دو شحص بادشاہ کی خد مت میں حا ضرہو ئے۔ایک بکریوں
والا اور دوسرا کھیتی والا تھا۔دونوں نے ا پنا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں
پیش کیا۔ کھیتی والے نے یہ دعوی کیا۔ بکریوں والے کی بکریوں نے رات کو میرا
کھیت صا ف کر دیا ہے۔اور یہ بکریوں والے کی غفلت کی وجہ سے ہوا ہے۔اور
بکریوں والے نے اس بات کا اعتراف کیا ۔
بادشاہ نے یہ فیصلہ سنا یا بکریوں والا اپنی ساری بکریاں کھیت والے کو دے
دے۔کیوں کہ یہ فیصلہ قا نو ن کے عین مطا بق تھا۔ محل کے دروا زے پر دونوں
کی ملا قا ت شہزادے سے ہو ئی۔ شہزادے نے دریا فت کیا۔ تمہارے بارے میں کیا
فیصلہ ہواہے۔ انھو ں نے فیصلہ شہزادے کو بتا یا۔ شہزادے نے کہا اگر یہ
مقدمہ میرے پا س آتاتو میں ایسا فیصلہ کرتا جس میں دونوں کا نفع ہوتا۔ جب
یہ بات بادشاہ تک پہنچی تو با د شا ہ نے شہزادے کو طلب کر کے پو چھا تمہا
را فیصلہ کیا ہو تا؟ شہزادہ بولا ــــ میرا فیصلہ یہ ہو تا۔ بکریوں والا
اپنی بکریاں کھیت والے کے حوالے کر دے اور کھیت والا اپنا کھیت بکریوں والے
کے حوالے کر دے۔بکریوں والاکھیت کی دیکھ بھال کرے اور کھیت والا بکریوں سے
فا ئید ہ اٹھا ئے۔جب اپنی پہلی حا لت پر آئے۔کھیت والا اپنا کھیت اور
بکریوں والااپنی بکر یاں واپس لے لے۔ بادشاہ نے اس فیصلے کو پسند کر کے
اپنا فیصلہ و ا پس لے لیا اور شہزادے کا فیصلہ نا فذ کر دیا۔کیا آپ جا نتے
ہیں؟ یہ با د شا ہ اور شہزادہ کو ن تھے؟
یہ دونوں اپنے وقت نبی اور با د شا ہ تھے۔ با د شا ہ کا نام داؤد ؑ اور
شہزادے کا نام سیلمانؑ بن داؤد ؑ تھا۔
سیلمانؑ بن داؤد ؑ کا فیصلہ اﷲ کو اتنا پسند آیاکہ اﷲ نے اس کا ذکر قرآن
میں یوں کیا۔ــــ چنانچہ اس فیصلے کی سمجھ ہم نے سیلمانؑ کو دے دی۔
اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے۔
۱)معمالات کی سمجھ اﷲ چا ہے تو کم عمر ی میں دے دے۔اور نہ دینا چا ہے تو
ساری عمر نہ دے۔
۲) چھو ٹی عمر کے بچوں کی معقول بات کو مان لینا چاہے۔ |