مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد مختلف جماعتوں نے انتخابی
قوانین میں تبدیلی کا مطالبہ کیا، جس پر جولائی 2014ء میں مختلف جماعتوں کے
نمائندوں پر مشتمل ایک 34رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی کی
16رکنی ذیلی کمیٹی نے غور و فکر کے بعد، انتخابی قوانین میں اصلاحات تجویز
کیں۔ پارلیمانی کمیٹی نے 21جولائی 2017ء کو الیکشن اصلاحات رپورٹ کی منظوری
دی۔ ذیلی کمیٹی نے ایک مجوزہ اصلاح، مسلم امیدواروں کے انتخاب لڑنے کے
نامزدگی فارم میں بھی کی تھی۔فارم میں ختم نبوت کے حلف فارم سے لفظ
Oath(حلف)کو حذف کرنے کے علاوہ، لفظ solemnly swear that" )"قسمیہ حلف دیتا
ہوں کہ( کو "declare that" ) اقرار کرتا ہوں کہ( ،میں تبدیل کر دیا گیا
تھا۔ بعض افرادکے مطابق، قسمیہ حلف کو ختم کرنے سے، فارم میں غلط بیانی
کرنے پر، کامیاب امیدوار کو اسمبلی کی رکنیت سے نااہل کرانا مشکل تھا، بعض
کا موقف تھاکہ عوامی نمایندگی کے ایکٹ کے تحت جھوٹے اقرار نامے پر بھی
کامیاب امیدوار کے خلاف کار روائی ممکن ہے (وکلاء کی آراء، ایکسپریس،
28اگست، 2017ء)۔ مفتی منیب الرحمن اوّ ل موقف کی تائید کرتے ہوئے تنازع کی
شرعی نوعیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ کوئی ایمان و کفر کا مسئلہ نہیں
تھا،کیونکہ ختم نبوت کے اقرار کی عبارت فارم میں موجود تھی(روزنامہ دنیا،
14اکتوبر 2017ء)۔
بعض افراد سمجھتے ہیں کہ فارم کے آخر میں، امیدوار کی طرف سے اندراجات کی،
حلفاً تصدیق (Solemnly affirm) کے الفاظ موجود تھے۔ جبکہ ہم نے پارلیمانی
رپورٹ میں متنازع فارم کے آخر میں بھی یہ الفاظ نہیں پائے
www.na.gov.pk/uploads/documents/1502166432-345.pdf)،صفحہ 195، رسائی
12جولائی 2018ء)۔
رپورٹ میں نامزدگی فارم سے متعلق ہے کہ یہ فارم، حلفیہ (solemn
affirmation) پرہوگا(صفحہ 87) ۔فارم کے مشمولات کے ذکر میں ختم نبوت کا حلف
یا اقرار شامل نہیں(صفحہ 87-88)۔
مجوزہ الیکشن ایکٹ، 22 اگست کو قومی اسمبلی سے منظور ہوکر 22 ستمبر کو سینٹ
میں پیش ہوا، جہاں الفاظ کی تبدیلی پر جماعت اسلامی کے سنیٹر سراج الحق
اورجے یو آئی کے سنیٹر حافظ حمد اﷲ کا اعتراض اور درستی کی مجوزہ ترمیم
موجود تھی۔اس موقع پر وفاقی وزیر ِ قانون زاہد حامد اور سنیٹر اعتراز احسن
نے اعتراض سے اتفاق نہیں کیا۔ نمازِ جمعہ کے بعدحمد اﷲ نے اپنا اعتراض پھر
دہرایا ،جس کی لیگی لیڈر آف ہاؤس سینٹر راجہ ظفر الحق نے حمایت کی،اب زاہد
حامد نے اعتراض کی مخالفت نہیں کی ،جبکہ سنیٹر ہری رام اور اعتزاز احسن نے
مخالفت کی۔ جس کے بعد اس پر ووٹنگ ہوئی۔ مسلم لیگ ن کے اکثر حاضر ارکان نے
درستگی ترمیم کی حمایت میں اور اپوزیشن جماعتوں( پیپلز پارٹی اور تحریک
انصاف) نے مخالفت میں ووٹ دیئے، جس کے باعث یہ ترمیم، 34-13کے تناسب
سے،کثرت ِ رائے سے مستر د ہو گئی ۔
اسی روزاعتراز احسن نے (نوازشریف کے بارے میں) ترمیم پیش کی کہ جو شخص قومی
