سمندر میں بہنے والے برف کے تودے کی چوٹی کو دیکھ کر جو
جہازی اس کی جسامت کا غلط اندازہ لگائے اور خطرناکی کونظر انداز کرکے اس
سےٹکراجائےتو وہ اپنے ساتھ جہازکے سارے مسافروں کی تباہی وبربادی کا سبب بن
جاتا ہے۔ وطن عزیز کی باگ ڈور بھی فی الحال ایک ایسے کپتان کے ہاتھ میں ہے
جسے صرف آئینہ نظر آتا ہے۔ نرگسیت کا شکار مودی جی دن مختلف زاویوں سے
اپنا عکس دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ ان کو اپنی ذات سے باہر آنے
فرصت ملے تو پتہ چلے کہ ملک کے عوام کس قدر پریشان ہیں۔ محمداخلاق کے
معاملے میں ہجومی تشدد پرسارےملک میں بے چینی کی شدید لہر دوڑ گئی ۔ قوم
احتجاج کی خاطر سڑکوں پر اتر آئی تھی لیکن سنگھ پریوار نے گئو رکشا کا
سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے قاتلوں کو تحفظ فراہم کیا ۔ اس طرحگئوتنک وادیوں
کے دل سےقانون کا ڈر سے نکل گیا ۔ عوام کے لیے یہ عام سی واردات بن گئی
ہے۔گائے کے علاوہ بچہ چوری کے نام پر بھی ہجومی تشدد شروع ہوگیا اور اس میں
مذہبی تفریق بھی ختم ہوگئی تو اس پر کوئی ردعمل یا مذمت کا اظہار ہی نہیں
ہوا ۔ اجتماعی بے حسی کے اس مایوس کن صورتحال پر حفیظ میرٹھی ایک شعر
معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
میدانِ کارزار میں آئے وہ قوم کیا
جس کا پردھان آئینہ خانے میں رہ گیا
سماجی کارکن تحسین پونا والا نے گزشتہ سال عدالت عظمیٰ میں ہجومی تشدد کے
خلاف ایک مفاد عامہ کی عرضی داخل کی تھی۔ ان کے وکیل سنجے ہیگڑے نے ان
واقعات سے ننے پ کے لیےمانو سرکشاقانون (ایم اے ایس یو کے اے) نافذ کرنےکا
مشورہ دیا تھا۔ اس میں نوڈل آفیسر، ہائی وے پٹرول، ایف آئی آر چارج شیٹ
اور جانچ افسران کی تقرری جیسےا قدامات تجویز کیے گئے تھے۔ اس پر ۶ ستمبر
۲۰۱۷ کوسپریم کورٹ نے گئو رکشا کے نام پر تشدد پر روک لگانے کے لیے ہر ضلع
میں نوڈل افسر بنانے کا حکم دیا۔ اس موقع پر مرکزی حکومت نے نظم و نسق
ریاستوں کے ذمہ داری قرار دے کر صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کر کے
شترمرغ کی مانند اپنا سر ریت میں چھپا لیا۔ اس کے بعد تشار گاندھی نے ایک
اور عرضی داخل کرکے سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ہریانہ، راجستھان اور
اتر پردیش میں وقوع پذیر ہونے والی ۷ گئوتنک وادی وارداتوں کا ذکر کیااور
توہین عدالت کی شکایت داخل کردی۔اس پر سپریم کورٹ نے مذکورہ ریاستوں کے چیف
سکریٹری کو پوچھا، کیوں نہ ان کے خلاف ہتک عدالت کا مقدمہ چلایا جائے؟
تشار گاندھی کی درخواست میں گئو رکشا کے نام پر قائم تنظیموں پر روک لگانے
کے مطالبے پر ٹھوس اقدام کرنے کے بجائے سپریم کورٹ نے پر تشدد روکنے کی
نصیحت پر اکتفاء کیا ۔اس نوٹس کے جواب میں یوپی سرکار کی طرف سے کہا گیا کہ
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ریاستوں میں نوڈل افسر بحال کردیا گیا ہے لیکن
اگر اس کے باوجود ہجومی تشدد نہیں رکا ۔ تو اس کا کیا فائدہ ؟ جون کے اندر
اترپردیش کے ہاپوڑ دو مسلمانوں کو پر گائے کے گوشت کی افواہ پھیلا کر حملہ
کردیا گیا اور ان میں سے ایک قاسم جان بحق ہوگیا۔ غیر انسانی طریقہ سے اس
کی لاش کو گھسیٹ کر لے جانے والی ویڈیو کے منظر عام پر آجانے سے پولس کو
