بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلوۃ والسلام علیک وعلی اٰلک یا رسول اللہ ﷺ
ملک نیپال جو تعلیمی ،اخلاقی،ثقافتی اور تمدنی وترقی کے اعتبارسے بہت پیچھے
ہے خاص طور پر یہاں کے مسلمان اسلامی تعلیم وتربیت اور نبوی اخلاق وکردار
سے نابلد ہیں جو ایک بہت بڑا المیہ ہے اس کے باوجود یہاں دو ضلع ایسے ہیں
جن میں سے ہر ایک کے دامن میں ایسا گاؤں ہے جو علم وفضل اور اسلامی ثقافت
و تہذیب کے اعتبار سے دوسرے اضلاع کے بیشتر قریہ وقصبہ پر تفوق وبرتری
رکھتاہے۔(۱)ضلع دھنوشہ میں لوہنہ گاؤں(۲)ضلع مہوتری کا سسوا کٹیا جہاں
سیماب صفت شخصیت حنیف ملت حضرت علامہ مولانا مفتی محمدحنیف علیہ الرحمہ کی
ذات بابرکات تولد ہوئی جس کی برکتوں سے آج اس گاؤں میں حفاظ، قرائ، علماء
، مفتیان، خطباء ، شعراء کی ایک لمبی فہرست ہے اور اسی بابرکت عبقری شخصیت
کے فیضان نظر سے اس قریہ کو مدینۃ العلماء بننے کا شرف حاصل ہے۔
تذکرئہ لوہنہ:
علم وفضل ، تہذیب و تمدن، حسب و نسب او ر اخلاق و کردار کے اعتبار سے لوہنہ
کو نیپال کے دو سرے بلاد و قصبات اور گاؤں پر فوقیت و فضیلت حاصل ہے اور
اسے پورے ملک میں ایک امتیازی شان و شوکت اوراہمیت و عظمت کا حامل
ماناجاتاہے۔ یہ گاؤں شہر جنکپور سے تقریبا ساڑھے تین کلو میڑ دو ر ی پر
واقع ہے جس کے بطن سے وقت کے ایک ایسے عالم باشرع ،شیخ ربانی نے جنم لیا جن
کے لوائے قیادت ورہبری میں مسلمان جمع ہوکر اسلام اور پیغمبر اسلام سے
متعارف ہوئے اور اسی قطب و قت کی نسبت سے اس گاؤں کے ساتھ اب ’’شریف ‘‘ کا
لفظ جڑ گیا اور جب بھی عقیدت مند اس کا نام لیتے ہیں تو اد ب و ا حترام کے
ساتھ لُہنہ شریف ہی سے یاد کرتے ہیں۔ لفظ شریف کا اس کے ساتھ جڑجانا اس کے
ترقی یافتہ اور منبع اخلاق وپاکیزہ خصال ہونے کی دلیل ہے ۔
آل برکات کی برکتوں سے یہاں
بٹ رہا عشق کا جام لہنہ میں ہے
اگر اس گاؤں کا جائزہ لیا جائے اور اہل دانش وخرد اور صاحبان فکر و نظر کی
فہرست ترتیب دی جا ئے تو ایک لمبی فہرست ان حضرات کی ہوجائے گی جو دینی
تعلیم اور اسلامی اخلاق سے بھی آراستہ ہیں او ر دنیا وی تعلیم اور سیاسی
میدان کے ماہرین ہیں۔ اس گاؤں میں ایک سے ایک اہل علم وفن اور صاحبان دولت
وثروت ہیں۔اسی گاؤں میں ایک متمول ،خوش اخلاق وخوش مزاج، صاحب کردار ،پاک
طینت ونیک سیرت اور علم دوست جناب محمد جاشم صدیقی کا بھی نام ان نیک لوگوں
کے زمرے میں آتا ہے جنہیں خلوص وفا ،حلاوت کلام ،ضیافت واکرام اور ایفائے
عہد وامانت ،صبر وتوکل ،صدق مقالی وخوش خصالی اور ساتھ ہی دولت وثروت
،ریاست ومالداری، ٖظرافت و شرافت ،اخوت ومحبت اور باہمی تعاون کا جذبہ
بیکراں جیسی خصلتیں اور خوبیاں آ باء و اجداد سے وراثت میں ملی ہیں۔ آپ
کے برادران میں کوئی حافظ تو کوئی مولوی پیدا ہوئے اور سبھی نے دین اسلام
کی خدمت و توسیع میںاہم رول اداکیا ہے۔ عالی جناب شیخ محمد جاشم صدیقی
مرحوم کے آنگن میں جتنے پھول کھلے سب کے سب علم وہنر اور حسن اخلاق و ادب
