(WILLIAM JONES)
ولیم جونز28 ستمبر ، 1746کوولیم اور مریم پکا جونز کے ہاں لندن، انگلینڈ
میں پیدا ہوا تھا،. ان کے والد ایک ریاضی دان تھے اور سر آئزک نیوٹن کے
دوست تھے ۔ ولیم اپنے بیٹے کی پیدائش کے تین سال بعد فوت ہو گیا۔ اس نے
اپنے پیچھے بہت معمولی اثاثے چھوڑے۔ اتنے معمولی کے ان سے ان کی بیوہ. اور
بچے کا خرچہ بھی مشکل سے پورا ہوتا ۔ولیم کی ماں نے اپنے بیٹے کی پڑھائی پر
خصوصی توجہ دی اور جب ولیم اس قابل ہوا کہ سکول جا سکے تو اس کی ماں نے اسے
انگلینڈ کے سب سے بڑے سکول میں داخل کرا دیا جو اس وقت کا مانا ہوا سکول
تھا۔ جونز نے اپنے آپ کو ایک بہترین طالب علم کے طور پر منوایا اور کئی ایک
وظائف بھی حاصل کیے۔اس نے مشرقی زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی، عبرانی،
فرانسیسی، اور اطالوی کی تعلیم حاصل کی۔
ولیم جونز ایک انگریز مستشرق اور ماہر زبان تھا، اس کے علاوہ وہ ایک بہترین
قانون دان بھی تھا. کلکتہ میں ہائی کورٹ کے ایک جج کے طور پر خدمت کرتے
ہوئے وہ قدیم بھارت کے بارے میں متجسس ہوا اور ایک طالب علم بن گیا ایسا
طالب علم جس نے آگے چل کر بنگال کے ایشیاٹک سوسائٹی کی بنیاد رکھی. ولیم
جونز اپنے اس نظریے کی وجہ سے بہت مشہور ہوا کہ تمام زبانیں ایک ہی ذریعے
سے پڑھی جا سکتی ہیں ۔اس نے اپنی علمیت ،وسطی ہندوستان کی تاریخ، زبان اور
ثقافت میں بڑے پیمانے پر دلچسپی پیدا کرنے میں مدد دی، اور نئی لسانی تحقیق
میں راہیں کشادہ کیں۔
سر ولیم جونز نے اپنی ابتدائی عمر سے ہی کثیر لسانی مہارت کا مظاہرہ شروع
کر دیا تھا۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہے اگر کوئی انسان بیک وقت 6 زبانیں
جانتا ہے تو وہ ماہر لسان ہیں ۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جونز بیک وقت
28 زبانیں جانتا تھا اور ان میں سے بیشتر اس نے اپنی مہارت سے خود سیکھی
تھیں۔
جونز نے 1764 میں یونی ورسٹی کالج آکسفورڈ میں داخلہ لیا۔وہ پہلے ہی اپنے
شاندار وظیفے کی بنا پر ایک خاص مقام حاصل کر چکا تھا۔ اس کالج نے جونز کو
موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے مشرق وسطی کے علوم، فلسفہ، اورینٹل ادب، یونانی
اور عبرانی کے علم کو بڑھا سکے۔ یہاں اس نے ہسپانوی اور پرتگالی زبان بھی
سیکھی اور چینی زبان میں مہارت حاصل کی۔
کالج میں اس نے وظیفہ حاصل کر کے اپنے اخراجات خود اٹھانے شروع کر دیے ۔ اس
کے ساتھ ساتھ اس نے ٹیوٹر کے طور پر پڑھانا شروع کر دیا۔
ولیم جونز نے اپنی بیچلر کی ڈگری 1768 میں حاصل کی۔لیکن اسے پہلے ہی وہ محض
22 سال کی عمر میں ایک مشہور مستشرق بن چکا تھا ۔ اور مشرقی علوم میں مہارت
حاصل کر رہا تھا۔اسی سال جونز کو ایک کرسچین ششم (ڈنمارک) کی طرف سے کہا
گیا کہ وہ فارسی میں موجود نادر شاہ درانی کے حالات زندگی کو فرانسیسی میں
ترجمہ کرے۔ڈنمارک کا بادشاہ نادر شاہ درانی کے بارے میں وہ مینیو سکرپٹ
دورہ برطانیہ میں اپنے ساتھ لایا تھا۔یہ کام کافی مشکل تھا کیونکہ جونز کا