اسمبلی کا رکن نہیں رہ سکتا وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا، یہ ترمیم
37 کے مقابلے میں 38ووٹوں سے مسترد ہونے پر نوا ز شریف کے پارٹی سربراہ
بننے کا راہ ہموار ہو گئی ۔اکثر ارکان کی توجہ نواز شریف کے پارٹی سربراہ
بننے پر مرکوز رہی اور انھوں نے حلف نامے پرمطلوبہ توجہ نہیں دی۔
(سینیٹ کارروائی 22ستمبر 2017ء ، صفحہ 67، روزنامہ جنگ، 23ستمبر 2017ء)۔
سینٹ کے بعد الیکشن بل پھر قومی اسمبلی پہنچا ۔ 2اکتوبر کو قومی اسمبلی کا
اجلاس ہوا۔ یہاں بھی نواز شریف اشو غالب تھا اور یہاں بھی جماعت ِ اسلامی
کے ارکان نے اس سلسلے میں اپنی مجوزہ ترامیم جمع کرادی تھیں۔ اجلاس میں بل
کی منظوری سے قبل، جماعت ِ اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ نے دیگر ترامیم کے
ساتھ ختم نبوت ترمیم پر بھی اصلاح کی مجوزہ ترمیم پیش کی۔یہاں طارق اﷲ سے
یہ غلطی ہوئی کہ اُن کی دیگر ترامیم میں نواز شریف کے پارٹی سربراہ بننے کے
خلاف بھی ترمیم موجود تھی، جس سے اُن کی بات، نواز شریف اشو کے شور تلے دب
کر رہ گئی۔ طارق اﷲ کی تقریر کے بعد شیخ رشید نے اس مسئلے پر اپنے انداز
میں تقریر کی،گو کہ شیخ رشید کے مخصوص جارحانہ انداز کی وجہ سے یہ مسئلہ
اجاگر ہوا، مگر متعلقہ تبدیلی کے خلاف شیخ رشید کی اپنی کوئی با ضابطہ
مجوزہ ترمیم نہیں تھی نیز وہ خود بھی الیکشن اصلاحات پارلیمانی کمیٹی میں
شامل تھے ۔ تاہم وہ 22اگست کے قومی اسمبلی اجلاس میں موجود نہ تھے۔
2اکتوبر کے الیکٹرونک میڈیا اور 3 اکتوبر کے اخبارات کے ذریعے یہ مسئلہ
پہلی مرتبہ اجاگر ہوا۔ یوں کہیے کہ 21جولائی سے 2 اکتوبر2017ء، یعنی ڈھائی
ماہ تک ، ہماری حکومتی، سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور قا ئدین، سب نے اس
معاملے سے لا پروائی برتی حالانکہ یہ معاملہ پہلے بھی اخبارات میں رپورٹ
ہوتا رہاتھا ( روزنامہ ایکسپریس، 28اگست، روزنامہ جنگ، 23ستمبر2017ء)۔ اگلے
دن یہ ایک بڑا عوامی اشو بن کر سامنے آیا ۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ حکومت
نے آئین میں تبدیلی کی ہے اور ختم نبوت کا قانون ختم کر دیا ہے۔ جبکہ
تبدیلی، الیکشن نامزدگی فارم میں تھی۔یہ بھی کہا گیا کہ فارم سے ختم نبوت
کی شق ہی ختم کردی گئی ہے جبکہ یہ ختم نہیں ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں کوئی،’’ ختم نبوت کا قانون‘‘ نہیں ہے اور نہ کسی
قانون میں ختم نبوت سے انکار کی، کوئی سزا ہے۔ پاکستان کے کسی قانون میں
کسی غیر مسلم و قادیانی کے الیکشن لڑنے پر کوئی پا بندی نہیں ہے۔ شاید ایسی
مثال بھی نہ ہو کہ کسی غیر مسلم یا قادیانی نے مسلمانوں کا نامزدگی فارم
بھر کر، مسلم نشست پر الیکشن لڑا ہو۔تاہم دھوکہ دہی کے ہر امکان کا راستہ
روکنے کے لیے جامع مؤثر قانون سازی کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ متنازع تبدیلی کسی ایک یا دو تین افراد کی ایک ’’ با
