غلام عباس کے افسانے "اوورکوٹ " کے ترجمے کا نظریاتی مطالعہ (نظریاتی ڈھانچے کے تناظر میں )

زبان کسی بھی قوم کی جغرافیائی،معاشرتی اور ثقافتی عناصر کی عمدہ ترجمان ہوتی ہے۔زبان میں سب سے زیادہ اہمیت الفاظ کی ہے۔ لفظوں کے ذریعے ہی احساسات و جذبات کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ایسی تصویر کشی کو ادب کا نام دیا گیا ہے۔ کسی بھی زبان میں تخلیق ہونے والا ادب اس زبان کے بولنے والوں کی روایات ، عقائد ،ثقافت اور ذہنی کیفیات کی عمدہ ترجمانی کرتا ہے۔ (۱)
عالمی تناظر میں ان تمام جزیات سے آگہی کے لیے ترجمہ کی صنف اشد ضروری ہے ۔ وگرنہ دوسری اقوام کے ارتقائی مراحل اور تجربات سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا اور نہ ہی ان کی ثقافت و ادب کو سمجھا جا سکتا ہے۔دوسری اقوام کی ترقی کے عمل کو جاننے اور سیکھنے کے لیے ترجمہ ہمیشہ ایک سفارتی پل کی حیثیت رکھتا ہے۔(۲)
قوموں کے ارتقا کے سفر میں اگر کلیۃََِِنہیں تو قابل لحاظ حد تک ترقی کا انحصار ترقی یافتہ اقوام سے کسب فیض پر منحصر رہا ہے ۔یہ کسب فیض ترجمہ کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ماضی کی نسبت موجودہ عہد میں ترجمہ بنیادی ضرورت کے طور پر سامنے آیا ہے۔اس لیے ترجمہ کرنا ترقی کے لیے اشد ضروری ہے۔
بلاشبہ ترجمہ ایک مشکل فن ہے۔(۳)مترجم کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ دوسری زبان سے لفظ لے کر ان کا لفظی ترجمہ کر دے۔بلکہ اسے دونوں زبانوں پر عبور ہونا چاہیئے۔تا کہ وہ ترجمہ کرنے کے مقصد میں کامیاب ہو سکے۔ترجمے کے مختلف مقاصد ہوتے ہیں ۔ مترجم ایک ترجمہ کرتے وقت ہمیشہ اپنے مقاصد مد نظر رکھتا ہے کبھی یہ مقصد کھل کر سامنے آجاتا ہے اور کبھی بین السطور چھپا ہوتا ہے۔ترجمے کا سب سے بڑا مقصد تو طاقت کا حصول ہے۔لیکن بعض اوقات اس کا مقصد محض علمی وسعت ہوتا ہے۔ایک ترجمہ شدہ متن میں بین السطور مترجم کا اپنا بھی کوئی نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے ۔متن کی معنوی تفہیم کے لیے اور مترجم شدہ اور اصل متن کو آپس میں تقابل کر کے مترجم کا نظریہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے لیے ترجمے میں نظریے کی تلاش کے لیے جو تحقیقی ڈھانچے وضع کیے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایکvandijk(وین ڈائک) (۱۹۹۸) کا تحقیقی ڈھانچہ بھی ہے۔اس کے ذریعے کسی ترجمہ شدہ متن سے نظریہ کی تلاش ممکن ہے۔لیکن یہ طریقہ کار ترجمے میں لفظی اور ثقافتی گنجائشوں کو ظاہر کرنے میں ممد و معاون نہیں ہے۔ اس لیےshi's(۲۰۰۴)کے دیے گئے نظریاتی ڈھانچے کو وین ڈائک کے نظریے کے ساتھ متصل کر کے نظریے تک بآسانی رسائی ہو سکتی ہے۔
ترجمہ ایک مشکل فن ہے۔کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ کسی دوسری زبان میں تحریر کردہ متن کو اسی شکل و صورت میں ترجمہ کر دیا جائے ۔ترجمے میں بعض اوقات معنی کی منتقلی بھی مشکلات کا باعث بنتی ہے۔بعض اوقات مترجم کو ترجمہ کرتے ہوئے کچھ الفاظ ، فقرے اور پورے پورے اقتباسات حذف کرنے پڑتے ہیں۔ان حذف شدہ حصوں کی مدد سے ایک مترجم کا نظریہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔اس نظریے کو اخذ کرنے کے لیے جس متن کا انتخاب کیا گیا ہے۔وہ اردو کے نامور ادیب (۴)غلام عباس