بیچلر میں یہ آخری سال تھا ۔ اس کے لیے اپنی پڑھائی مکمل کرنا ضروری تھا ۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم تھی کہ یہ مینیو سکرپٹ بہت اہمیت رکھتا تھا
لیکن اس کے ترجمہ کرنے کے لیے جونز کو کچھ وقت درکار تھا۔ ولیم جونز نے اس
چیلنج کو قبول کیا اور 1770 میں اس کا یہ ترجمہ نادر شاہ کی زندگی کی تاریخ
کے طور پر شائع ہو گیا۔ اس ترجمے میں ایشیا کے تعارف کے ساتھ فارسی کی
تاریخ بھی موجود ہے۔اس ترجمے کی اشاعت نے جونز کو ایک ماہر مترجم اور زبان
کے عالم کے طور پر مشہور کر دیا۔ نیز اس کی اشاعت سے جونز کی ساکھ کو بہت
تقویت ملی۔اور مشرق وسطیٰ کے کاموں میں یہ پہلا کام تھا جو جونز نے
کیا۔1771 ء میں جونز نے فارسی زبان کی ایک لغت مرتب کی ۔یہ لغت مغرب میں
انگریزی زبان میں شائع ہونے والی کئی لغات سے بہتر ثابت ہوئی۔ اس لغت کے
لاکھوں کی تعداد میں ایڈیشن فروخت ہوئے ۔ اس کام کو کرنے کے لیے جونز نے
بہت تحقیق کی اور ایسے اصول و ضوابط بھی مقرر کیے جن کے ذریعے آج بھی زبان
پر اور لغت پر کام کرنے والے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
اسی دوران جونز نے مزید تین کتب بھی تصنیف کیں جن میں 542 صفحات کی
PoeseosAsiaticaeCommentariorum (1774),
بھی شامل ہے۔لیکن ان کتب کو وہ اہمیت نہ مل سکی ۔ جو جونز کو ابتدائی کام
سے حاصل ہوئی۔ لیکن ان سے جونز کے علمی کام میں وسعت پیدا ہوئی اور کئی
حوالوں سے جونز کے کام کو تقویت ملی۔یہاں تک کے جونز کو اس کے اصلی نام کے
بجائے ان ناموں سے پکا را جانے لگا۔
Persian Jones, Oriental Jones, and Linguist Jones۔
یہ جونز کا سب سے اہم کارنامہ تھا یہی سے اسے ماہر لسانیات کا خطاب
ملا۔لندن میں ان برسوں کے دوران جونز نے شاعری بھی لکھی۔ اس نے برطانیہ کی
دریافت کے متعلق ایک رزمیہ بھی لکھا ۔ جسے وہ مکمل نہ کر سکا۔البتہ اس نے
اپنی نظموں کے مجموعے شائع کیے۔یہ نطمیں مشرق وسطیٰ کی کلاسیکی شاعری سے ہم
آہنگیت رکھتی ہیں۔جونز نے 18 جون 1773 میں ایم اے آرٹس کی ڈگری حاصل کی ۔اس
وقت جونز سے کہا گیا کہ وہ یونی ورسٹی میں خطبہ پیش کریں۔اس نے اس خطبے کی
تیاری کر لی۔ لیکن چونکہ یہ خطبہ امریکی پالیسیوں کے خلاف تھا اس لیے یونی
ورسٹی میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ بعد میں یہی خطبہ ترمیم شدہ حالت میں
آکسفورڈ پریس سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ علمی سماجی اور لسانی موضوعات پر اس
کے شائع شدہ مضامین نے اسے سماج میں شہرت عطا کی۔اور وہ رائل سوسائٹی کا
ایک ممبر بن گیا۔ 1773 ء میں جونز ڈاکٹر سمیوئل جانسن کی لٹریری گروپ کا
ممبر بن گیا۔ اس گروپ میں کئی نامی گرامی لوگ تھےجن میں کئی تو اپنے ادبی
کارناموں کی وجہ سے یورپ میں بیت مشہور تھے ان لوگوں میں سب سے زیادہ مشہور
درج ذیل ہیں ۔
James Boswell, Edmund Burke, David Garrick, Thomas Percy, and Adam
Smith.
