موجودہ پاکستان اور قدیم دریائے سندھ کی وادی کو یہ اعزاز
حاصل ہے کہ دنیا کی پہلی اور قدیم ترین یونیورسٹی اس سرزمین پر تھی۔پاکستان
کے جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی سے تقریباً بتیس (32) کلومیٹر کے
فاصلے پر جی ٹی روڈ سے تھوڑا ہٹ کر ٹیکسلا کا شہر ہے ۔ٹیکسلا یعنی کٹے ہوئے
پتھروں کا شہر،جو آج ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے، کبھی موریہ ،کشان اور
گندھارا ریاستوں کا دارلسلطنت تھا۔ قدیم ٹیکسلا کے کھنڈرات اس شہر کے پاس
موجود ہیں۔ ہندوؤں کی مقدس کتاب رامائن کے مطابق اس شہر کا نام بھرت کے
بیٹے کے نام پر ٹیکسلا رکھا گیا اور وہی اس شہر کا پہلا حکمران تھا۔1980
میں اس قدیم شہر کے کھنڈرات دریافت ہوئے جن میں سے کچھ کھنڈرات 3000 سال
قبل مسیح سے بھی زیادہ پرانے ہیں۔ سال 2006 میں اسے پاکستان کا بہترین
سیاحتی مقام قرار دیا گیا۔
700 قبل مسیح میں قائم ہونے والی ٹیکسلا یونیورسٹی دنیا کی پہلی اور قدیم
ترین یونیورسٹی ہے۔بر صغیر کی دوسری قدیم اور پہلی باقاعدہ یونیورسٹی
نالانڈہ میں 400 قبل مسیح میں قائم ہوئی اور ان دونوں یونیورسٹیوں کا وجود
تعلیم کے شعبے میں بر صٖغیر کے لوگوں کی عظیم پیش رفت تھی۔ ٹیکسلا
یونیورسٹی کو کچھ لو گ آج کی جدید یونیورسٹیوں سے تقابل کرتے ہوئے باقاعدہ
یونیورسٹی نہیں مانتے کیونکہ اس یونیورسٹی کابا قاعدہ کوئی کیمپس نہیں تھا۔
اس کے باقاعدہ کلاس روم نہیں تھے۔ کوئی باقاعدہ سلیبس نہیں تھا، مگر اس سب
کے باوجود بر صغیر کے تمام نامور گرو یا نامور استاد اس ایک جگہ اکٹھے طلبا
کو اپنے علم سے فیض یاب کر رہے تھے۔ گورو کل یعنی گورو یا استاد کی جھونپڑی
یا رہائش گاہ ہی کلاس روم ہوتی تھی۔ اس وقت بچوں کا ہوسٹل بھی استاد کا گھر
ہی ہوتا تھا۔
ٹیکسلا یونیورسٹی کوئی عام ادارہ نہیں تھی بلکہ اس کو اس وقت برصغیر کا
پوسٹ گریجویٹ سنٹر تصور کیا جاناچاہیے۔یہاں پڑھنے آنے والے انتہائی ہونہار
طالب علم ہوتے تھے اور پڑھانے والے اعلیٰ پائے کے استاد۔ بر صغیر کے اس وقت
کے کلچر کے مطابق ہر طالب علم اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر اپنے باپ یا
اپنی ماں سے حاصل کرتا، یہ اس وقت کی پرائمری تعلیم تھی۔ جب اس کی عمر آٹھ
سال کے لگ بھگ ہو جاتی تو اسے مقامی گرو یا استاد کے سپرد کر دیا جاتا۔ یہ
مقامی گرو اس وقت کے آشرم میں موجود ہوتے جو آشرم میں آنے والے طالب علموں
کو کم از کم چار سال تعلیم دیتے۔ یہ اس وقت کی سیکنڈری تعلیم تھی۔بہت سے
طالب علم اس کے بعد مخصوص مضامین میں مہارت کے طلب گار ہوتے۔ اس مقصد کے
لئے اس دور میں ٹیکسلا واحد مقام تھاجہاں مخصوص مضامین میں مہارت رکھنے
والے اور اسے پڑھانے والے اساتذہ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ لوگ دور دراز سے
اپنے پندرہ سولہ سالہ بچوں کو علم کے حصول کے لئے ٹیکسلا بھیجتے۔ 700 قبل
مسیح میں برصغیر کے انتہائی فاصلوں سے آئے ہوئے طالب علم اس ٹیکسلا
یونیورسٹی میں موجود تھے۔ان طالب علموں میں کاشی، کو شلہ ( موجودہ جنوبی
بھارت کی دو ریاستیں) اورمگھدہ (موجودہ بنگال اور بہار)جیسی دور افتادہ
ریاستوں کے طالب علم بھی شامل تھے۔یہ سبھی ہائر ایجوکیشن کے متلاشی تھے اور
اس دور میں ان کی پیاس بجھانے کا کوئی دوسرا ہائر ایجو کیشن سنٹر نہ تھا
سوائے ٹیکسلا کے۔