(۱۹۸۲۔۱۹۰۹)کا افسانہ’’ اوورکوٹ‘‘ہے ۔ جس کا ترجمہ مصنف کی اپنی ہسپانوی بیوی زینب غلام عباس نے ۱۹۸۸ میں کیا ہے ۔ ان کا افسانہ’’ اوورکوٹ‘‘ان کے دوسرے مجموعہ کلام ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ کا پہلا افسانہ ہے۔(۵)
غلام عباس کا یہ افسانہ دو بنیادی باتوں کی بنا پر اہمیت رکھتا ہے۔ایک تو یہ ان کا واحد افسانہ ہے جس کو انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ (۶)اور دوسرے یہ ترجمہ خود ان کی اپنی بیوی نے کیا ہے۔’’اوورکوٹ ‘‘ فی الوقت پاکستان کی اعلیٰ ثانوی جماعتوں میں انگریزی اردو دونوں زبانوں میں پڑ ھایا جا رہاہے۔اس ترجمے کے ذریعے مترجمہ کے نظریات کو اخذ کرنے کی سعی کی جائے گی۔
زبان ابلاغ کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔زبان کی مدد سے ہی معنی و تفہیم کا کام لیا جاتا ہے اور جب زبان کو بذریعہ تحریر سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسے ادب کہا جاتا ہے۔کسی بھی دوسری زبان کے ادب کو سمجھنے کے لیے ترجمے سے بہتر طریقہ آج تک ایجاد نہیں ہو سکا ہے ۔لسانی و غیر لسانی عوامل کو ترجمہ کے دوران بہت آسانی سے بروئے کار لاتے ہوئے معنی کو کامیابی سے ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح دوسری اقوام کے نظریات کو سمجھنے میں مدد فراہم ہوتی ہے۔
ترجمہ ایک باقاعدہ فن ہے ۔ جس کا آغاز مغرب سے ہوا ۔ سب سے پہلا ترجمہ پہلی سے تیسری صدی (قبل مسیح)میں اسکندریہ میں کوئنے نامی یونانی مصنف نے ’’سیتوا جنتا ‘‘ نامی کتاب کا یونانی زبان میں ترجمہ کیا تھا ۔ اس کے بعد قرون وسطیٰ میں مغرب والوں نے لاطینی زبان کو اہمیت دینی شروع کر دی تھی۔ نویں صدی عیسوی میں الفریڈعظیم نے مقامی زبان اینگلو سکسون میں کلیسائی تاریخ اور فلسفہ کے تراجم کیے ۔اسی دور میں لاطینی زبان میں بائبل کے تراجم شروع ہوئے ۔یہی وہ دور ہے جب مغرب میں تراجم کا عمل پورے زور و شور سے شروع ہوا اور تمام دنیا سے ہر ہر موضوع پر لکھی جانے والی کتب کا لاطینی زبانو ں میں ترجمہ شروع کیا گیا۔اس طرح کئی نثری و شعری تراجم منظر عام پر آئے۔(۷)
مغرب سے تراجم کی یہ روایت مشرق میں بھی آئی ہے اور اردو ادب میں بھی تراجم کا آغاز ہوا ۔اردو میں تراجم کا باقاعدہ آغاز سترہویں صدی عیسوی سے ہوتا ہے۔عام طور پر سترہویں صدی عیسوی میں ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘(۱۶۳۵)کو سب سے پہلی ترجمہ شدہ کتاب تصور کیا جاتا ہے ۔ مگر تحقیقی اعتبار سے شاہ میراں جی خدا نما (دکن ) سب سے پہلے مترجم قرار پاتے ہیں۔ جن کا تعلق قطب شاہی عہد سے تھا۔شاہ میراں جی خدا نما نے عربی زبان کے مشہور مصنف ابو الفضائل
عبداللہ بن محمد عین القضاۃ ہمدانی کی تصنیف ’’تمہیدات ہمدانی‘‘کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔ اس ترجمے کا ایک نسخہ (۱۶۰۳)میں بھی ملتا ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ اردو میں نثری تراجم منظوم تراجم سے پہلے شروع ہوئے ۔ اس طرح تراجم کی یہ روایت موجودہ عہد تک چلی آرہی ہے۔ (۸)
عہد قدیم میں زیادہ تر مذہبی کتب کے تراجم منظر عام پر آئے۔مغرب والوں نے ترجمہ کرنے کے کچھ اصول بنائے ہیں۔تا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ترجمے کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس سلسلے میں مختلف ماہرین نے ترجمے سے متعلق اپنی نظریات (تھیوریز) بھی پیش کیے ہیں۔قدیم عہد میں جو سب سے پہلیtranslation theory ملتی ہے اس میں زبان کا اصل منبع زبان کو قرار دیا گیا ہے ۔ قدیم یونانیوں نے ترجمے کی تھیوری میں لفظ کے لغوی مطلب کو اہمیت دی ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے اہم نام (۱۷۰۰۔۱۶۳۱)john drydenکا ہے۔ جس نے اپنیtranslation theory میں لفظ کے ہو بہو اور لغوی ترجمے کو اہمیت دی جو معنی کی منتقلی میں معاون ثابت ہو سکے۔ (۹) اس کے بعد بھی بہت سے لوگوں نے
ترجمے سے متعلق اپنے نظریات کو پیش کیا ہے ۔ ان میں
1-catford's linguistic theory of translation (1965)