مقصد اور دانستہ حرکت‘‘ ہو، مگر اسے پوری حکومت، اپوزیشن،پارلیمنٹ یا
کمیٹیوں کے تمام ارکان کی حرکت قرار دینا درست نہیں ۔
3 اکتوبر کو قومی اسمبلی نے متعلقہ درستی و بحالی پر اتفاق کیا اور محمد
نواز شریف نے بھی فوری درستی کی ہدایت کی ( روزنامہ جنگ اور ایکسپریس ،
4اکتوبر 2017ء)۔5 اکتوبر 2017ء کو قومی اسمبلی میں حلف نامہ کے سابقہ
مطلوبہ الفاظ بحال کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس میں کئی ارکان نے ذمہ
دار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
سابقہ الفاظ بحال ہونے پر، مذہبی جماعتوں نے یوم تشکر منایا۔تحریک لبیک
پاکستان ، کراچی کے امیر سید زمان علی جعفری قادری نے شمع رسالت کے پروانوں
کو مبارک باد پیش کی ( روزنامہ نوائے وقت، کراچی، 7اکتوبر 2017ء)۔ 16نومبر
کو ختم نبوت سے متعلق دفعات 7Bاور 7C بھی قومی اسمبلی سے منظور ہوگئیں۔ ان
دفعات پر اکثر مذہبی رہنماؤں کی بھی توجہ نہیں تھی۔ یہ 2002ء کے الیکشن
قوانین میں عارضی طور پر 10دن کے لیے شامل کی گئی تھیں مگر اب انہیں مستقل
طو رپر الیکشن قوانین کا حصہ بنا دیا گیا۔
مطلوبہ بحالی کے بعد دھرنے ، جلاؤ گھیراؤ،شہادتیں، گرفتاریاں،مقدمات
،معاہدہ، وزیر کی تبدیلی،مبارکبادیں، ضما نتیں، پھر دھرنا، پھر معاہدہ، پھر
مبارکبادیں، غداری مہم ، گستاخی اور کفر کے فتوے،اشتعال انگیزتاثرات، جوتا
زنی فائرنگ کے واقعات، عقیدت و عداوت اور اظہارِ رائے کے غیر مہذبانہ انداز
، طاقت کا احساس اور عوامی پذیرائی کے شاندار تاریخی مظاہرسامنے آئے۔
راجہ ظفر الحق رپورٹ : الیکشن فارم میں متعلقہ ردّو بدل کی تحقیقات کے لیے،
مختلف حکومتی، سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے مطالبے پر محمد نواز شریف نے،
مذہبی جماعتوں کے دھرنوں سے قبل 7 اکتوبر کو راجہ ظفر الحق، احسن اقبال اور
مشاہد اﷲ خاں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔
کمیٹی کی 11صفحات پر مشتمل رپورٹ کو راجہ ظفر الحق رپورٹ کا نام دیا گیا،
جس پر عدالت اور تحریک لبیک، دونوں نے اعتماد کا اظہار کیا ۔ رپورٹ میں
الیکشن اصلاحات کے لیے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کی 16رکنی ذیلی کمیٹی کی
فارم سے متعلق کارروائی اور پروسیز کو زیادہ بیان کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مختلف فارمز، مسلم لیگ ن کی انوشہ رحمن اور تحریک انصاف کے
شفقت محمود کو جامع اور سادہ بنانے کے لیے دیئے گئے تھے۔ یہاں رپورٹ میں ،
ختم نبوت فارم کا ذکر نہیں مگر امکان ہے کہ وہ فارم بھی ان فارموں کے ساتھ
تھا۔
رپورٹ کے مطابق، سب کمیٹی کے 91ویں اجلاس میں انوشہ رحمن اور شفقت محمود کی
جانب سے دوبارہ تیار کردہ ( redrafted) فارموں پر غور کیا گیا اور فیصلہ
کیا گیا کہ ان فارموں پر انوشہ رحمن پھر نظر ثانی ( review/redraft) کر
سکتی ہیں۔ 92 ویں اجلاس میں انوشہ رحمن کے، نظر ثانی شدہ فارموں پر غورکیا