ان لوگوں کے نام و مرتبے کے باوجود جونز نے ہمیشہ اپنی شخصیت کی کشش کو
برقرار رکھا۔
مالی دقتوں کی وجہ سے جونز نے قانون کا مطالعہ بھی شروع کر دیا۔ 1770 میں
لندن ٹیمپل میں داخلہ لیا ۔ لیکن اس کے باوجود جونز نے ترجمے کا کام جاری
رکھا۔ اس نے قانونی پیچیدگیوں اور تکنیکوں کے ساتھ ساتھ قانونی فلسفے کا
مطالعہ بھی شروع کر دیا۔ 1774 میں وہ بار میں داخل ہو گیا اور ایک ماہر
قانون وکیل اور آکسفورڈ فیلو کے طور پر کےساتھ بھی کام کیا۔ اور امریکہ میں
ریولیشن کے مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔اس طرح قانون Benjamin
Franklin زندہ رہ گیا۔اس نےپیرس میں علم قانون کی سٹڈی کے ساتھ وہ ماہر
سکالر کے طور پر مشہور ہوا۔ 1776 میں جونز کو ایک دیوالیہ شدہ محکمے
(قانون) میں کمشنر بھرتی ہو گیا۔ یہاں اس نے قانون کے متعلق اپنا ایک
نظریہ(1781) پیش کیا ۔ یہ ایک امریکی قانون کے متعلق ایک شفاف نظریہ تھا۔
جس نے دنیا کے دوسرے قوانین کے مقابلے میں اپنی ایک حیثیت متعین کی۔ اس کے
کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ اور بعد کے آنے والے قانون دانوں نے اسے بھرپور
استفادہ کیا۔ یہ کام انگریزی اور امریکی وکلاء کے لیے ایک معیار بن
گیا۔1779 میں جونز نے ایسوس کے ترجمے کا کام کیا۔جو ایتھنز کے قانون وراثت
سے متعلق تھا۔
اپنے قانونی کیرئیر کے دوران جونز نے امریکی سماج اور معاشرے میں انصاف کی
بات کی اور حکومتی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف کھلم کھلا تنقید بھی کی۔ اس پر
مستزاد اس کی تحریریں تھیں جس نے اجتماعی طور پر اس کی مخالفت میں اضافہ
کیا۔اس کے نتیجے کے طور پر برطانیہ کے اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے انھیں
کوئی بڑا صلہ نہیں ملا۔ الٹا ان کے برے دنوں کا آغاز ہو گیا۔ 1780 میں جب
جونز یونی ورسٹی کی ایک سیٹ کے لیے تگ و دو کر رہا تھا تو اسے پارلیمنٹ سے
سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے حکومت مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے
کوئی اسے حمایت دینے کے لیے تیار نہ ہوا۔
1882 ء میں جونز نے حکومتی اصولوں کے خلاف لکھا جسے برطانوی حکومت نے سخت
ناپسند کیا۔ لیکن تمام تر مخالفت کے باوجود جونز نے اس کا ایک اور ایڈیشن
شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دفعہ اس نے اپنے آپ کو بطور مصنف اس میں نمایاں
بھی کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اس نے شاعری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اور چار شہرہ آفاق
نظمیں تحریرکیں ، جن میں یہ نظم
برطانیہ کی امریکہ کی جنگ کے خلاف تھی ۔باقی تین
JuliiMelesigoniadLibertatum Carmen(1780),
"The Muse Recalled" (1781
(ان کی یہ نظم بہترین سیاسی نظموں میں شمار ہوتی ہے۔ ) "An Ode in
Imitation of Alcaeus" (1781),
"An Ode in Imitation of Callistratus" (1782(