2-skopos theory by vermeer(1978)

3-hatim and masovi's theory of translation (1990)
4-nida's theory of transaltion
nida'sنے بائبل کے تراجم کیے۔davidgordon(۱۹۸۵)میں جو تھیوری پیش کی ۔ ان کے مطابق الفاظ اپنے تناظر میں خاص معنی رکھتے ہیں ۔ اور ہر لفظ کا اپنے سیاق و تناظر میں نیا معنی ہوتا ہے۔اور ہر لفظ جملے میں کوئی نیا معنی ہی دیتا ہے۔اسی طرحshi's(۲۰۰۴)نے ترجمے کے ذریعے نظریہ اخذکرنے کا ایک تنقیدی ڈھانچہ دیا ہے ۔ جس کے عملی اطلاق سے مترجم کا اپنا نظریہ اخذکیا جا سکتا ہے۔وہ ڈھانچہ درج ذیل ہے۔
۱۔لفظی گنجائش۔
۲۔ثقافتی گنجائش ۔
۳۔نظریاتی گنجائش ۔
۴۔حسن بیان کی گنجائش۔
زیر نظر تحقیق کوshi'sکے اسی تنقیدی ڈھانچے کی مدد سے دیکھا جائے گا ۔اس نظریے کو اس لیے اہمیت دی گئی ہے کہ شیز کا یہ ڈھانچہ متن میں موجود لفظی ،ثقافتی اور نظریاتی گنجائشوں کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔اور یہ مصنف کے نظریات تک رسائی میں باقاعدہ مدد فراہم کرتا ہے۔اس کے علاوہ اس ڈھانچے کی مدد سے ترجمہ شدہ متن میں ثقافتی و لفظی گنجائش بھی آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے۔
۔متن سے نظریہ اخذ کرنے کے لیےshi's (۲۰۰۴) اور van dijk (۱۹۹۸)کا دیا گیا نظریاتی ڈھانچہ استعمال کیا جائے گا۔جس کے ذریعے ترجمہ شدہ متن اور اصل متن کا تقابل کر کے دیکھا جائے گا کہ مصنف کے نظریات کی ترسیل ترجمہ شدہ متن میں کس حد تک موجود ہے؟
van dijk( تاریخ پیدائش ۷ مئی ۱۹۴۳)ماہر لسانیات ہیں ۔انہوں نے اداریوں پر زیادہ کام کیا ہے۔اس نے کسی بھی کلامیے کا تجزیہ کرنے کے لیے micro اور macro ڈھانچے وضع کیے ہیں۔ان کی مددسے متن میں موجود نظریات کو معلوم کیا جا سکتا ہے۔اسی ڈھانچے کی مدد سے معاشرے کے غیر منصفانہ نظام کا جائزہ بھی لیا جا سکتا ہے۔چھوٹے ڈھانچے (micro structure)میں الفاظ اور ان کی نحوی ساخت کا جائزہ لیا جاتا ہے جبکہ بڑے ڈھانچے (macro structure)
کے تحت کلامیے کے حسن بیان اور ساخت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
زیر نظر تحقیق van dijkاورshi'sکے ڈھانچوں کو ملا کر کی جائے گی۔یہ ڈھانچہ کچھ یوں بنے گا۔
۱۔چھوٹا ڈھانچہ۔