گیا اور انہیں اس ہدایت کے ساتھ منظور کیا گیا کہ زاہد حامد ان کی دوبارہ
جانچ پڑتال کریں گے۔کمیٹی کے آخری اور93ویں اجلاس میں جامع و سادہ، ایک
نامزدگی فارم کے تصور کو سراہا گیا۔اجلاس کی زیاد ہ کارروائی، اثاثہ جات و
مالیات کے فارم سے متعلق تھی ۔ فیصلہ ہوا کہ وزارت قانون و انصاف، سب کمیٹی
کی ترامیم کو نامزدگی فارم اور الیکشن ایکٹ میں شامل کر سکتی ہے۔سب کمیٹی
کی رپورٹ کو، پارلیمانی کمیٹی نے 21جولائی 2017ء کو اپنے 26ویں اجلاس میں
منظور کیا۔
رپورٹ میں خیال ظاہرکیا گیا ہے کہ فارموں کو جامع اور آسان بنانے کے دوران
ختم نبوت حلف میں بھی الفاظ کی ردو بدل عمل میں آئی۔ رپورٹ کے مطابق ،کمیٹی
یا سب کمیٹی کے کسی اجلاس میں ختم نبوت کے فارم میں رد و بدل، زیر بحث آنے
کا ذکر نہیں ۔ متنازع تبدیلی کو چیک کرنے میں ناکامی کازیادہ ذمہ دارزاہد
حامد کو ٹھہرایا گیا ہے، جس کا اُنھوں نے اعتراف بھی کیا ہے۔علاوہ ازیں
رپورٹ کمیٹی کے علم میں یہ بات بھی آ ئی کہ سب کمیٹی کے 93 ویں اجلاس کی
کارروائی، فارموں کے ہمراہ قومی اسمبلی کے ذریعے سرکولیٹ کی جانی تھی
مگرزاہد حامد نے قومی اسمبلی اسٹاف کو اسے سرکولیٹ کرنے سے منع کر دیا تھا
اور جب حتمی مسودہ 34رکنی پارلیمانی کمیٹی کو منظوری کے لیے بھیجا گیا تواس
کے ارکان نے بھی ختم نبوت حلف سے متعلق لفظی ردو بدل کا کوئی نوٹس نہیں
لیا۔رپورٹ میں کہیں بھی، Mistake (غلطی ) یا )conspiracyسازش( کا لفظ
استعمال نہیں ہوا۔جبکہ عوام کی اکثریت اسے سوچی سمجھی غلطی اور سازش تصور
کرتی رہی ہے۔
حکومت نے یہ رپورٹ 20فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرا ئی۔
12اپریل کو یہ تحریک لبیک پاکستان کے حوالے کر دی گئی۔ اس کے بعد اس ضمن
میں حکومت اور تحریک، دونوں نے چپ سادھے رکھی جبکہ رپورٹ عام کرنے کے سلسلے
میں، کسی پر کوئی قانونی پابندی نہیں تھی ( گفتگوفدا حسین ہاشمی ایڈووکیٹ،
9جولائی 2018ء)۔ ورنہ تحریک لبیک اسے عام کرنے کا مطالبہ نہ کرتی اور نہ
حکومت اسے تحریک کے حوالے کرتی ۔ رپورٹ تحریک لبیک کو 12اپریل کو ملی اور
15اپریل کو حکومت نے تحریک کے قائد خادم حسین رضوی صاحب پر سے مقدمات ختم
کر دیئے، ممکن ہے کہ رپورٹ عام نہ کرنے کی وجہ یہ رہی ہو۔ دوسری طرف رپورٹ
میں واضح ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے درستی کی مخالفت کی تھی۔اس
لیے ممکن ہے کہ بعض حلقے، اس بات کو عام کرنا نہ چاہتے ہوں۔حتیٰ کہ غالباً
مسلکی اختلاف کے باعث، جماعت اسلامی اور جے یو آئی کی حلف نامے کو درست
کرنے کی پارلیمانی کوششوں سے بھی دانستہ چشم پوشی برتی گئی جبکہ بقول مفتی
منیب الرحمن ’’ یہ کوئی ایمان و کفر کا مسئلہ نہیں تھا‘‘(روزنامہ دنیا،
14اکتوبر 2017ء)۔
عدالتی مقدمہ : مورخہ 4جولائی 2018ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت
عزیز صدیقی نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے سلسلے میں، ممتاز دیوبندی عالم