ان کی ان نظموں سے یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ جونز امریکہ کی حمایت
میں لکھ رہا ہے۔ ان سب باتوں سے نککلنے اور جونز کو سیدھا کرنے کے لیے
برطانوی حکومت کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ انھوں نے جونز کو بطور ایک جج
متعین کر کے کلکتہ بھیج دیا۔
1778 میں جونز نے اینا ماریہ شپلے سے شادی کر لی۔ اب جونز نے محسوس کیا کہ
یہ قانونی کام اس کے مالی مسائل حل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے لہٰذا اس نے
جب دیکھا کہ بنگال میں قائم ہونے والی سپریم کورٹ میں ایک بہتر پوزیشن
موجود ہے تو وس نے اعلیٰ حکام سے رابطے شروع کر دیے کہ وہ اس کی تعیناتی
بنگال میں کر دیں۔ اس دوران اس نے قبل ازاسلام کہی جانے والی سات عربی
نظموں کے تراجم بھی کیے جن کو معلاقات بھی کہا جاتا ہے۔اس کا یہ تر جمہ
1782 میں شائع ہوا جس نے باقی کئی شعرا کو بھی متاثر کیا ہے۔ 4 مارچ 1783
میں جونز انڈیا میں تعینات ہو کر آیا ۔ اسی سال 20 مارچ میں جونز کو سر
جونز کا خطاب بھی ملا۔ اینا ماریہ شپلے سے اسی سال 8 اپریل میں جونز نے
شادی کی اور ماریہ ان کے ساتھ انڈیا میں ہی 1783 سے لے کر 1794 تک رہیں ۔
اور یہی سال جونز کی وفات کا بھی سال ہے۔
11 سال جو انھوں نے کلکتہ میں گزارے وہ عدالتی نظام کو بہترین بنانے میں
بہت معاون ثابت ہوئے ۔ اس نے یورپی عدالتی نظام یہاں متعارف کروایا۔ اور
ایسے اصولوں کے عملی اطلاق کو یقینی بنانے کی کوشش کی جسے یہاں کا قانونی
نظام بہتر ہو سکے ۔ اس نے انڈین شہریوں کو یورپی شہریوں کے برابر حقوق دینے
کی بات بھی کی۔
برصغیر میں اس کی سب سے بڑی کا میابی 1784 میں بنگال ایشیاٹک سوسائٹی کا
قیام تھا۔سوسائٹی کے بانی کی حیثیت سے برصغیر میں جونز سے محبت کا والہانہ
اظہار کیا گیا۔ یہ سوسائٹی اس بات کا ثبوت تھی کہ جونز نے اپنی ثقافت اور
نسل پرستی کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے یہاں کے باشندوں کو اپنے برابر
سمجھا تھا اسی لیے جونزکی مقبولیت میں یہاں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس سوسائٹی
کا مقصد انسانی ، سماجی اور مذہبی و غیر مذہبی منصوبوں کو فروغ دینا تھا
۔اس سوسائٹی کے ذریعے جونز نے مغربی لوگوں کو مشرقی علوم سیکھنے کی طرف
متوجہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ اور اس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے
۔ جونز اپنی وفات تک اس سوسائٹی کے صدر بھی رہے۔
جونز نے یہاں کی معاشرت کو سمجھنے اور ہندو مسلم قوانین کی بہتر تفہیم کے
لیے سنسکرت بھی سیکھی۔ دراصل زبان کا یہ سیکھنا اس کا ذاتی شوق بھی تھا اور
اس کے ذریعے وہ یہاں کے کچھ قوانین میں ترمیم کرنا چاہتا تھا ۔ یہ منصوبہ
اتنا بڑا تھا کہ وہ اپنی موت تک اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا ۔ تاہم
اپنی موت سے قبل اس نے ہندو مسلم قانون کے کچھ حصوں میں ترمیم و اضافہ کر