۱۔۱۔لفظی گنجائش۔
۲۔۱۔ثقافتی گنجائش۔
۳۔۱۔نظریاتی گنجائش۔
۴۔۱۔زبان و بیان
۲۔ بڑا ڈھانچہ
ان امتزاجی تحقیقی ڈھانچوں کی مدد سے ترجمہ شدہ متن کے ذریعے مصنف کے نظریے کی بازیافت کی جائے گی۔
۸۔تجزیہ (analysis)
غلام عباس کا افسانہ ’’اوور کوٹ‘‘اردو کے اہم افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔بنیادی طور پر ان کا یہ افسانہ پاکستانی معاشرے کے دوغلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔بظا ہر تو یہ کہانی ’’اوورکوٹ‘‘ایک خوش پوش نوجوان کی ہے ۔ جس کا اوور کوٹ بہت خوبصورت اور منفرد ہے۔اس ظاہری حالت کی وجہ سے سب اسے امیر سمجھتے ہیں۔ اور ہر جگہ جہاں وہ جاتا ہے لوگ اس کی نہایت
عزت کرتے ہیں۔لیکن ایک حادثے میں ٹرک کے نیچے آجانے کے باعث اس کی ٹانگیں کچلی جاتی ہیں اور اس طرح آپریشن تھیٹر میں اس کی اصلیت اور اوور کوٹ کے نیچے اس کا پھٹا پرانا لباس اس کی اصلیت کو ظاہر کر دیتے ہیں۔
غلام عباس کے اردو افسانے کے متن کی کل سطور کی تعداد (۱۳۸)ہے۔ جبکہ انگریزی متن کی سطور کی تعداد (۱۵۵) ہے۔ یر نظر تحقیق میں ترجمہ کی نظریے تک رسائی کے لیے ایک ایک سطر کا جائزہ لینے کے بعد نتائج مرتب کیے گئے ہیں۔جن معلومات کو اخذ کیا گیا ہے ۔وہ حسب ذیل ہیں۔
۱۔۱۔چھوٹا ڈھانچہ (micro structure)
ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں کیا جاتا ہے۔دونوں زبانوں میں واضح فرق ہوتا ہے۔شیز نے متن کے ترجمے کے لیے جن لفظی ،ثقافتی،نظریاتی اور زبان و بیان کی گنجائشوں کا ذکر کیا ہے ۔ وہ تمام گنجائیشیں مل کر وین ڈائک کا چھوٹا ڈھانچہ بناتی ہیں۔چھوٹے ڈھانچے میں متن موجود الفاظ کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔اصل متن میں مصنف نے جن نظریات کو پیش کیا ہے ۔ اور جن لفظوں کا چناؤ کیا ہے؟ کیا ترجمہ شدہ متن میں بھی وہ الفاظ باہم مترادف ہیں یا نہیں ؟ یا مترجم نے ان نظریات میں تبدیلی کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وین ڈائک کے چھوٹے ڈھانچے میں لفظوں کی ساخت اور صرف و نحو کو بھی دیکھا جاتا ہے۔
’’اوور کوٹ ‘‘ کے اصل متن اور ترجمہ شدہ متن کی گنجائش شیز کے نظریے کے تحت درج ذیل ہے۔