مولانا اﷲ وسایا کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کافیصلہ جاری کیا۔ مقدمے کی رو
داد، بشمول فیصلہ، 172صفحات پر مشتمل ہے، جس میں، موضوع کا پس منظر،قرآن
احادیث و تاریخ کے حوالے سے عقیدہ ختم نبوت ، قادیانی تحریک ، تحفظ ِختم
نبوت کی مختلف تحریکوں و مقدمات اور 1974ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم قرار
دینے کی، روداد شامل ہے۔
تین صفحات 162-164پر ، ختم نبوت سے متعلق ترمیم کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس
ضمن میں راجہ ظفر الحق رپورٹ کی تعریف کی گئی ہے اور اس کے تحت، متعلقہ
کارروائیوں ، پروسیز اور خامیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ عدالت نے ردّو بدل کا
مقصد، قادیانیوں کی بطور ِغیر مسلم الگ شناخت کم کرکے، انھیں مسلمانوں کی
صف میں لانے کی، ڈرافٹ کرنے والے کی دانستہ و محرک ( (deliberate and
motivatdکوشش کوقراردیا ہے اور اس منصوبے ( plot)کو بے نقاب کرنے میں قومی
اسمبلی اور سینٹ کے تمام ارکان کی لا پرواہی اور ناکامی کو بیان کیا
ہے(صفحہ162)۔مقدمے میں ممتاز قادری اور فیض آباد دھرنے کا بھی ذکر ہے۔واضح
رہے کہ جج صاحب دھرنے،معاہدے اور اس میں فوج کے کردار پر شدید تنقید کرچکے
ہیں( 28-29نومبر2017) ۔ مقدمے کے صفحہ163پر ظفر الحق رپورٹ عام کرنے کاحکم
ہے۔
عدالتی مقدمے میں، حلف نامے میں ہونے والی، لفظی رد و بدل کی قانونی حیثیت
پر قانونی ماہرین کی آراء کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ 1973ء کے آئین میں مسلمان
کی تعریف شامل کرانے میں علامہ شاہ احمد نورانی ، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری
اور دیگر علماء کا اہم کردار تھا ۔ مقدمے میں بیان کردہ دیگر رودادوں کی
روشنی میں اس تعریف کی روداد اور اس کے اثرات کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ عدالت
نے اپنے فیصلے میں حلف نامے میں ردّو بدل پر کسی کو با قاعدہ قصور وار نہیں
ٹھہرایا اور نہ عدالت نے کسی کو کوئی سزا دینے کی سفارش کی ۔عدالت نے تحریر
کیا کہ چونکہ یہ معاملہ تفصیلی جانچ پڑتا ل کا متقاضی ہے ، اس لیے اس کورٹ
کے لیے، اس کی ذمہ داری کسی ایک شخص،پارٹی یا گروہ پر ڈالنا مشکل ہے(صفحہ
161-162)۔
عدالتی فیصلے سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا تبدیلی کی نوعیت ، ایسی غلطی
یا جرم قرار نہیں پاتی کہ جس پر عدالت کسی کو کوئی سزا سناتی۔ ممکن ہے اس
سوال کا جواب ، عدالت میں کوئی مقدمہ دائر کرکے مل سکے ۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ دین اسلام اور آ ئین پاکستان مذہبی آ زادی سمیت
اقلیتوں کے تمام بنیا دی حقو ق کی ضمانت فرا ہم کر تا ہے۔ غیر مسلم اقلیت
اپنی اصل شنا خت چھپا کر ریا ست کو دھوکہ دیتی ہے، جس سے مختلف مسائل جنم
لیتے ہیں ۔ مقدمے میں قادیانیوں کی سرگرمیوں، اثر و نفوذ، شناخت کومخفی
