور کھنگر کا ریٹ بھی رتہ پکا کے برابر ہوتا ہے ۔ اس
دوران بھرائی والے کو ایک ہزار اینٹ بھرنے کا 150ملتا ہے جبکہ جلائی والا
کو ماہانہ تنخواہ 12000ملتی ہے اسی طرح نکاسی والے کو بھی تقریبا150روپے فی
ٹرالی ملتے ہیں یاد رہے ایک ٹرالی میں اینٹوں کی تعداد3سے 4ہزار ہوتی ہے
اور اتنی تعداد میں پکی اینٹیں بھرنے سے ہاتھ بھی چھل جاتے ہیں کیونکہ پکی
اینٹ کھردری ہوتی ہے -
افسوس کا مقام جو اتنی زیادہ خطرات، مشکلات، شدید گرمی، یخ بستہ سردی اور
ہر قسم کے حالات کا سامنا کرتے ہیں ان کو دو وقت کے کھانے کی مزدوری بھی
مشکل سے ملتی ہے جبکہ جو سکون سے سردیوں میں ہیٹر اور گرمیوں میں اے سی میں
بیٹھتے ہیں وہ لاکھوں اور کروڑوں سے کھیلتے ہیں اس ساری کہانی میں مالک کس
طرح زندگی گزارتا ہے مزدور کا گزر بسر کیسا ہے قارئین اندازہ لگا سکتے ہیں
اور یہ اعداد و شمار فرضی نہ ہیں کیونکہ یہ اعداد و شمار بھٹہ پر کام کرنے
والوں سے ملکر لیے گئے ہیں اب یہ گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ ا ن مزدوروں
کیلئے اقدامات کرے کیونکہ بھٹہ مالکان کا کام ہے کہ وہاں ڈسپنسری، مزدوروں
کے بچوں کیلئے سکول اور دیگر سہولیات بھی فراہم کریں مگر افسوس کہ اس شہر
کیا شاید پورے پاکستان میں کوئی بھی بھٹہ ایسا نہیں جہاں گورنمنٹ کے حکم کے
مطابق سہولیات میسر ہوں ۔ حکومت کو چاہیے کہ ان بھٹوں کی مانیٹرنگ کیلئے
باقاعدہ نظام ترتیب دے ، سہولیات فراہم کرنے کیلئے سخت ایکشن لے تاکہ اس
مظلوم طبقے کو بھی انصاف مل سکے جو کہ پاکستان میں بہت مشکل ہے ۔باقی
پاکستان کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
|