دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب و احترام ملحوظ خاطر رکھنا
چاہئیے ۔اس بارے میں قرآن کی تعلیم سب سے زیادہ اہم اور اپنے ایک انفرادی
اسلوب کی حامل ہے ۔مثلاً جب کبھی اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت و فرمانبرداری کی
طرف توجہ دلانا چاہی ہے اس کے فوراً بعد والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری
کی تعلیم دی ہے ۔سورۃ لقمان:14(ترجمہ)اے بندوتم میرا(اﷲ کا) شکر کرو اور
اپنے والدین کا شکر ادا کرو تم تمام کو میری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔
یا د رکھئے کہ جس طرح سے اﷲ کے حقوق ہم پر فرض ہیں بالکل اسی طرح انسانوں
کے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں ۔انسانوں میں والدین کے
حقوق سب سے بڑھ کر ہیں ۔ماں باپ کی کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی
بشارت دی گی ہے ۔سورۃ الاحقاف 15-16 (ترجمہ)اور ہم نے انسان کو اپنے ماں
باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ،اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر
پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنم دیا ،اس کے حمل کا اور اس کے
دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے ۔یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور
چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو کہنے لگا اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ
میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر
انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو
میری اولاد بھی صالح بنا ۔میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں
سے ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال کو ہم قبول فر ما لیتے ہیں اور جن
کے بد اعمال سے درگزر کر لیتے ہیں ،(یہ) جنتی لوگوں میں ہیں ۔اس سچے وعدے
کے مطابق جوان سے کیا جاتا تھا ۔ والدین سے نافرمانی کرنے والو ں کے لئے
گھاٹا ہی گھاٹاہے ۔سورۃ الاحقاف:17-18(ترجمہ)اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا
کہ تم سے میں تنگ آگیا ،تم مجھ سے یہی کہتے رہو گے کہ میں مرنے کے بعد پھر
زندہ کیا جاؤں گا مجھ سے پہلے بھی امتیں گزر چکی ہیں ،وہ دونوں والدین جناب
باری میں فریادیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں تجھے خرابی ہو تو ایمان لے آ، بیشک
اﷲ کا وعدہ حق ہے ،وہ جواب دیتا ہے کہ یہ تو صرف اگلوں کے افسانے ہیں ،یہ
لوگ ہیں جن پر عذاب کا فیصلہ چسپا ں ہو چکا ہے اور جنوں اور انسانوں کی ان
امتوں میں شامل ہو گئے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں ،یقینا وہ تھے ہی
گھاٹا اٹھانے والے ۔اﷲ تعالیٰ کے رسولﷺ نے بھی کہا کہ:صل امک ثم امک ثم امک
ثم اباک ثم ابافاناک۔’’تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو تم اپنی ماں کے
ساتھ نیک سلوک کرو تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو پھر تم اپنے باپ کے
ساتھ صلہ رحمی کرو، پھر تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔پھر
اسکے بعد دور کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔(مظہری)
ماں کے ساتھ اس طرح کے خاص حسن سلوک اور صلہ رحمی کا حکم اﷲ تعالیٰ نے کئی
وجوہات کی بنا پر دیا ہے۔
1)بچہ کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلیف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی
وجہ سے۔2)بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور بچہ پیدا ہونے کے بعد بچے کی پرورش اور
نشو نما کے لئے اس کے بدن سے بچے کو غذادی جاتی ہے۔3) ہر وقت بچہ کو اپنے
کاندھوں پر لادے رہنا اور دن رات اس کی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہنا ۔4)ماں
بچوں کو سکھاتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے ،نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے
کہ بچپن کی تعلیم و تربیت کا اثر بچے کی آگے کی زندگی پر پڑتا ہے ۔دنیا کی
تمام عظیم شخصیتیں اپنی عظیم ماؤں کی وجہ سے عظیم کہلائیں۔
واضح ہے کہ ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں ۔اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے اس کے حقوق
کو اتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کئی مائیں اﷲ تعالیٰ کی دی
ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہیں ،بہت ساری مائیں بچو ں کو
اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوں کے معاملات میں اپاہج بنا دیتی
ہیں یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھر یلو معاملات میں باپ کا مخالف بنا
دیتی ہیں ۔جس کی بنا پر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ۔ایسی
مائیں اﷲ کی دیگر ہدایات کو بھول کر ایسا کرتی ہیں ،سورۃ النساء:34