رکھنے، اہم عہدوں پر تعیناتی، اعداد و شمار کی عدم دستیابی اور اس ضمن میں
مناسب قانون سازی نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ اگر
اس حوالے سے ضروری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ملک میں افراتفری ، نفرت اور
مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
فیصلے: مقدمے کے آخر میں ,مقدمے کا خلاصہ اور صفحہ 171پر درج ذیل 6 عدالتی
فیصلے ہیں:
( 1 شنا ختی کارڈ پاسپورٹ، پیدائشی سرٹیفیکٹ، پاسپورٹ کے حصول اورانتخا بی
فہرستوں میں اندراج پر درخواست گزار سے، مسلم و غیر مسلم کی آئینی تعریف پر
مبنی بیان حلفی لینا لازمی قرار دیا جائے ۔
2) تمام سرکاری،نیم سرکاری محکموں، بشمول عدلیہ ، افواج اور سول سروسز میں
ملازمتوں پر تقرری و شمولیت کو متذکرہ بیان حلفی سے مشروط کیا جائے۔
3) نادرا اپنے قواعد میں، کسی بھی شہری کی طرف سے اپنے درج شدہ کوائف،
باالخصوص مذہب کی تبدیلی یا درستگی کے لیے، مدت کا تعین کرے۔
4) پارلیمنٹ ، آئینی تقاضو ں اور بنیادی قانونی اصولوں کی روشنی میں، عدالت
عظمی کے فیصلے
(1193 SCMR 1748) اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے(PLD 1992 Lahore 1) کے
مطابق ضروری قانون سازی کرے۔ اور ایسی تمام اصطلاحات جو باالخصوص’’ اسلام
اور مسلمانوں‘‘ کے لیے مخصوص ہیں، انہیں کسی بھی اقلیت کے افراد کو اپنی
اصل شناخت چھپانے یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال سے روکنے کے لیے موجودہ
قانون میں ضروری ترمیم و اضافہ کرے۔تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھانے
کیلئے مسلمان ہونے کی شرط لازمی قرار دی جائے۔
5 ) حکومت پاکستان اس بات کا خصوصی اہتمام کرے کہ تمام شہریوں کے درست
کوائف دستیاب ہوں اور کسی بھی شہری کے لیے اپنی اصل پہچان اور شناخت چھپانا
ممکن نہ ہو۔ حکومت، نادرا میں قادیانیوں مرزائیوں کی درج شدہ تعداد اور
حالیہ مردم شماری سے اکھٹے کئے گئے اعداد و شمار میں، نمایاں فرق کی
تحقیقات کے لیے ضروری اقدام کرے۔
6) ریاست اس بات کی پابند ہے کہ وہ مسلم امہ کے حقوق ، جذبات اور مذہبی
عقائد کی حفاظت کرے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے آئینی حقوق
کے تحفظ کو یقینی بنا ئے۔
مذکورہ عدالتی مقدمے اور فیصلے سے، رکن قومی اسمبلی کیپٹن صفدر کا ،اسمبلی
فلور پر دیا جانے والا یہ بیان مطابقت رکھتا ہے، جس میں انھوں نے مطالبہ
کیا تھا کہ فوج سمیت تمام محکموں میں قادیانیوں کو اعلیٰ عہدوں سے برطرف
کیا جائے، عقیدہ ختم نبوت کا حلف عدلیہ سمیت22ویں گریڈ کے ہر افسر کے لیے
لازم قرار دیا جائے، انصاف کی کرسیوں پر کسی قادیانی کو نہ بٹھایا جائے۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کا نام تبدیل کیا جائے( ایکسپریس
11اکتوبر2017ء)۔ کیپٹن صفدر کے اس بیان کے جواب میں فوجی ترجمان کو اپنا
وضاحتی پالیسی بیان دینا پڑا تھا( روزنامہ نوائے وقت، 13اکتوبر،2017ء)۔ |