کے پیکر بن کر مہکتے رہے۔ کوئی ڈاکٹر تو کوئی انجینیر، کوئی پروفیسر ہے تو
کوئی رازدار دین شریعت ۔آپ کی تمام اولاد میں سب سے زیادہ فضیلت وعظمت کا
حامل وہ فرزند فرخندہ فال ہے جو آج افق شہرت و مقبولیت کا خورشید بنکر
اپنی ضیاء سے ایک جہاں کو روشن ومنور کرنے میں مصروف ہے۔جس کی ولادت ۲۸ ؍
صفرالمظفر۱۳۶۲ھ شب جمعہ مبارکہ مطابق ۵؍ مارچ ۱۹۴۳ء میں ہوئی۔ اس طفل
خجستہ آثار سے جہاں خانوادئہ جاشم، گاؤں، محلہ ا و ر شہر کی عزت و
وقارمیں چار چاند لگا وہیںپورے ملک کے سرپر تاج رفعت وکرامت سج گیا اور
باشندگان نیپال کا سر فخر سے اونچا ہو گیا۔چاہے وہ کسی طبقہ یا مذہب کا
ماننے والا ہو ۔ جناب جاشم کے گلشن حیات میں یہ پہلی کلی ہے جو اس فرخندہ
صفات ،فرزند دلبند کی شکل میں کھلی جس کا نام والدین نے محمدجیش اور پیر و
مرشد نے جیش محمد رکھاجو آگے چل کر اپنی خدمات جلیلہ اور مساعی بلیغہ
جمیلہ کے سبب شیر نیپال ،فاتح نیپال ،قاضی القضاۃ،شیر رضا،فقیہ اسلام
وغیرہا القاب وآداب سے مشہور ہوئے ۔جس کی صلابت فکر ،اصابت رائے ،حسن عمل
،بلندی کردار ،صلاحیت وقابلیت ،دقت نظر ،فقہی بصیرت ،تبحر علمی کی طوطی ہند
ونیپال میں بول رہی ہے۔ یہی شیر نیپال جو فرید زمانہ،وحید یگانہ،یکتائے
روزگار ،منبع انوار ،مطلع اسرار ،مرکز علم وعرفان ،فقیہ عصر اور محقق دہر
عالم باعمل ،صوفی باکمال اور محدث عظیم ہیں جن کا سینہ محبت رسول کریم کا
مدینہ اور جذبہ اطاعت رسول کا گنجینہ ہے اور اسی فنافی الرسول اور عشق نبی
کی دولت سرمدی کے طفیل خدائے قادر وقیوم نے آپ کو مینارئہ عظمت ورفعت
بنایاہے ۔اور یہ ناقابل انکا رحقیقت ہے کہ جو خود کو عشق سرکار دوعالم ﷺ
میں فنا کردیتاہے وہی مہبط انوار وتجلیات الٰہی اور انعام یافتہ بارگاہ
رسالت مآب ہوتاہے ؎
مرد کامل بن گیا محبوب یزداں ہو گیا
جو مٹا راہ خدا میں شاہ دوراں ہو گیا
جب فروزاں آفتاب چرخ عرفاں ہو گیا
گل چراغ فتنہء باطل پرستاں ہو گیا
تعلیم و فراغت
آپ کے اساتذہ میں وقت کی مایہ ناز شخصیات ،نباض قوم وملت ،محدث و فقیہ ،
مفسر ومحقق ،فلسفی ومنطقی ، صاحبان فصاحت وبلاغت اور مفکرین اسلام ہیں جن
سے جی کھول کر علم و عرفان کاجام و سبو نوش کر کے علمی تشنگی د و ر کر تے ر
ہے ا و ر ا ن مخلصین اساتذ ہ نے بھی آپ کے سا تھ علمی جود و نو ال میں کو
ئی کمی نہ چھو ڑ ی ۔ حضو ر حا فظ ملت شا ہ عبد ا لعز یز مبارکپوری ، علا مہ
عبد الر ؤ ف بلیاو ی ، بحر العلوم مفتی ا فصل حسین مو نگیر ی ، بحر ا
لعلوم مفتی عبدالمنان اعظمی،حضرت علامہ سید عارف حسین رضوی، علامہ کاظم علی
بستوی اور علامہ قاری مفتی محمد ظہیرالدین رضوی و غیرہم خاص طور پر قابل
ذکر ہیں۔
جس تعلیمی و تر بیتی سفر کا آغاز محلہ کے مکتب سے شروع ہوا تھا وہ مدرسہ
اشرف العلوم کنہواں ، دارالعلوم علیمیہ مقصود پور اور منظر اسلام بریلی
شریف ہوتے ہوئے ۱۰؍ شعبان المعظم ۱۳۸۷ ھ مطابق ۲۴؍نومبر ۱۹۶۶ء میں ازہر
ہند دبستان علم وفن جامعہ اشرفیہ مبارکپور میں منتہی ہوا۔ جامعہ اشرفیہ کا
یہ پہلا دور تھاجس میں فضیلت کی دستار بندی ہوئی اور سب سے پہلے لشکر اسلام