معافی مانگنی پڑی۔ پولس نے دوحملہ آوروں پر قانونی کارروائی کی بات کہی
لیکن اس کے دو روز بعد ہاپوڑ ہی میں ایک اور ۶۵ سالہ شخص کو تشدد کا نشانہ
بنایا گیا اس لیے کہ ان دہشت گردوں کو پتہ ہے کہ پولس ان کی اپنی ہے اس سے
انہیں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ہم یہ قتل و غارتگری نہیں چاہتے ، ہمیں ہجومی
تشدد نہیں چاہیے ، ہم تشدد کا شکار ہونے والوں کا تحفظ چا ہتے ہیں مگر
انتظامیہ اور سیاستداں حملہ آوروں کی حفاظت کرتے ہیں ایسے میں صورتحال پر
قابو پانا ممکن نہیں ہے۔ عدالت انتظامیہ سے تجاویز طلب کرتی ہے اورہائی وے
پر پولس گشت کی ہدایت تودیتی لیکن کسی مجرم کو کیفرِ کردار تک نہیں پہنچاتی
یہی وجہ ہے کہ اس کےکھوکھلے پندو نصائح صدابہ صحرا ہوجاتے ہیں۔ اس معاملے
کو عدالت میں جھولتے ہوئے دس ماہ کا عرصہ ہوگیا لیکن اس بابت سنجیدگی کا
فقدان رہا۔ جسٹس لویا کی موت کے معاملے میں تو ایک ہی نشست میں فیصلہ سنا
دیا گیالیکن اس سنگین معاملے میں مجرمانہ ٹال مٹول جاری رہی۔ اس بار بھی
جسٹس مشرا نے یہ کہہ کر فیصلہ محفوظ رکھ لیا کہ ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری
ہے کہ وہ اس طرح کی وارداتیں نہ ہونے دیں ۔ گئو رکشکوں کے ذریعہ تشدے کے
واقعات کو روکنے کے لئے عدالت تفصیلی ہدایت جاری کرے گی۔ وہ ہدایات کب جاری
ہوں گی اور ان پر کیسےعملدرآمد ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔ بقول غالب ؎
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سرہونے تک
اس مقدمہ کی سماعت کے دوران تشار گاندھی کی وکیل اندرا جے سنگھ نے ہجومی
تشدد کا شکار ہونے والوں کو معاوضہ دینے کے لیے ان کے مذہب، ذات اور جنس کو
دھیان میں رکھنے کی تجویز پیش کی جسے چیف جسٹس نے مسترد کرتے ہوئے کہا ’’
یہ مناسب نہیں ہے۔ مظلوم بہر حال مظلوم ہوتا ہے اور اسے الگ الگ خانوں میں
نہیں بانٹا جا سکتا‘‘۔ اصولی طور پر چیف جسٹس کا موقف درست ہے لیکن جس
معاشرے میں اوپر سے نیچے تک تفریق و امتیاز کا بول بالہ ہو وہاں چکنی چپڑی
باتوں سے کام نہیں چلتا۔ عدالت عظمیٰ کو غالباً احساس نہیں ہے کہ اب یہ آگ
کہاں تک پہنچ چکی ہے؟ اس کی جانب توجہ دلاتے ہوئے اندرا جئے سنگھ نے کورٹ
کو بتایا کہ اب تو غیر سماجی عناصر کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وہ گائے
کے علاوہ بچہ چوری کے نام پر قانون ہاتھ میں لے کر لوگوں کو مار رہے ہیں۔
مہاراشٹر میں ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ اندراجی معلومات ناقص ہے ۔ اس طرح کے
واقعات راجستھان سے لے کر اڑیسہ تک ملک کے بیشتر صوبوں میں ہوچکے ہیں۔
گزشتہ ۲ ماہ میں ملک کے ۸ صوبوں میں اس طرح کم ازکم ۱۳مذموم وارداتیں رونما
ہو ئی ہیں ۔ ان سب میں واٹس ایپ کی مدد سے افواہ پھیلائی گئی اور بے قصور
لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
یکم جولائی کو مہاراشٹر کے دھولیہ ضلع میں جن ۵ قبائلی لوگوں کو بچہ چوری
کے الزام میں دن دہاڑےجان سے ماردیا گیا ان کے نام تھے بھارت شنکر
بھونسلے،داداراو شنکر بھونسلے، راجو بھونسلے، بھارت مالوےاور اناگو انگولے
۔ ۲۸ جون کو تریپورہ کے اندر ۳ مختلف واقعات میں ۳ افرادکا بہیمانہ قتل