700 قبل مسیح میں اس ایک جگہ گیارہ ہزار (11000)کے لگ بھگ طلبا ساٹھ(60) سے
زیادہ مضامین میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔بدھ مت کے دینیاتی نصاب سے
لے کر تیر اندازی، شکارو دیگر ملٹری مضامین، قانون،معاشیات ،زراعت،طب،
سرجری اور اس وقت کے مروجہ تمام مضامین کے استاد وہاں موجود تھے۔ اس دور کی
سب سے خوبصورت بات یہ تھی کہ استاد طلبا سے پڑھانے کا معاوضہ لینا معیوب
سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک علم ایک مقدس کام تھا اور کوئی بھی رقم اس کا
متبادل نہیں ہو سکتی تھی۔ طلبا آتے اور استاد کے ساتھ اس کے گھر پر
ٹھہرجاتے۔ ان کا رہنا، کھانا، پینا، سونا، اور پڑھنا سب استاد کی ذمہ داری
تھی۔حکومت اور اس دور کے مخیر حضرات استاد کی مدد کرتے اور طلبا کے اخراجات
برداشت کرتے۔طلبا کے والدین کبھی کبھار اس سے ملنے استاد کے گھر آتے تو اسے
ایک جوتا یا کوئی چھوٹی موٹی چیز تحفے کے طور پر نذر کرتے اور یہ استاد کے
لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہوتا۔ان اساتذہ کے نزدیک علم ایک مقدس کام تھا اور
کوئی بھی رقم اس کا متبادل نہیں ہو سکتی تھی۔اس وقت امتحانی نظام نام کی
کوئی چیز نہیں تھی۔ عام طور پر مہارت حاصل کرنے میں آٹھ دس سال لگ جاتے ۔
استاد جب مناسب سمجھتا کہ اس کا شاگرد اپنے مضمون میں مہارت حاصل کر چکا ہے
اسے آزاد کر دیتا۔ اس کا علم کسی کانووکیشن اور کسی کاغذی ڈگری کا محتاج
نہیں تھا۔ ٹیچر کا زبانی حکم ہی سب کچھ تھا۔
ٹیکسلا میں پڑھانے والے استاد اپنے وقت کے ذہین ترین لوگ تھے۔ ان کے لئے
ضروری نہیں تھا کہ وہ ایک ہی مضمون کی تعلیم دیں بلکہ ہر استاد کئی کئی
مضامین میں مہارت رکھتا تھا۔ ہندو مت، بدھ مت اور سنسکرت میں ان کا بہت کام
ہے اور اس کام کا تاثر آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ ان بہترین اساتذہ میں
چانکیہ جو عرف عام میں کوٹلیہ بھی کہلاتا ہے، پولیٹیکل سائنس کا بر صغیر
میں بانی اور ماہر معاشیات تھا۔وہ چندر گپت موریہ کا مشیر تھا اور اس نے
موریہ سلطنت کی تعمیر میں چندر گپت کی معاونت کی۔ کپورتھلہ کا رہنے
والامشہور طبیب ’چاراکا‘ جسے آیو ویدک طب کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ،
بہت عرصے تک ٹیکسلا میں پڑھتا اور پڑھاتا رہا۔کلا سیکل سنسکرت کے نامور
استاد ’پانانی ‘ کا تعلق بھی ٹیکسلا سے ہی ہے۔بدھ کے معالج’ جیویکا‘ نے بھی
ٹیکسلا ہی سے تعلیم حاصل کی اور یہاں تدریس بھی کی۔
قدیم ٹیکسلا کے کھنڈرات آج کے جدید شہر ٹیکسلا سے کچھ فاصلے پر ہیں۔ یہ
کھنڈرات 1913 میں جان مارشل کی بیس سالہ کی سخت محنت اور کھدائی کے
بعدمنظرعام پر آئے۔یہاں 3360 قبل مسیح سے لے کر چوتھی صدی قبل مسیح تک کے
مختلف وقتوں کے پرانے چار شہروں کے کھنڈرات تین مختلف مقامات پر ہیں جو ایک
دوسرے سے بہت قریب ہیں ۔ یہاں بدھ مت کی بہت سی پرانی یادگاریں ہیں۔
یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ نے 2010 میں اسے دنیا کی ان قدیم یادگاروں میں
شمار کیا جو مناسب حفاظت اور نگہداشت نہ ہونے کے سبب تباہی کا شکار
ہیں۔2017 سے تھائی لینڈ اسے محفوظ کرنے میں حکومت پاکستان کا شریک کار
ہے۔ٹیکسلا کا قدیم شہر اور وہاں کی قدیم تباہ شدہ یونیورسٹی اس دھرتی کے
باسیوں کے لئے ان کے شاندار ماضی کی ایک حسین یادگار ہے اور اس کی حفاظت
ہمارا قومی فریضہ۔
|