ہم مسلمانوں نے پاکستان اس مقصد کے لئے حاصل کیا تھا کہ
ہم غیر مذہب/ہندووٓں کے طو رطریقےہندوستان ہی میں اپنی جائداد اور اثاثوں
کے ساتھ ہی دفن کرکے پاکستان میں اسلامی طریقے پر اپنی زندگی گزاریں۔ لیکن
افسوس ! صد افسوس! حکمران تو جیسے تیسے ہیں ہی، ہم بھی کچھ کم نہیں۔
جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے گھروں میں شادیاں بڑی دھوم دھام سے ہوتی تھیں
۔اور ہفتوں گھروں میں مہمانوں کی آمدو رفت رہتی تھی۔ رسومات تو بے شک
ہندوؤں کی رسومات سے میل کھاتی تھیں لیکن عزت و آبرو کے لئے جان تک قربان
کردیتے تھے۔ اس وقت بھی کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی کہ ہم پاکستان میں کس
لئے آئے ہیں، اس میں دینی تعلیم دینے والے علماءکرام بھی اس طرح کی خرافات
کو مٹانے کے لئے کوشش نہ کرسکے یا کامیاب نہ ہوسکے۔ انہیں نکاح پڑھا کر فیس
وصول کرنے تک دلچسپی رہی۔ اگر نکاح سے پہلے شادی کے گھر کے تمام بڑوں کو
ایک نصیحت آموز سبق دے دیا کرتے تو شائد کچھ حالات بہتر ہوسکتے تھے۔ حکومت
کے قوانین بھی اس مد میں کچھ نہ کرسکے۔ ویسے سچی بات یہ ہے کہ ہم اچھے
عالموں ، مولاناؤں کی بھی قدر نہیں کرتے۔
اس سے انکار نہیں کہ آج بھی لوگ سادگی سےشادیاں کرتے ہیں اور ان خرافات سے
دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر جو شادیاں، شادی ہالوں میں کیمرے
اور مووی کے ساتھ ہو رہی ہیں ان میں ہم شیطان سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ جن
گھروں میں شادیاں منعقد ہوتی ہیں وہ اپنے تمام وسائل کے علاوہ قرضہ لے کر
ان خرافات کو اپنے نیک کاموں میں شامل کر کے اپنی آخرت تو خراب کر ہی رہے
ہیں ۔ دنیا میں بھی اپنا اور اپنی اولاد کا تماشہ بنا رہے ہیں۔
اپنی عزت و آبرو اپنی لخت جگر بیٹی کو شادی ہال میں کیمرہ مینوں اور دیگر
لوگوں کے ہاتھوں نجانے پر پتہ نہیں کیسے خوشی محسوس کرتے ہیں ، یہ تو ڈوب
مرنے کا مقام ہوتا ہے۔ دولہا، دلہن کا ایک ساتھ فلموں کے انداز اپنانا
کونسا اسلام کے مطابق ہے۔ والدین تو اپنی بیٹی کو عزت سے رخصت کرررہے ہوتے
ہیں ، لیکن عزت کہاں ہے ؟ بس رخصت کر رہے ہوتے ہیں۔ اور تو اور دولہا جو
اپنی دلہن کو عزت سے اپنے گھر لے جانا چاہتا ہے اسے اس بے شرمی پر کوئی خفت
نہیں، کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ سب سے زیادہ غیرت دولہا کو آنی چاہئے۔ اس
عزت کو جسے فلموں میں بھی چھپا کر ڈولی میں لے جایا جاتا تھا۔ اسکی اپنے
سامنے رقص کراکر کتنی تسکین حاصل کررہا ہے۔ اتنی خرافات تو شائد غیر مسلموں
میں بھی نہ ہوں۔
اب نکاح لوگ پہلے پڑھوالیتے ہیں اس لئے نہیں کہ وقت بچے، بلکہ اس لئے کہ
کوئی مذہبی، دینی شخص یا نکاح خواں اس طوفان بدتمیزی پر اعتراض نہ کرسکے۔
ورنہ ان خرافات اور شیطانی کاموں سے جو وقت بچے وہ نکاح میں استعمال کیا
جاسکتا ہے۔ یہ اچھا ہے کہ نکاح پہلے سے مسجد میں پڑھوایا جائے، لیکن کس نیت
سے؟ نیت بھی تو کوئی حیثیت رکھتی ہے نکاح مسجد میں چند لوگوں کے سامنے
پڑھا، چند لوگوں نے دعا کی، لیکن باقی سارا خاندان اور باراتی اس دعا سے
محروم رہے۔
شادی کی خوشی میں ان خرافات، شیطانیت کو ختم کرنا ہوگا، لیکن نہ والدین، نہ
حکمران اور نہ علماء یہ کام کریں گے اگر کرتے تو یہ نوبت نہ آتی! کچھ لوگوں
کو یہ باتیں ناگوار گذر رہی ہوں گی۔ لیکن اب وقت ہے کہ ہم مزید تباہی سے
بچنے کی ہمت کرلیں! اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔ آمین!
نوجوان نسل سے یہ التجا ہے کہ یہ کام آپ خود کرسکتے ہیں۔ جس نوجوان کی شادی
ہو وہ اپنی دلہن کی عزت کرائے اور کسی کو یہ اجازت نہ دے کہ کوئی اس کی عزت
کی نیلامی کرے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم میں اتنا ظرف نہیں کہ اس چیز کو برا
جانیں بلکہ روز بروز اس شیطانی کام میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے
ہر طبقہ کو اس کی فکر کرنی چاہئے۔ لیکن خصوصی طور پر نوجوان نسل سے یہ
امیدہے کہ وہ خود اپنی عزت و آبرو کی خاطر اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کریں
گے۔ |