(ترجمہ)مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر
فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ہیں ،پس نیک
عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار۔(مردوں کی) غیر حاضری میں حفاظت کرنے والیاں۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایتیں
دی ہیں ۔اتنی ہدایتیں زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں ۔کیونکہ
گھریلو سکون کی اہمیت اور بقا اﷲ تعالیٰ کی نظر میں بہت اہم ہے ۔ایسی ماؤں
کا اس طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کر
دیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کر دیتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ کی نظر میں ایسی ماؤں کا
اجر کم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ خاوند کو اسکے مقام سے گرا کر اولاد کی مدد
سے گھریلو سکون کو تبا ہ و برباد کر تی ہیں ۔کئی ایسی مائیں اپنی زندگی کے
آخری حصہ میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کر لیتی ہیں۔جب وہ خود اپنے پیدا کئے
ہوئے مسائل میں گھِر کر پریشان ہو جاتی ہیں۔ لیکن پھر اس وقت نقصان کی
تلافی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔
حقیقت میں ہر بری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے پر ہی وارد ہو جاتا ہے
۔سورۃ الفاطر:43(ترجمہ)کسی بھی بری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے ہی کو
مل کر رہتا ہے ۔ سورۃ الاسراء :23-24-25میں والدین کے ادب واحترام کے لئے
مزید تفصیل دی گئی ہے ۔(ترجمہ)اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ
تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔اگر
تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے
آگے اف تک نہ کہنا ،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام
سے بات چیت کرنا۔اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست
رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پر وردگار !ان پر ویسا ہی رحم کر
جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ۔جو کچھ تمہارے دلو ں میں ہے اسے تمہارا
رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا
ہے۔
ا ن آیات میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب و
احترام کی بات کی ہے ۔ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سمجھایا ہے کہ ہم بچپن
میں کس طرح بے یارو مددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسا اور پروان
چڑھایا ،ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پورا کرتے تھے ۔مکمل خلوص اور محبت کے
ساتھ ،اسی لئے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا
سلوک کرے۔ اگر چہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے
لیکن ان کی طرف زیادہ ترتوجہ اس وقت ہونی چاہیے جب وہ بوڑھے ہو
جائیں۔کیونکہ وہ بھی اسی طرح بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں
تھے ، اﷲ تعالیٰ ان آیات میں مندرجہ ذیل ہدایات ہمیں دی ہیں:۔1) والدین کو
انکی بے عزتی کے طور پر چھوٹے سے چھوٹا لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے۔2)ان کے
سامنے چلا کر نہیں بولنا چاہئے۔3)انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہمدردی کے
انداز میں ان سے بات کرنی چاہئے۔4)والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی
فرمانبرداری اور نرمی سے کرنا چاہئے۔ انکے ساتھ رحمدلی کا معاملہ ہونا
چاہئے اور دل کی گہرائیوں سے یہ سب کچھ ہونا چاہئے ،محض دکھانے کے لئے
روایتی انداز میں نہیں ہونا چاہئے۔5) ہمیں والدین کے لئے دعا کرنا چاہئے،
اے اﷲ تعالیٰ میرے والدین پر رحم فرما کہ بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچپن
میں مجھ پر رحم و کرم کرتے تھے۔ یہ دعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا
چاہئے ،ہمیں اس دعا کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ،کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے
خود یہ دعا ہمیں سکھائی ہے ۔اور اسکی تلقین فرمائی ہے۔6) سورۃ الاسراء کی
آیت نمبر25میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کر دی
ہے کہ اگر کسی سے بھول چوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات
نکل جائیں جو لا پرواہی کی وجہ سے نہیں بلکہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں
ہو جائے تو اس پر اﷲ تعالیٰ ہمیں سزا نہ دے گا ۔بشرطیکہ ہم خلوص دل سے توبہ
کر لیں اور معافی مانگ لیں ،اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی اچھی
طرح واقف ہے۔
والدین کے احترام کے بارے میں بہت ساری احادیث بھی موجود ہیں ۔
ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت محمد ﷺ سے پوچھا وہ کونسا عمل ہے جو اﷲ تعالیٰ
کو سب سے زیادہ پسند ہے ،جواباً آپ ﷺ نے فرمایا:وقت مقررہ پر عبادت کرنا،
پوچھنے والے نے پوچھا اسکے بعد کونسا عمل؟ آپ ﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ
حسن سلوک (بخاری)حضرت عبد اﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے جہاد
میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے پوچھا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس
نے کہا :ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے والدین کی خدمت کرنا تمہارے لئے
جہاد ہے۔(بخاری)یاد رکھئے یہ حکم اس وقت ہے جب والدین کی خدمت کرنے والا
کوئی نہ ہوتو ان کو اکیلا بے سہارا چھوڑکر نہیں جانا چاہئے ،اگر گھر میں
دوسرے بھائی وغیرہ ہوں تب یہ حکم نہ ہوگا اور اگر جہاد فرض عین ہو تب بھی
ہر مسلمان کو جہاد پر نکلنا فرض ہو گا۔اسلام اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے
کہ ہم اپنے والدین کے متعلقین کی بھی عزت کریں ،چاہیئے وہ والدین کے رشتہ
دار ہوں یا والدین کے دوست۔حضرت عبد اﷲ ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت
محمد ﷺ نے کہا کہ اگر تم اپنے والدین کے دوستوں کا احترام کرو گے تو یہ بلا
واسطہ تمہارے والدین ہی کا احترام ہو گا۔(بخاری)
امام قرطبی نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے ۔جو حضر ت جابربن عبد اﷲ رضی اﷲ
عنہ سے مروی ہے ۔’’ایک آدمی حضرت محمد ﷺ کے پاس آیا اور شکایت کی کہ میرے
والد نے میری ساری جائدار لے لی ۔حضرت محمد ﷺ نے فرمایا جاؤ اپنے والد کو
لیکر آؤ ،اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے
جب اس شخص کے والد صاحب آئیں تو آپ ان سے ان کلمات کے بارے میں پوچھنا جو
انہوں نے اپنے دل ہی میں کہے تھے۔ جب وہ باپ کو لیکر آیا تو آپ ﷺ نے کہا
تمہارا بیٹا کیوں تمہاری شکایت لیکر آیا ہے کہ تم نے اس کا مال ہڑپ کر لیا
ہے ،باپ نے حضرت محمد ﷺ سے درخواست کی کہ آپ خود میرے بیٹے سے ہی پوچھئے کہ
میں تو یہ پیسہ صرف اپنے اوپر خرچ کرتا ہوں یا اسکی چاچی پر، حضرت محمد ﷺ
نے فرمایا ٹھیک ہے میں سب کچھ سمجھ گیا اب تم مجھے بھی بتاؤ کہ وہ کونسے
الفاظ تھے جو تم نے اتنے دھیرے کہے تھے کہ خود تمہارے کان تک نہ سن سکے
تھے؟وہ آدمی یہ سنتے ہی حیرت میں ڈوب گیااور کہنے لگا یہ تو ایک معجزہ ہے
آخر آپ نے یہ کیسے جانا۔حقیقت میں میں نے وہ الفاظ دل ہی دل میں کہے تھے ،
آپﷺ نے اس سے فرمایا وہ جملے سناؤ، اس آدمی نے مندرجہ ذیل عربی کے اشعار
سنائے ۔اسکا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے:میں نے تجھے بچپن میں پالا پوسا تمہارے
کھانے پینے کا انتظام کیا تمہاری ہر طرح سے مدد کی یہاں تک کہ تم جوان ہو
گئے ۔ اس وقت تک تمام قسم کے خرچ میرے کاندھوں پر تھے۔
میں رات بھر جاگا اور بیتاب ہوجاتا جب کبھی تو بیمار پڑتا ۔ مجھے ایسا لگتا
کہ تیری بیماری میری بیماری ہے ،رات بھی یہی سوچ کر روتا رہتا۔ہر وقت تیری
موت کا ڈر میرے ذہن پر چھا یاسا رہتا،جب کہ میں جانتا ہوں کہ موت اپنے وقت
پر آتی ہے ،نہ آگے ہو تی ہے نہ پیچھے۔جب تو اس جوانی کی عمر میں پہنچ گیا
جسکی میں ہمیشہ خواہش کرتا تھا ۔تو مجھ سے اکڑ کرباتیں کرتا اور مجھے دکھ
دیتا ہے اور تمہارا رویہ ایسا ہے گویا تم مجھ پر احسان کر رہے ہو۔ افسوس
اگر تو میرے حقوق ادا نہیں کر سکتا ،مجھے باپ کی طرح نہیں دیکھ سکتا تو
پڑوسی کی طرح تو سلوک کر یا کم از کم میں نے تجھ پر جو خرچ کیا کر اور
بخیلی سے کام نہ لے۔دل کو ہلا دینے والی یہ نظم سن کر حضرت محمد ﷺ نے اس
جوان کی گردن پکڑی اور کہا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔أنت ومالک
لابیک۔’’تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کی ملکیت ہے۔‘‘ایک دوسری حدیث حضرت
ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے منبر کی پہلی سیڑھی پر
چڑھتے ہوئے کہا رغم انفۂ یعنی فلاں شخص برباد ہو ۔ دوسری سیڑھی پر چڑھتے
ہوئے پھر یہی الفاظ کہے اور تیسری سیڑھی پر جب قدم رکھا تو پھر یہی الفاظ
کہے یہ سن کر صحابہ کرام نے پوچھا اے اﷲ کے رسول ﷺ کون برباد ہو؟ حضرت محمد
ﷺ نے فرمایا ایسا آدمی جو رمضان کا مہینہ پا کر بھی اپنے گناہ معاف نہ
کرواسکے ،وہ آدمی برباد ہو جو میرا نام سن کر مجھ پر صلاۃ و سلام نہ بھیجے
،وہ آدمی بھی برباد ہو اور جو بوڑھے والدین کو پا کر بھی اپنی مغفرت نہ
کرواسکے اور جنت میں نہ جا سکے۔(مسلم)دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ
ان تینوں امور کا خیال رکھا جائے تو یہ یقینی طور پر انسان کو جنت نصیب ہو
گی۔اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمارے والدین کے متعلق حقیقی محبت پیدا کر دے
اور ان دونوں پر اپنی رحمتیں انڈیل دے ۔ جیسا کہ انہوں نے بچپن میں ہم پر
رحم کیا، (آمین) |