دیا تھا۔ جن میں ہندو اور مسلمانوں کے قانون وراثت بھی شامل ہے جونز
نےبرصغیر کے بارے میں کچھ اہم کام بھی کیا ، اس سلسلے میں اس نے
قانون،آرٹ،موسیقی،ادب،نباتیاتاورجغرافیہ پر بہت کام کیا ۔ اس کام نے برصغیر
میں جونز کو بہت شہرت بھی بخشی ۔
سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے جونز نے اپنا سب سے بڑا نظریہ پیش کیا اور
وہ نظریہ یہ تھا کہ تمام زبانوں کی بنیاد ایک ہی ہے ۔ یہ ایسا نظریہ تھا جس
نے جونز کو پوری دنیا میں شہرت بخشی ۔ اور آج بھی جونز اپنے اسی نظریے کی
بنیاد پر زندہ ہے ۔
جب جونز سنسکرت کا مطالعہ کر رہا تھا تو اس نے مشاہدہ کیا کہ سنسکرت لاطینی
اور یونانی زبان سے گہری مماثلت رکھتی ہے ۔ اسی وجہ سے جونز نے اس حوالے سے
سوچنا شروع کیا ۔ 1786 میں جونز نے لکھا کہ سنسکرت نے اس کو دوسری زبانوں
اور ان کے ماخذات کے برے میں سوچنے پر مجبور کر دیا اور اس نے دیکھا کہ
تمام زبانوں کی بنیاد ایک جیسی ہے ۔ چنانچہ اس نے گوتھک، کلٹک ، اور فارسی
زبانوں کا ان زبانوں سے تقابل کیا اور وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان
تمام زبانوں کا مآ خذ ایک ہی ہے ۔ چنانچہ اس نے بہت سی زبانوں کے آپس میں
تقابل کے بعد یہ نظریہ پیش کیا کہ تمام زبانوں کا مآ خذ یا بنیا د ایک ہی
ہے ۔ اس کے ساتھ ہی جونز نے یہ نظریہ بھی دیا کہ کوئی بھی زبان مذہبی نہیں
ہوتی یا کسی بھی زبان کو مذہب کے ساتھ جوڑنا غلط رویہ ہے ۔اس نے سائنسی
نقطہ نگاہ سے زبانوں کا لسانی مطالعہ کی راہ ہموار کی ۔ اس کی دریافت کو
اور سائنسی دریافتوں کی طرح بہت پذیرائی ملی۔
جونز نے نہ صرف اس نظریے کے ذریعے لسانیات کو وسعت دی بلکہ اس کے ذریعے اس
نے برصغیر کے لوگوں کو ان کے اپنے قیمتی ادب اور قومی ورثے کی طرف بھی
متوجہ کیا ۔ 1789 میں اس نے کالی داس کے ناٹک "شکنتلا" کا ترجمہ مکمل کر
لیا ۔ یہ برصغیر کا پہلا اور مشہور ڈرامہ بھی تھا ۔ 1792 میں اس نے "ریتو
شرما " کا ترجمہ بھی مکمل کیا جو کہ اصل سنسکرت میں تھا ۔
برصغیر میں رہتے ہوئے جونز کی طبیعت سخت خراب رہنے لگی لیکن اس کے باوجود
جونز واپس جانے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ 1793 میں جونز کو وپس انگلینڈ جانے
کے لیے مجبور کر دیا گیا ۔ تا کہ اس کا بہتر علاج معالجہ ہو سکے ۔ لیکن
جونزکیکوشش تھی کہ وہہندواورمسلمقوانینکااسترجمہکومکمل کر لے تاکہ
ہندوستانیعوامانکےاپنےقوانینکےتحتخودحکومتکرنےکےقابلہوجا ئیں.اس
نےکہاکہدوسالتک کام مکمل بھی ہو جائے گا۔. تاہم، 27 اپریل، 1794
میں،جونزکلکتہمیںجگرکیسوزشسے،اسے انتقال کر گیا۔
جونز اپنے مرتے وقت بہت سا قیمتی لسانی ورثہ چھوڑ گیا ۔ تا کہ بعد میں آ نے
والے لسانی محققین اس کا م میں کوئی نیا اضافہ کر سکیں ۔ جونز کے تراجم کی
وجہ سے مغربی دنیا مشرقی اد ب سے نہ صرف متعارف ہوئی بلکہ ان لوگوں نے
باقاعدہ یہاں کے ادب میں دلچسپی لے کر اس پر کام بھی کیا ۔
|