۲۔۱۔لفظی گنجائش (words accomodation)

جہاں تک لفظی گنجائش کا تعلق ہے افسانہ ’’اوور کوٹ‘‘کے متن میں دوران ترجمہ بہت سی گنجائشیں نکالی گئی
ہیں۔انگریزی ترجمے کے دوران بعض اردو الفاظ کو جوں کا توں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاََ
تانگے والا۔tongawalla
پان والا۔pan-walla
بعض جگہوں پر مترجمہ نے لفظی گنجائشیں نکالتے ہوئے برانڈ(brand) کے نام بھی تبدیل کر دیے ہیں۔جیسے گولڈ فلیک کا ترجمہ good cigarette لکھ کر کیا گیا ہے۔لذت پرستی کا ترجمہ pleasureکے معنوں میں کیا گیا ہے ۔حالانکہ انگریزی لفظ pleasure لذت پرستی کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔اسی طرح ایک پورے اردو جملے ’’غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے ‘‘ ۔کا ایک انگریزی لفظ silenceلکھ کر کیا گیا ہے۔بعض جگہ مترجمہ نے لفظی گنجائش پیدا کرتے ہوئے جملے میں ایک آدھ لفظ کا اضافہ بھی کیا ہے۔مثلاََ اردو جملہ’’اس سے ہٹ کر ایک جرمن پیانو رکھاتھا ‘‘۔ مترجمہ نے اس میں لفظی گنجائش پیدا کرتے ہوئے جملہ تحریر کیا۔then a huge jerman piano diverted his attention) )کسی کسی جگہ ترجمہ اصل متن سے مطابقت نہیں رکھتا۔مثلاََ
’’نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی
شکلیں دیکھی تھیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف
نہیں کیا تھا۔فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں یا پھر وہ اپنے حال
میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا۔مگر ایک دلچسپ
جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی جیسے یک بارگی
اس کے دل کو موہ لیا تھا۔اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا تھاکہ وہ ان کی اور بھی
باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔‘‘
(ضمیمہ اول سطر۹۴۔۹۱)
اس کا انگریزی ترجمہ یوں کیا گیا ہے۔
the young man was delighted to watch this spectacle and kept on walking behind them.
so far the young man had found little interest him among the persons he had oserved that evening . he had been perhaps,too deeply engrossed in himself. he followed them closely hoping to get a glimpse oof their faces
and to hear more of their talk.(index 2.line no98-103)
مندرجہ بالا امثال کے علاوہ بہت سی سطور اور بعض جگہ اقتباسات کو بھی لفظی گنجائش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترجمے میں حذف کر دیا گیا ہے۔مثلاََ
سطر نمبر ۲۔۱۰۔۱۸۔۲۰۔۲۷۔۳۱۔۴۱۔۔(۵۱۔۴۵ ) ۵۹۔(۷۴۔۷۲)۔(۹۴۔۹۱)۔(۱۲۰۔۱۱۸)۔(۱۲۸۔۱۲۶)۔ (۱۳۱۔۱۳۳)وغیرہ میں لفظی گنجائشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

۳۔۱۔ثقافتی گنجائش (culture accomodation)
ہر علاقے کی اپنی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے۔اس علاقے میں تخلیق ہونے والا ادب اس علاقے کے رہنے والوں کی روایات و اقدار اور ثقافت کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔جس کی وجہ سے کسی بھی ادبی فن پارے میں ثقافتی گنجائش ضرور موجود رہتی ہے۔اور جب اس ادی تحریر کو دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو مترجم بیک وقت دونوں زبانوں کے قارئین سے مخاطب ہوتا ہے۔اسے دو مختلف سیاق و تناظر کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ اس لیے اول تو مترجم کو دونوں زبانوں پر عبور ہونا چاہیئے۔بلکہ دونوں زبانوں کے سیاق و تناظر سے آگہی بھی مترجم کے لیے از حد ضروری ہے۔ترجمہ کے دوران متن کے وہ حصے جو ثقافتی عناصر کو ظاہر کرتے ہیں،تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ اس کا مطلب ہے ثقافتی عناصر بھی ترجمے کو متاثر کرتے ہیں۔
افسانہ ’’اوورکوٹ‘‘کی مترجمہ اس سیاق و تناظر سے بخوبی واقف ہیں جس میں یہ افسانہ لکھا گیا ہے۔ اس لیے وہ اس تہذیب و ثقافت کو ترجمہ کرتے ہوئے تانگہ والا کو tong wallaہی لکھتی ہیں۔اسی طرح سے اس جملے کو ’’دس کا چینج ہے‘‘۔وہ یوں لکھتی ہیں ۔have you chnage for a ten rupee note) )اس جملے میںten rupee note کا اضافہ ثقافتی گنجائش کو ظاہر کرتا ہے۔ کیونکہ مترجمہ بھی پاکستان سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے انہیں معلوم ہے کہ یہا ں کی کرنسی کو روپیہ کہا جاتا ہے۔بعض جگہوں پر جہاں ثقافتی گنجائش نکلتی ہے اور اردو محاورات آتے ہیں۔ مترجمہ انہیں حذف کر دیتی ہیں مثلاََ
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں ۔ ایک
خاص شان استغنا کے ساتھ مگر صنف نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی
ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔لڑکیاں آپس میں
ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی اور شوخی بھی۔ایک قہقہ
لگایااور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور
تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے نکل آیا۔( ضمیمہ اول سطر۵۱۔۴۵)