کا قافلہ تیار ہوا ، اسی اول دستہ میں حضور شیر نیپال کی ذات گرامی باوقار
بھی ہے۔ دستار بندی کے بعد سجدئہ شکر اداکیا اور بچشم نم اپنے وطن عزیز کا
رخ کیا ۔دین کی خدمت و توسیع اور مسلک اہل سنت مسلک اعلیٰ حضرت کی ترو یج و
ا شاعت کے واسطے حضور حافظ ملت نے آپ کو روانہ فرمایاتاکہ کفرستان میں
اسلام کا چراغ روشن کیا جائے جس کی روشنی میں چل کر مسلمانان نیپال اپنی
عقل وفکر کا زاویہ بدلیں اور اسلامی تعلیمات کو سینے سے لگاکر مراسم کفریہ
اور معتقدات باطلہ کا جنازہ نکالاجاسکے ، اسلام کا بول بالا ہو اور حق کا
غلغلہ ہو ۔ یہ تمام امیدیں ایک ذات حضور شیرنیپال ہی سے وابستہ تھیں۔
کیونکہ اس وقت اس پایہ کے عالم بن کر افق ملک پر چمکنے والے سب سے پہلے شخص
آپ ہی تھے ۔اسی لئے بوقت دستاربندی حضورحافظ ملت نے فرمایا ’’آپ مقدمۃ
الجیش ہیں پہلے آپ آئیں‘‘ ۔ ا و ر بوقت رخصت گویا ہوئے’’میں آپ کو تنہا
لشکر اسلام بناکر بھیج رہاہوں‘‘۔ اور جب ۱۳۹۴ھ کے سہ روزہ ’’سرکار مدینہ
کا نفر نس‘‘ میں حضو ر شیرنیپال کی دعوت پر صدر کانفرنس کی حیثیت سے تشریف
فرماہوئے توفرحت وا نبساط میں جھومتے ہوئے ا ور اپنے مشن کی کامیابی کو
اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرماکر حضرت مفتی عبدالواجد سے مخاطب ہوکر
فرمایا’’مولانا جیش محمد صدیقی ایک قابل عالم دین ہیں ان سے بہت سی امیدیں
وابستہ ہیں مجھے امید ہے کہ اس علاقہ میں ان کے ذریعہ سنیت کی تبلغ واشاعت
ہوگی‘‘۔پڑھانے والا شاگر کی علمی لیاقت و صلاحیت اور اس کی فی قابلیت کو
جتنا جان سکتا ہے اتنا کوئی اور نہیں جان سکتا ۔حضور حافظ ملت جنہوں نے
حضور شیر نیپال کی تربیت فرمائی اور خاص طور پر کچھ زیادہ محنت آپ پر اس
لئے بھی فرمائی کہ ملک نیپال کفرستان ہے وہاں اسلام و سنیت کی ترویج و
اشاعت کی زیادہ ضرورت ہے۔اور فراغت کے وقت حضور حافظ ملت نے اپنے پروردہ
مفتی جیش محمد صدیقی کو علم و اخلاق اور ہر فن میں ماہر و کامل دیکھ کر ہی
یہ جملہ فرمایا کہ آپ کو تنہا لشکر اسلام بناکر بھیج رہاہوں ۔اور ۱۳۹۴ھ
کے سہ روزہ ’’سرکار مدینہ کا نفر نس‘‘ میں اپنے ماتھے کی نگاہوں سے دیکھ
لیا کہ ان کے بنائے ہوئے لشکر نے کس شان کا اور کس انداز کا مثالی کارنامہ
مذہب اسلام کی اشاعت کے لئے انجام دیا ہے۔حضور حافظ ملت کو آپ پر ہر
اعتبار سے اتنا اعتماد و وثوق تھا کہ جب ایک بار مدھوبنی سے کچھ لوگ
وہابیوں کی سرکشی و تمرد کی سرتابی کے لئے اور بد عقیدوں کو دنداں شکن جواب
دینے کے لئے ایک مناظر مانگنے کے مبارکپور آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے
فرمایا ـ’’نیپال میں تنہا مفتی جیش محمد صدیقی ایسا مناظر ہیں جو اس کام کے
لئے زیادہ موزوں ہیں ،آپ ان کے پاس جائے اور میرا حوالہ دیجئے وہ اس کام
کو انجام دینے کے لئے جائیں گے اور وہابیوں سے مقابلہ کرکے انہیں شکست دیں
گے‘‘۔
تدریسی خدمات
فراغت کے بعد ایک سال مادر علمی دارالعلوم علیمیہ ضلع سیتا مڑھی ( بہار)
