بغدادِ مُعَلٰی جِسے عُروسِ
البلاد کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے اگرآپ بغداد شریف کی تاریخ کا مُطالعہ
کریں تُو آپ دیکھیں گے کہ یہ وہ سرزمین ہے جو علم و دانش کا گہوارہ ہے یہی
وہ مقدس سرزمین ہیکہ جہاں دُنیا بھر سے تشنگان علم اپنی پیاس بھجانے کیلئے
بڑی بیقراری سے دور دراز کا سفر اختیار کیا کرتے تھے جِس کے بطن سے ایسے
ایسے گوہر نایاب آسمان فلک پر چَمکے کہ دُنیا کو مُنور کرڈالا ہزاروں اولیا
اللہ نے اِسے اپنا مسکن بنایا اور یہی وہ سرزمین ہے جس پر ہزاروں مہتاب
ولایت اندھیروں کو اُجالوں میں بَدلتے رہے۔ یُوں تُوحضرت عبدالقادر جیلانی
رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت جُنید بغدادی رحمتہ اللہِ الہادی کے نام ہی اسکی
پہچان کیلئے کافی ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ لاکھوں اولیاءَاللہ نے اِسے
شرف عزت بخشا ہے اِسی سرزمین بغداد کا ایک مختصر سا واقعہ آج آپکو گوشِ
گزارکرنے کی سعادت حاصل کررہا ہُوں۔
موسمِ بہار کی ایک سُہانی شام کا ذکر ہے یُوں توپہلی بارش نے تمام شہرکی
سڑکوں کو دُھو ڈالا تھا لیکن چند ایک بارشوں کی تاب نہ لاکر شہر کی چند
سڑکوں پر پانی جمع ہُوچُکا تھا زمین کی مَٹی اپنی پیاس بھجانے کیلئے اُس
پانی کے ساتھ اَٹھکلیاں کررہی تھی جسکی وجہ سے شفاف پانی گُدلاہُوچُکا تھا
لگاتار بارشوں کی وجہ سے موسم میں خنکی پیدا ہُوچُکی تھی۔
ایک مجذوب درویش بھی اِس بارش کے پانی میں عشق ومستی سے لبریز چلا جارہا
تھا کہ اُس درویش نے ایک مٹھائی فروش کو دِیکھا جو ایک کڑھائی میں گرما گرم
دودھ اُبال رہا تھا تُو موسم کی مُناسبت سے دوسری کڑھائی میں گرما گرم
جلیبیاں تیار کررہا تھا مجذوب کچھ لمحوں کیلئے وہاں رُک گیا شائد بھوک کا
احساس تھا یا موسم کا اثر تھا۔ مجذوب حلوائی کی بھٹی کو بڑے غور سے دیکھنے
لَگا مجذوب کُچھ کھانا چاہتا تھا لیکن مجذوب کی جیب ہی نہیں تھی تو پیسے
بھلا کیا ہُوتے ۔
مَجذوب چند لمحے بھٹی سے ہاتھ سینکنے کے بعد چَلا ہی چاہتا تھا کہ نیک دِل
حَلوائی سے رَہا نہ گیا اور ایک پیالہ گرما گرم دودھ اور چند جلیبیاں
مَجذوب کو پیش کردِیں مَجذوب نے گرماگَرم جلیبیاں گَرما گرم دودھ کیساتھ
نُوش کی اور پھر ہاتھوں کو اُوپر کی جانب اُٹھا کر حَلوائی کو دُعا دیتا
ہُوا آگے چَلدِیا۔
مَجذوب کا پیٹ بھر چُکا تھا دُنیا کے غموں سے بے پروا وہ پھر اِک نئے جُوش
سے بارش کے گدلے پانی کے چھینٹے اُڑاتا چلا جارہا تھا وہ اِس بات سے بے خبر
تھا کہ ایک نوجوان نو بیاہتا جُوڑا بھی بارِش کے پانی سے بَچتا بچاتا اُسکے
پیچھے چَلا آرھا ہے یکبارگی اُس مَجذوب نے بارش کے گَدلے پانی میں اِس زور
سے لات رَسید کی کہ پانی اُڑتا ہُوا سیدھا پیچھے آنے والی نوجوان عورت کے
کَپڑوں کو بِھگو گیا اُس نازنین کا قیمتی لِباس کیچڑ سے لَت پَت ہُوگیا تھا
اُسکے ساتھی نوجوان سے یہ بات برداشت نہیں ہُوئی۔
لِہذا وہ آستین چَڑھا کر آگے بَڑھا اور اُس مَجذوب کو گریبان سے پَکڑ کر
کہنے لگا کیا اندھا ہے تُجھے نظر نہیں آتا تیری حَرکت کی وجہ سے میری
مِحبوبہ کے کَپڑے گیلے ہوچُکے ہیں اور کیچڑ سے بھر چُکے ہیں۔
مَجذوب ہکا بَکا سا کھڑا تھا جبکہ اُس نوجوان کو مَجذوب کا خاموش رِہنا
گِراں گُزر رہا تھا۔
عورت نے آگے بڑھ کر نوجوان کے ہاتھوں سے مَجذوب کو چھڑوانا بھی چاہا لیکن
نوجوان کی آنکھوں سےنِکلتی نفرت کی چنگاری دیکھ کر وہ بھی دوبارہ پیچھے