’’اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے چلا آرہا تھا ۔اس کے
پاس سے گزر کر آگے نکل گیا۔لڑکا دراز قامت تھا ۔ اور سیاہ کوڈرائے
کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا۔اور لڑکی سفید ساٹن
کی گھیردار شلوار اور سبز رنگ کا کوٹ ۔وہ بھاری بھر کم سی تھی۔اس کے
بالوں میں ایک لمبا سا چٹلا گوندھا ہوا تھا۔ (ضمیمہ اول۔سطر ۸۳۔۸۰)
اس میں بھی ثقافتی گنجائش نکالتے ہوئے مترجمہ نے مطلب بیان کر دیا ہے۔

۴۔۱۔نظریاتی گنجائش (theoriticalaccomodation)
ہر متن میں ادیب کی کوئی نہ کوئی سوچ اور نظریہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ کلامیہ معرض وجود میں لاتاہے۔اور جب اس کلامیہ کو ترجمہ کیا جاتا ہے۔تو مترجم کے اپنے نظریات بھی اس ترجمہ شدہ متن میں در آتے ہیں۔مترجم مصنف کے اصل متن میں گنجائش پیدا کرتے ہوئے بعض اقتباسات حذف کر دیتا ہے۔ اسی گنجائش میں غلط عملیات بھی آتے ہیں۔جو مترجم ترجمہ کے دوران استعمال کرتے ہیں۔اگر یہ عملیات نظریات کی تبدیلی کا باعث بنیں تو انہیں نظریاتی گنجائش کہا جاتا ہے۔
اس افسانے میں مصنف نے ’’اوورکوٹ‘‘ کی جو نمائندگی کی ہے ۔ وہ طبقاتی فرق کو ظاہر کرتی ہے اور مصنف چونکہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ اس لیے ان کا مارکسی نظریہ ان جملوں سے واضح ہوتا ہے۔مثلاََ’’ جن کم نصیبوں کو نہ تفریح طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی ،وہ دور سے کھڑے ان روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے‘‘۔نوجوان کی نظر ان کے چہروں سے زیادہ ان کے لباس پر تھی۔‘‘اس کا مطلب ہے معاشرتی رویہ ظا ہری حلیے والوں کو اہمیت دے رہا ہے۔مترجمہ نے ان جملوں کو بہتر ترجمہ کر کے مصنف کے نظریے کی کسی حد تک ترسیل کی ہے۔
لیکن متن کے جو پیراگراف ترجمے سے حذف کیے گئے ہیں۔ اسے مصنف کے نظریات کی نفی ہوتی ہے۔ اور یہ دو بڑے اقتباسات جو حذف کیے گئے ہیں ۔ مصنف اور مترجمہ دونوں کے نظریات کو واضح کرتے ہیں۔مثلاََ
’’ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت
پیدا ہو گئی ہے۔اس نے اپنا رومال نکالا ۔جسے جیب میں رکھنے کے بجائے
اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا۔اور ہلکے ہلکے چہرے پر
پھیرا۔تا کہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے ۔پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر
کچھ انگریز بچے ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔وہ بڑی دلچسپی سے
ان کا کھیل دیکھنے لگا ۔بچے کچھ دیر تک اس کی پروا کیے بغیر کھیل میں مصروف
رہے۔مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے ۔
اور پھر وہ اس گھاس کے ٹکڑے سے ہی چلے گئے۔‘‘(ضمیمہ اول۔ سطر۱۷۔۱۳)
اس اقتباس سے مصنف کا رحجان انگریز کی جانب دکھائی دیتا ہے۔ نوجوان کا ملکہ کے بت کی تعظیم اسی جانب اشارہ کرتی ہے ۔لیکن مترجمہ چونکہ ہسپانیہ سے تعلق رکھتی ہیں ۔ اور ہسپانوی لوگ انگریز کو پسند نہیں کرتے ۔ اس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ مصنفہ نے اس اقتباس کو دانستہ حذف کیا ہے۔
دوسرا بڑا اقتباس جو حذف کیا گیا ہے۔ وہ نوجوان جوڑے کی گفتگو ہے۔جو کہ درج ذیل ہے۔
’’یہ نظارہ خاصا جاذب نظر تھا۔وہ جوڑا کچھ دیر تک تو خاموش
چلتا رہا۔اس کے بعد لڑکے نے کچھ کہا ۔جس کے جواب
میں لڑکی اچانک چمک کر بولی۔
ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔
سنو میرا کہنا مانو۔لڑکے نے نصیحت کے انداز میں کہا۔
