تحریر: مریم صدیقی، کراچی
حقوق نسواں کی جب بات آتی ہے تو ایک مخصوص طبقہ عورتوں کی نمائندگی کرتے
ہوئے آزادی، آزادی کے نعرے بلند کرتا دکھائی دیتا ہے، ایک سوال ان سے کہ
کیا یہ مطالبہ آزادی ان عورتوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں کی کفالت کرتی ہیں،
حالات کی بھٹی میں جل کر معاشرے کو ایندھن فراہم کر رہی ہیں؟ یا ان عورتوں
کے لئے جو آئے دن تشدد سہہ کر کسی سرکاری اسپتال کے بیڈ پر آخری سانسیں گن
رہی ہوتی ہیں؟ یا ان عورتوں کے لئے ہے جو روز کسی نہ کسی مرد کی ہوس و
درندگی کا نشانہ بن کر معاشرے پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہیں؟ یا ان
معصوموں کہ لئے ہے جن کی آواز کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔
یا وہ جنہیں آج بھی پڑھنے لکھنے کی اجازت نہیں ہے، جنہیں آج بھی پیروں کی
جوتی سمجھا جاتا ہے۔ یا یہ نعرہ فقط بے حیائی کی طرف پیش قدمی ہے؟
کیا فقط آزادی کے نعرے لگانے سے وہ اس جہنم سے نکل آئیں گی، کیا ان نعروں
کی مدد سے وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا جواب دے سکیں گی؟ کیا وہ اپنے
حق کے لئے آواز بلند کر پائیں گی؟ نہیں ہر گز نہیں اگر ایسا ممکن ہے تو فقط
علم کی روشنی کے ذریعے، جب ان کے ذہن باشعور ہوجائیں گے تو وہ خود اپنی ذات
کو پہچانیں گی، اپنے وجود کی بقا کے لئے لڑیں گی، اپنے حقوق کا مطالبہ کریں
گی، وہ حقوق جو بحیثیت مسلمان عورت اسلام انہیں دیتا ہے۔ یہ فقط تعلیم کے
ذریعے ہی ممکن ہے۔ ایسی تعلیم جو انہیں حیادار بنائے ناکہ بے حیائی کے
راستوں پر گامزن کردے۔
ہمیں عورت کو گھر سے نکال کر سڑکوں پر نہیں لانا ہم نے انہیں اسی چار
دیواری میں تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ہمیں انہیں اس بات کا احساس دلانا ہے کہ
اگر وہ ایک بیوی ہے تو اپنے شوہر کا نصف بہتر ہے، اس کے سکون کا باعث ہے،
عزت و احترام کی حقدار ہے، اگر بہن ہے تو مان ہے بھائی کا، اگر بیٹی ہے تو
غرور ہے باپ کا اور اگر ماں ہے تو جنت ہے بیٹے کی۔ عورت کے لیے بس یہی چار
معتبر رشتے ہیں جو اسلام نے اسے دئیے ہیں اور ان چار رشتوں کی روح عزت و
احترام ہے۔
عورت ایک نسل کی امین ہوتی ہے، ایک نسل کو پروان چڑھانے کی بھاری ذمہ داری
اس کے کاندھوں پر ہوتی ہے، اور عورت اپنی فطرت اپنی نسل میں منتقل کرتی ہے
اس لیے کہتے ہیں کہ اگر ایک تعلیم یافتہ عورت ایک نسل کی پرورش کرے گی تو
وہ نسل تعلیم یافتہ ہوگی، اور نسل در نسل یہی پرورش ایک قوم کی تشکیل کا
باعث بنے گی لیکن اگر یہی عورت غیر تعلیم یافتہ ہے تو جہالت نسلوں میں سفر
کرے گی اور بالآخر ایک ایسی ہی قوم معرض وجود میں آئے گی۔ ایک قوم کو جہالت
کے اندھیروں سے نکالنا ہے تو عورتوں کو علم سے آراستہ کرنا ہوگا۔
حقوقِ نسواں کے لئے آواز بلند کرنی ہے تو ہمیں ان کی تعلیم کے حق میں آواز
بلند کرنی ہوگی، انہیں ان کے جائز حقوق دلوانے کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی،
ان کے تحفظ کی فراہمی کے لئے آواز بلند کرنی ہوگی۔ عورت کو پیر کی جوتی
سمجھ کر کچلنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔ عورتوں کو ہوس پوری کرنے
کا ذریعہ سمجھنے والوں کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔
ان مقاصد کو لے کر ہمیں ان دیہی علاقوں کا رخ کرنا ہوگا جہاں عورت کی حیثیت
فقط بچے جننے والے ایک جانور کی سی ہے۔ ہمیں ان مقامات کی طرف رخ کرنا ہوگا
جہاں تعلیم کو بے راہ روی سے منسوب کیا جاتا ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم
حاصل کرنے والی عورت خود سر ہوجاتی ہے، حقیقتاً ایسا نہیں ہے، وہ علم حاصل
کرکے اس قابل ہوجاتی ہے کہ ان علاقہ جات میں رائج ان فرسودہ رسومات کے خلاف
آواز بلند کرسکے، اپنے حقوق کے لئے لڑسکے۔ اس سوچ کو بدل سکے کہ تعلیم پر
صرف مردوں کا حق نہیں ہے۔
یہ تب ہی ممکن ہوگا جب علم کی شمع جلائی جائیگی، شمع سے شمع جلے گی تو گھر
گھر چراغاں ہوگا اور یہی چراغاں ہمیں ایک دن ایک تعلیم یافتہ ترقی یافتہ
قوم کی صورت میں روشنیاں بکھیرتا دکھائی دے گا۔ |