کردیا گیا۔ ان میں سے ایک اترپردیش کا رہنے والا ظہیر خان تھا جو ٹھیلہ
لگاتا تھا ۔ دوسری چار لوگوں کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہینامعلوم خاتون تھی
اور تیسرےسکانتا چکرورتی کا تقرر حکومت نے افواہوں کے خلاف بیداری کے لیے
کیا تھا۔ ۲۶ جون کو راجستھان سے بھیک مانگنے کے لیے احمدآباد آنے والی
شانتی بین مارواڈی کو ہجوم نے مارڈالا۔ ۸ جون کو آسام میں فلمساز نیلوتپال
داس اور ابھیجیت ناتھ کو ان کی گاڑی سے نکال کر ہلاک کردیا۔ ۸ جون کو ہی
مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں بھرت سونونے اور شیواجی شندے کو چور سمجھ
کر گاوں والوں نے لاٹھی ڈنڈوں سےپیٹ پیٹ کرقتل کردیا۔ اتفاق سے ان تمام
ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ دیگر جماعتوں کی
حکومتیں اس وباء سے محفوظ ہیں ۔
۲۶ مئی کو حیدرآباد میں ماہِ رمضان کی خیرات جمع کرنے والی مخنث کوہجوم نے
بچہ چور گروہ کا حصہ سمجھ کر مارڈالا۔ ۲۳ مئی کو بنگلور میں دونوجوانوں نے
کالورام کو دیکھا کہ وہ بچوں کا چاکلیٹ دے رہا ہے تو اسے باندھ کر پیٹنے
لگے ، ہجوم جمع ہوگیا اور اس نے کالورام کو ہلاک کردیا۔ ۲۲ مئی کو وشاکھا
پٹنم آندھرا پردیش میں ایک نامعلوم نوجوان کو برہنہ کرکے کھمبے سے باندھا
گیااور پیٹ پیٹ کراس کا قتل کردیا گیا۔ وہ بیچارہ ہندی میں اپنی بات بتاتا
رہا لیکن وہ کسی نے اس پر توجہ نہیں کی۔ ۲۲ مئی کو تلنگانہ کے دومقامات
بھونگیری اور نظام آباد میں دوافراد کو بچہ چور ی کے الزام میں مارڈالا
گیا ۔ ان میں نملاّ بالاکرشنا اپنے رشتے داروں سے ملنے آیا تھا اوردیویا
نائک آم کے باغ میں کام کرنے والے مزدوروں میں شامل تھا۔
۱۰ مئی کو تمل ناڈو کے تروناّملائی میں رکمنی نامی ایک سن رسیدہ خاتون اپنے
اہل خانہ کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہی تھی ۔ ان لوگوں نے راستہ پوچھنے کے
لیے گاڑی روکی تو رکمنی نے وہاں موجود بچوں کو مٹھائی دے دی ۔ہجوم کو اس
پربچہ چور ہونے کا شبہ ہوگیا اور اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ ان میں سے
بیشتر واقعات کی ویڈیو بنا کر اسے ڈھٹائی کے ساتھ پھیلایا گیا۔ یہ کس بات
کی علامت ہے؟ ہمارے معاشرہ کس قدر درندہ صفت ہوچکا ہے۔ جنگل کا قانون اسے
نہیں تو اور کسے کہتے ہیں ۔ ایسے میں چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ ’’وہ جو بھی
ہیں، وہ قانون اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتے ، اس طرح کے واقعات رونما نہیں
ہوسکتے۔ اس کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘ کس کام آئے گا۔ کاش کے
وہ ایک سال قبل ویڈیو میں موجود چند خاطیوں کو قرار واقعی سزا سناتے تو
قانون کا احترام بحال ہوجاتا لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ اس کا امکان نظر
آتا ہے۔ حکومت واٹس ایپ کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہے۔ واٹس ایپ تو ذریعہ
ہے اب کوئی اس کے ذریعہ نفرت پھیلائے تو اس کا کیا قصور؟ اپنے بھکتوں کی
خوشنودی کے سنگھ پریوار نے ملک کے شہریوں جس درندے ک منہ پر خون لگا دیا ہے
اس پر محمد علوی کا یہ شعر (مع ترمیم) صادق آتا ہے؎
میرے اندر کا درندہ جاگ اٹھا
پڑھ کے حیراں ہوں خبر اخبار میں
|