ڈاکٹر میرا دوست ہے ۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو
گی۔
نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔
میں کہتا ہوں تمہیں ذرا تکلیف نہیں ہو گی۔
لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا۔
تمہارے ماں باپ کو کتنا رنج ہو گا ۔ذرا ان
کی عزت کا بھی تو خیال کرو۔
’’چپ رہو، ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گی‘‘۔(ضمیمہ اول۔سطر۹۰۔۸۴)
مترجمہ نے ترجمہ کرتے ہوئے اس متن کو حذ ف کیا ہے۔جس سے پتا چلتا ہے کہ وہ مصنف کے اس نظریے کو تبدیل کرنے کی خواہاں ہیں یا اس نظریے کو پسند نہیں کرتیں۔یا بحییثت عورت کے وہ اس بات کو پسند نہیں کرتیں ۔کہ کسی دوسری عورت کا ایسے استحصال ہو اس لیے اس نے اس کو دوران ترجمہ حذف کر دیا ہے۔
۵۔۱۔زبان وبیان کی گنجائش
زبان و بیان کے ذریعے کسی بھی ترجمہ شدہ متن کے اسلوب اور اس کے الفاظ کے چناؤ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اور دیکھا جاتا ہے کہ مترجم نے ترجمے کے دوران کن کن الفاظ کا سہارا لیا ہے۔اور وہ الفاظ اصل متن سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں؟اور ان میں کون کون سی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ ان سب امور کو زبان و بیان کی گنجائش میں دیکھا جاتا ہے۔افسانہ ’’اوورکوٹ‘‘میں مترجمہ نے بعض جملوں کا صرف مطلب بیان کر دینے پر اکتفا کیا ہے۔ مثال دیکھیے۔
’’نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی
شکلیں دیکھی تھیں۔ ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف
نہیں کیا تھا۔فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں یا پھر وہ اپنے حال
میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا۔مگر ایک دلچسپ
جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی جیسے یک بارگی
اس کے دل کو موہ لیا تھا۔اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا تھاکہ وہ ان کی اور بھی
باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔‘‘
(ضمیمہ اول سطر۹۴۔۹۱)
اس کا انگریزی ترجمہ یوں کیا گیا ہے۔
the young man was delighted to watch this spectacle and kept on walking behind them.
so far the young man had found little interest him among the persons he had oserved that evening . he had been perhaps,too deeply engrossed in himself. he followed them closely hoping to get a glimpse oof their faces
and to hear more of their talk.(index 2.line no98-103)
۶۔۱۔بڑا ڈھانچہ(macro structure)
وین ڈائک کے مطابق بڑے ڈھانچے میں دیکھا جاتا ہے کہ مصنف نے اپنے نظریے کی ترسیل کس طرح کی ہے؟کیا ترجمہ اصل متن کے نظریے کی ترسیل کر رہا ہے یا نہیں؟ کلامیے کی ماہیت اور تفہیم بڑے ڈھانچے سے بحث کرتی ہے۔
افسانہ ’’اوور کوٹ‘‘اول سے آخر تک نوجوان کی کہانی بیان کرتا ہے ۔ مترجمہ زینب غلام عباس نے ترجمے میں معنی کی منتقلی اور نظریے کی ترسیل کسی حد تک کی ہے۔ لیکن جہاں جہاں پورے پورے اقباسات حذف کیے ہیں۔وہاں نظریے کی مکمل ترسیل میں مشکلات پیش آتی ہیں۔مثلاََمترجمہ نے سینما گھر اور اس کے باہر کی جو تصویر کشی کی ہے اس کو مکمل حذف کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس اقتباس کے ذریعے افسانے کے مرکزی کردار کی خوبیاں ظاہر ہو رہی تھیں۔ اور مشرقی معاشرے کی ثقافت بھی ۔ مگر اس اقتباس کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ اقتباس دیکھیے۔

