ایسا لگ رہا ہے کہ آج کل ہر کوئی اڑنے والے گاڑیاں بنا
رہا ہے لیکن ’دی کٹی ہاک فلائر‘ نامی کمپنی ان سے ذرا ہٹ کر ہے۔
یہ کمپنی گوگل کے شریک بانی لیری پیج کی ہے اور اس میں ایک چھوٹا سا تربیتی
مرکز بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہاں صارفین ان گاڑیوں کو اڑانا اور اس کا طریقۂ
کار سیکھتے ہیں جس میں 90 منٹ لگتے ہیں۔
|
|
اس تربیت کا زیادہ وقت اس چیز کی مشق کرتے گزرتا ہے کہ اگر کچھ غلط ہو جائے
تو کیا کرنا چاہیے۔
یہ تربیت ایک بنیادی پروگرام سے شروع ہوتی ہے جس میں کمپیوٹر پر آپ کو دو
ایسی چیزوں کے بارے میں سکھایا جاتا ہے جن دو چیزوں کی سب سے زیادہ فکر
کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بلندی پر اختیار اور دوسرا سمت کا تعین کرنے والے
جوئے سٹک۔
اس کے بعد آپ اصل اڑنے والی گاڑی میں بیٹھتے ہیں جو زمین کے ساتھ بندھی
ہوتی ہے۔ اس مشق کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس گاڑی میں سواری کے دوران
کسی بھی قسم کی خرابی کو دور کیا جا سکے جو ممکنہ طور پر پیش آ سکتی ہے۔
اس کے بعد کے مرحلے میں آپ ہنگامی صورتحال سے نکلنے کی مشق کرتے ہیں۔
تربیتی ٹیم نے گیندوں سے بھرا ایک تالاب بنا رکھا ہے جس میں مشق کرائی جاتی
ہے کہ اگر یہ گاڑی الٹی ہو کر گرے تو آب اس میں سے باہر کیسے نکلیں گے۔
|
|
جب یہ سب آپ کامیابی سے کر لیتے ہیں تو آپ اڑن گاڑی چلانے کے لیے تیار ہیں۔
اس تربیت میں شامل برٹنی میکلکا کا اپنی پرواز کے بارے میں کہنا تھا: ’میں
نے زیادہ نہیں سوچا، بس اس گاڑی کو اس کا کام کرنے دیا اور جہاں میرا دل
کیا میں اسے لے گئی۔‘
’یہی اس کی خوبصورتی ہے کیونکہ آپ اڑتے ہوئے خوبصورت مناظر دیکھتے ہیں، میں
نے بس اسے اتنا ہی بتایا کہ مجھے کہاں جانا ہے۔ مجھے کسی بارے میں زیادہ
سوچنا نہیں پڑا۔ ‘
اس فلائنگ کار میں صرف ایک نشست ہے اور یہ ایک بڑے ڈرون کی طرح ہے۔ اس کی
تخلیق کا کام خفیہ رکھا گیا اور رواں برس کے آغاز میں اس کی رونمائی کی گئی۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ ایک دن یہ ایک عام برقی کار کی قیمت میں فروخت ہو گی۔
یعنی تقریباً 40 ہزار ڈالر میں۔
|
|
تاحال فی الحال اس کی پرواز محدود ہے اور بیٹری 20 منٹ تک چلتی ہے۔ ابھی اس
کی ٹیم نے اسے ایک جھیل کے اوپر تجرباتی طور پر اڑایا ہے کیونکہ تاحال کسی
آبادی والے علاقے کے اوپر یا رات کے وقت اسے اڑانا ابھی غیر قانونی ہے۔
لیکن ٹیم کا کہنا ہے کہ جلد ہی ایسا کرنا بھی ممکن ہو جائے گا۔ |
|