رشتوں میں بندش یا تاخیر کیوں؟

تحریر: بنت عطا، کراچی
اﷲ نے کائنات میں ہر چیز کے دو دو جوڑے رکھے تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور یوں ایک نسل سے دوسری نسل کا تسلسل بھی رہے۔ انسانوں میں بھی یہ چیز رکھ دی کہ جیسے ہی لڑکا یا لڑکی بالغ ہوتے ہیں خود با خود وہ اپنے مخالف سمت کی جانب توجہ دینا شروع کردیتے ہیں۔ اس توجہ کو بہترین تعلق میں جوڑنے کے لیے رشتہ ازدواج رکھا گیا۔ رشتہ کیسا اور کیا اس کے لیے بھی احکامات صادر فرمادیے گئے، جب سب کچھ بتادیا گیا اس کے باوجود رشتوں میں بندش اور تاخیر کا امر باقی ہے۔

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’اور جب تمہاری اولاد بالغ ہوجائے تو اس کا نکاح کردو پس اگر ایسا نہ کیا اور بچہ گناہ میں پڑگیا تو اس کا وبال والد پر ہوگا‘‘۔ یعنی اپنے بچوں پر نظر رکھنے کے علاوہ ان کی ضرورت کا خیال رکھنا بھی والدین کی ذمے داری ہے۔بچے جیسے ہی بالغ ہوں انہیں فوری طور پر کسی بھی اچھی جگہ دیکھ کر رشتہ کردینا ہی بھلائی ہے۔

اگر تاخیر دیندار رشتہ نہ ملنے کی وجہ سے ہوتی تو شاید بات قابل قبول ہوتی مگر آج کل تاخیر کے اسباب بھی دور جدید کے ساتھ جدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ جس قدر زمانہ آگے جارہا ہے ہم ذہنی طور پر پیچھے کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ زمانہ اسلام سے پہلے رشتے حسب نسب کی بنیاد پر جوڑے جاتے تھے اسلام آنے کے بعد دینداری کو دیکھا جانے لگا اور اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لڑکی خوبصورت کتنی ہے اور لڑکا امیر کتنا ہے، برادری کا ہے کہ نہیں باقی دینداری، اخلاق، تعلیم یہ سب باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔

اس معاملے میں لڑکی والے بھی خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتے اگر بیٹی ڈاکٹر ہے تو رشتہ بھی کسی ڈاکٹر کا ہی چاہیے، اگر بیٹی عالمہ ہے حافظہ ہے تو اس کے لئے کوئی مفتی ہی آئے گا، اگر لڑکی سندھی ہے،پنجابی،پٹھان یا جو بھی تو لڑکا بھی اسی کے مطابق چاہیے اس سے کم میں تو سوال ہی پیدا نہیں یوتا کہ سمجھوتا کرلیا جائے۔ حالانکہ اگر بات کی جائے دین کی تو لڑکی کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تمہارے پاس ایسا رشتہ آئے جس کی دینداری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو لڑکی کا رشتہ کردو‘‘۔

یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ معیار دولت کو بناو یا برادری دیکھو اسی طرح لڑکے کے لیے فرمایا کہ ’’تقویٰ کے بعد بہترین چیز نیک عورت ہے‘‘۔ ایک اور جگہ فرمایا ’’عورت سے نکاح میں 4 چیزیں دیکھی جاتیں ہیں۔ اس کا نسب، مال، خوبصورتی اور اس کا دین۔ ایسے میں تم دینداری دیکھو‘‘۔ (رواہ البخاری) یہاں یہ نہیں فرمایا کہ خوبصورتی دیکھو بلکہ دینداری کو ترجیح کا حکم دیا گیا۔ دینداری کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ رشتہ عالم یا عالمہ کا ہی ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ باعمل ہو صوم و صلوۃ کی پابندی کی جاتی ہو، شرعی پردے کا اہتمام ہو، باکردار ہو حقوق کی ادائیگی میں غفلت نہ برتے بس کافی ہے۔

رہی یہ بات کہ عالمہ لڑکی کسی عالم ہی کے گھر جائے یا عالم مرد کے لیے کسی عالمہ ہی کا رشتہ ملے تو ایسا رشتہ اگر وقت پر مل جائے تو بیشک نور علی نور والی بات ہوگی مگر اس انتظار میں اولاد کی عمر ضایع کردینا کوئی دانشمندی نہیں۔ دین علماء کی میراث نہیں کہ علماء ہی کے گھروں میں گھومتا رہے اسے عام لوگوں تک بھی پہنچنے دیں۔ کسی عالمہ کی شادی اگر غیر عالم سے ہوئی یا کسی عالم کی غیر عالمہ سے تو دین پھیلے گا سمٹ کر نہیں رہے گا۔ دین کو میراث سمجھ کر نسل در نسل منتقل نہ کریں آپ کی اولاد کی وجہ سے اگر کوئی بے دین گھرانہ دین کی طرف آجائے تو اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی۔ اپنی انا اور خودداری کے خول سے باہر تشریف لائیے اور دیکھئے کہ دین ہم سے کیا چاہتا ہے اور غور کیجئے کہ اس پرفتن دور کو ترویج دینے میں خود آپ کا کتنا ہاتھ ہے۔ ہمارا ضمیر ہی ہمارا بہترین منصف ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1029802 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.