’’سڑک پار کرکے اسی طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگ روشنیاں جھلملا رہی تھیں ۔
تماشا شروع ہو چکا تھا۔سینما کے برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو
آ نے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی
کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں ۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں ۔ ایک
خاص شان استغنا کے ساتھ مگر صنف نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی
ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔لڑکیاں آپس میں
ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی اور شوخی بھی۔ایک قہقہ
لگایااور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور
تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے نکل آیا۔( ضمیمہ اول سطر۵۱۔۴۵)
اس اقتباس میں نوجوان کے کردار کی اچھائی کا پتہ چلتا ہے لیکن اس کے حذف ہونے کی وجہ سے کردار کی اچھائی کا یہ پہلو نظروں سے پوشیدہ ہو جاتا ہے۔اسی طرح جب اس جوان کو حادثے کے بعد آپریشن تھیٹر میں لے جایا جاتا ہے تو اس کے لباس کا جو نقشہ مصنف نے کھینچا ہے اس کو بھی ترجمے میں حذ ف کر دیا گیا ہے۔مثلاََ
’’سویٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گل کی نظریں پھر بیک وقت
اٹھیں۔
پتلون کو پیٹی کے لیے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی ہو گی۔خوب کس کے باندھا
گیا تھا۔ بٹن اور بکسوئے غائب تھے۔دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا ۔اور کئی جگہ
کھونچیں بھی لگی تھیں ۔ مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لیے لوگوں کی
ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز
اور مس گل کی آنکھیں چار ہوئیں۔( ضمیمہ اول سطر۱۲۸۔۱۲۶)

اس کو حذف کرنے ے کردار کا لباس اور حلیہ چھپ جاتا ہے ۔اس کو کہانی کی مناسبت سے ترجمے میں لازمی شامل ہونا چاہئے تھا۔ لیکن اس کو ترجمہ نہیں کیا گیا۔یہ حذف شدہ اقتباسات کردار کی تبدیلی پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
۱۔ وین ڈائک اور شیز کے تنقیدی نظریاتی ڈھانچوں کا عملی طور پر اطلاق کرنے سے ترجمہ شدہ متن سے مصنف اور مترجم دونوں کے نظریات بآسانی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
۲۔افسانہ ’’اوورکوٹ ‘‘ میں مترجمہ نے مصنف کے مارکسی نظریات کو تو پیش کیا ہے۔ لیکن جو اقتباسات مترجمہ نے حذف کیے ہیں اسے مصنف کے نظریات کی ترسیل میں فرق پڑا ہے۔ اور ان کا نظریہ مسخ ہو کر رہ گیا ہے۔

۳۔اداریوں کے لیے بنائے جانے والے ڈھانچوں کا ادبی تحریروں پر بھی کامیاب اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ تحقیق ہے۔
اس تمام بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان نظریاتی ڈھانچوں کی مدد سے نظریہ تک رسائی ممکن ہے۔ان کی مدد سے ترجمہ شدہ متن سے مصنف و مترجم کے نظریہ کی بازیافت بآسانی کی جا سکتی ہے۔مترجمہ کو انگریزی زبان پر عبور ہے۔ جس کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔
’’مال روڈ پر موٹروں ، تانگوں، اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی۔
پٹڑی پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔‘‘
انگلش ترجمہ

ups and down the main road there was an unending stream of cars , buses, tongas,and bicycles while the pavement thronged with pedestrian.

حوالہ جات (refrences)

۱۔سلیم۔اختر۔(۱۹۹۵)۔اردو زبان کیا ہے؟۔(ص۳۶)۔لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز لاہور
۲۔قریشی۔نثار احمد۔(۱۹۸۵)۔ترجمہ،روایت اور فن۔(ص۹)۔اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان
۳۔راہی ۔اعجاز ۔ (۱۹۸۶)۔اردزبان میں ترجمے کے مسائل۔(ص۱۶)۔اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان
۴۔سدید ۔ انور۔(۱۹۹۱)۔ اردو افسانے کی کروٹیں۔(ص۱۶۶)۔لاہور:مکتبۂ عالیہ
۵۔عباس۔ غلام۔(۱۹۸۰)۔ جاڑے کی چاندنی۔(ص۱۷)۔ کراچی:انٹرنیشنل پریس
۶۔انصاری ۔اسلوب احمد ۔(۲۰۰۰)۔غلام عباس کے افسانوں کا فنی و فکری جائزہ۔(ص ۸۸)لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز لاہور
۷۔انٹرنیٹ۔wiki/translation
۸۔قریشی۔نثار احمد۔(۱۹۸۵)۔ترجمہ،روایت اور فن۔(ص۴۰)۔اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان

Naeema Bibi
About the Author: Naeema Bibi Read More Articles by Naeema Bibi: 11 Articles with 20345 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.