جہاں سے تیسرے تعلیمی سفر کا آغاز فرمایاتھا ، اراکین مدرسہ اور استاذمعظم
حضرت مولانا محمد کاظم علی بستوی کے ارشاد پر مدرس منتخب ہوئے ۔ پھر اسی
سال شعبان کی تعطیل کلاں کے موقع پر جنکپور مکتب اصلاح المسلمین کے ممبران
کی دعوت پر جنکپور تشریف لے آئے ۔ اس شہر میں ایک مرکزی مدرسہ قائم کرنے
کا ارادہ زمانہ طالب علمی ہی سے تھا اس لئے حامی بھرلی ا و ر تن و جان اور
پورے خلوص و للہیت کے ساتھ دینی و قومی اور تعلیمی خدمات میں مصروف ہوگئے۔
کچھ عرصہ کاٹھمانڈو شاہی کشمیری مسجد کے امام منتخب ہوئے اور پھر ایک سال
بعد رمضان میں اپنے خوابوں کے شہر جنکپور تشریف لا ئے ا و ر وہا ں زمین
خرید کر دارا لعلوم حنفیہ کی بنیاد ڈالی جو آگے ترقی ا و ر شہر ت حاصل
کرنے کے بعد جامعہ حنفیہ غوثیہ کے نام سے موسو م و معروف ہو ا ۔ یہ نام
مرشد اجازت حضور احسن العلماء علیہ الرحمہ نے تجویز فرمایا۔ آج آپ کی شب
و روز کی انتھک کوششوں ا و ر محنتوں کی بدولت جامعہ دو خوبصورت عالی شان
عمارتوں پر مشتمل ہے ۔پہلی عمارت دومنزلہ ہے ہر منزل تین بڑے کمروں پر
مشتمل ہے، بالائی منزل کے ایک کمرہ میں موئے مبارک ہے ،دوسری عمارت سہ
منزلہ ہے، ہر منزل میںایک وسیع و عریض ہال ہے جس میں تقریبا ساٹھ ستر بچے
بآسانی سما سکتے ہیں اور ہرایک کے دونوں بازو میں دو کمرے ہیں۔ پہلی عمارت
کے سامنے صحن جامعہ سے متصل لب سڑک عظیم الشان تین منزلہ مسجد حنفیہ
ہے۔حضرت کی قیام گاہ ودرس گاہ کے بالمواجہ تین منزلہ دارالحدیث کی تعمیر
بھی مکمل ہوچکی ہے جس میں عنقریب قال اللہ وقال الرسول کی صدائے سحر انگیز
وشیر آمیز سے فضا میں رس گھولے گی۔بغل کی زمین خرید کر اس کے بعض حصہ میں
مطبخ تعمیر کیا گیا ہے اور کچھ حصہ ابھی خالی ہے۔مسجد کے جانب شمال سابق
مکتب ہے جو دیوا روںکے خستہ اور بوسیدہ ہوجانے کی وجہ سے ا ز سر نو دو
منزلہ عمارت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس میں محلہ کے طلبہ وطالبات کی
تعلیم وتربیت کا انتظام ہے۔ یہ حضور شیرنیپال کے کارنامے ا ور خدمات کا ایک
عظیم رخ ہے۔جہاںمسجد کی پہلی چھت ڈھالنے پر پابندیتھی،جہاں اذان تودرکنار
مائک سے تقریر کرنے پر بھی پابندی تھی آج وہاں آپ کی مجاہدانہ جدوجہد کے
سبب تین منزلہ مسجد لوگوں کو دعوت نظارہ دے رہی ہے جس میں پانچوں وقت کی
اذان مائک سے ہورہی ہے ۔بانی جامعہ حضرت مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی دام
ظلہم العالی خود جامعہ کے مہتمم و سربراہ اعلیٰ ،شیخ الحدیث ، صدرالمدرسین
، دارالافتاء کے مفتی و قاضی اور حنفیہ غوثیہ جامع مسجد کی امامت کے عہدے
پرفائز رہےہیں۔فی الوقت آپ اپنی بستی میں جہاں آپ نے طلبہ کے لئے ایک
عظیم ادارہ جامعہ برکات النبی اور طالبات کے لئے جامعہ برکات الزہرا قائم
کیا ہے اسی دیکھ بھال فرمارہے ہیں اور جامعہ کے طلبہ کو علمی جام پلانے میں
مصروف عمل ہیں اور ساتھ خانقاہ برکات کی سجادگی کو زینت بخش کر عوام اہل
سنت کے ایمان و عقیدے کی حفاظت بھی فرمارہے ہیں اور ان کی روحانی تربیت
بھی۔ |