کھسکنے پر مجبور ہُوگئی ۔
راہ چلتے راہ گیر بھی بے حِسی سے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے لیکن نوجوان کے
غُصے کو دیکھ کر کِسی میں ہِمت نہ ہُوئی کہ اُسے رُوک پاتے اور بلاآخر طاقت
کے نشے سے چُور اُس نوجوان نے ایک زور دار تھپڑ مَجذوب کے چہرے پر جَڑ دِیا
بوڑھا مَجزوب تھپڑ کے تاب نہ لاسکا اور لڑکھڑاتا ہُوا کیچڑ میں جا پڑا
نوجوان نے جب مَجزوب کو نیچے گِرتا دِیکھا تُو مُسکراتے ہُوئے وہاں سے
چَلدیا۔
بوڑھے مَجذوب نے آسمان کی جانب نِگاہ اُتھائی اور اُس کے لَب سے نِکلا واہ
میرے مالک کبھی گَرما گَرم دودھ جلیبیوں کیساتھ اور کبھی گَرما گَرم تھپڑ،،
مگر جِس میں تُو راضی مجھے بھی وہی پسند ہے ،، یہ کہتا ہُوا مَجذوب ایکبار
پھر اپنے راستے پر چَلدِیا۔
دوسری جانب وہ نوجوان جُوڑا جوانی کی مَستی سے سرشار اپنی منزل کی طرف
گامزن تھا تھوڑی ہی دور چَلنے کے بعد وہ ایک مکان کے سامنے پُہنچ کر رُک
گئے وہ نوجوان اپنی جیب سے چابیاں نِکال کر اپنی محبوبہ سے ہنسی مذاق کرتے
ہُوئے بالا خَانے کی سیڑھیاں طے کر رہا تھا۔
بارش کے سبب سیڑھیوں پر پھلسن ہُوگئی تھی اچانک اُس نُوجوان کا پاؤں رَپٹ
گیا اور وہ سیڑھیوں سے نیچے گِرنے لَگا۔
عورت زور زور سے شور مچا کر لوگوں کو اپنے مِحبوب کی جانب متوجہ کرنے لگی
جسکی وجہ سے کافی لوگ فوراً مدد کے واسطے نوجوان کی جانب لَپکے لیکن دیر
ہُوچُکی تھی نوجوان کا سَر پھٹ چُکا تھا اور بُہت ذیادہ خُون بِہہ جانے کی
وجہ سے ااُس کڑیل نوجوان کی موت واقع ہُوچُکی تھی۔
کُچھ لوگوں نے دور سے آتے مَجذوب کو دِیکھا تُو آپس میں چہ میگویئاں ہُونے
لگیں کہ ضرور اِس مجذوب نے تھپڑ کھا کر نوجوان کیلئے بَددُعا کی ہے ورنہ
ایسے کڑیل نوجوان کا صرف سیڑھیوں سے گِر کر مرجانا بڑے اَچھنبے کی بات لگتی
ہے۔
چند منچلے نوجوانوں نے یہ بات سُن کر مَجذوب کو گھیر لیا ایک نوجوان کہنے
لگا کہ آپ کیسے اللہ والے ہیں جو صِرف ایک تھپڑ کی وجہ سے نوجوان کیلئے
بَددُعا کر بیٹھے یہ اللہ والوں کی روِش ہَر گز نہیں کہ ذرا سی تکیلف پربھی
صبر نہ کرسکیں۔
وہ مَجذوب کہنے لگا خُدا کی قسم میں نے اِس نوجوان کیلئے ہرگِز بَددُعا
نہیں کی !
تبھی مجمے میں سے کوئی پُکارا اگر آپ نے بَددُعا نہیں کی تُو ایسا کڑیل
نوجوان سیڑھیوں سے گِر کر کیسے ہلاک ہوگیا؟
تب اُس مَجذوب نے حاضرین سے ایک انوکھا سوال کیا کہ کوئی اِس تمام واقعہ کا
عینی گَواہ موجود ہے؟
ایک نوجوان نے آگے بَڑھ کر کہا ، ہاں میں اِس تمام واقعہ کا عینی گَواہ
ہُوں
مَجذوب نے اَگلا سوال کیا ،میرے قدموں سے جو کیچڑ اُچھلی تھی کیا اُس نے
اِس نوجوان کے کپڑوں کو داغدار کیا تھا؟
وہی نوجوان بُولا نہیں ،، لیکن عورت کے کَپڑے ضرور خَراب ہُوئے تھے
مَجزوب نے نوجوان کی بانہوں کو تھامتے ہُوئے پوچھا ، پھر اِس نوجوان نے
مجھے کیوں مارا؟
نوجوان کہنے لگا،، کیوں کہ وہ نوجوان اِس عورت کا محبوب تھا اور اُس سے یہ
برداشت نہیں ہُوا کہ کوئی اُسکے مِحبوب کے کپڑوں کو گَندہ کرے اسلئے اپنی
معشوقہ کی جانب اُس نوجوان نے آپکو مارا۔
نوجوان کی بات سُن کر مجذوب نے ایک نعرۂ مستانہ بُلند کیا اور یہ کہتا
ہُوا وہاں سے رُخصت ہُوگیا پس خُدا کی قسم میں نے بَددُعا ہرگز نہیں کی تھی
لیکن کوئی ہے جو مجھ سے مُحبت رکھتا ہے اور وہ اِتنا طاقتور ہے کہ دُنیا کا
بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُسکے جبروت سے گھبراتا ہے۔
|