مستونگ سے میری محبت کے اسباب

یہاں کے لوگ راستہ بتاتے بھی ہیں - اور راستہ بناتے بھی ہیں اور راستہ دیتے بھی ہیں

اگرمیں آپ سے سوال کروں کہ آپ نے زندگی کے اتنے برس گزار دئے --- جس میں اتنی راتیں تھیں اور اتنے دن اور اتنے گھنٹے ---------------- اتنی راتوں میں -اتنے دنوں میں - اور اتنے گھنٹوں میں سب سے دلکش نظارہ جو جو آپ نے دیکھا اور آج بھی آپ بار بار آپ کی آنکھوں کے سامنے آتا ہے کونسا ہے ---------- آپ سوچتے رہیئے اور تصور میں وہ منظر لاتے رہیئے
اور اگر یہی سوال آپ مجھ سے کرتے تو میرے منہ سے بے اختیار نکلتا مستونگ اور فقط مستونگ
میں نے مستونگ کا نام سب سے پہلے کب سنا ؟
اگر میں جواب دوں کہ جب سے ہوش سنبھالا اس وقت سے ------------- تو صوبہ پنجاب -صوبہ پختونخوا اور صوبہ سندھ کے باسیوں کو حیران نہیں ہونا چاہیئے کہ میرا بچپن مستونگ سے ستر میل کے فاصلے پر واقع نوشکی میں گزرا - اور جب بھی کوئٹہ آتے تھے تو مستونگ روڈ کا ریلوے اسٹیشن بہت اچھا لگتا تھا کیوں کہ یہاں سے کوئٹہ کی خوشگوار ہوا کے جھونکے محسوس ہو نا شروع ہو جاتے تھے -
مستونگ روڈ ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی کا قیام تو صرف دو منٹ کا ہوتا تھا چنانچہ اس مختصر سے قیام پر میں مستونگ کے بارے میں یہ کیسے دعویٰ کر سکتا ہوں کہ اتنی محبت کون کرے گا کہاں پاؤگے - مستونگ سے محبت کے اسباب تو دوسرے ہیں -
آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا - -امتحانات ہوئے میرے بہت اچھے نمبر آئے اور میں پورے بلوچستان میں سوئم آیا - لیکن یہ بھی پتا چلا کہ مستونگ کے ایک طالب علم محمد عظیم نے مجھ سے بھی زیادہ نمبر لئے ہیں - -ایک تیرہ سال کے بچے کے ذہن میں جس خیال نے جنم لیا وہ یہ تھا کہ مستونگ کے لوگ محنتی ہیں جب ہی تو یہاں عظیم جیسے عظیم طالب علم رہتے ہیں -

اسی زمانے میں ایک ریلوے کے ملازم کے بارے میں معلوم ہوا - شریف الطبع - ہر ایک سے مخلص - ہر ایک کے وفادار - والدین غالباًپاک ہند بٹوارے کے دوران شہید ہو گئے تھے اور اکیلے بھٹکتے بھٹکتے ریلوے کی ملازمت کے دوران پہلے کوئٹہ پھر مستونگ روڈ پہنچے - حیدر آباد بھارت سے تعلق تھا - نام پاشا تھا - ان کی سادگی -ان کی شرافت دیکھتے ہوئے مستونگ کے بلوچ اور بروہی افراد نے بطور داماد اپنے خاندان میں شمولیت کی پیش کش کی - پاشا صاحب کی شرافت اور نجابت کے سبب ساری رکاوٹیں ڈھ گئی تھیں اور ایک بروہی خاندان میں ان کی شادی ہوئی -بروہیوں اور بلوچوں نے تو ان سے وفا داری نبھائی لیکن ان کی زندگی ایسا نہ کر سکی اور ان کا انتقال پینتیس برس کی عمرمیں ہی ہو گیا - ان کی تدفین مستونگ میں ہی ہوئی -

انشا جی نے ایک مشہور غزل کہی ہے

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کا لگانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں
کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے

لیکن اگر ان کی پاشا سے ملاقات ہو جاتی اور مستونگ میں جا کر دیکھتے کہ لوگ کیسے شیر و شکر ہو کر ان کے ساتھ رہ رہے ہیں تو کہتے یہ اشعار مستونگ کے لوگوں کے لئے نہیں ہیں- یہاں کے لوگ راستہ بتاتے بھی ہیں - اور راستہ بناتے بھی ہیں اور راستہ دیتے بھی ہیں - ان کے انتقال پر ایک مضمون مقامی اخبار غالباً 'نعرہ حق ' میں بھی چھپا تھا -
یہ سب مل کر مستونگ سے میری محبت کے گراف کو بڑھا رہی تھیں

یہ غالبا" 1974 کی بات ہے - مارچ کا مہینہ تھا - بہار کی آمد آمد تھی - کوئٹہ اور ارد گرد کے علاقوں میں بہار ایسے نہیں آتی جیسا کہ لاہور کراچی حیدر آباد میں آتی ہے - یہاں قدرت خود اعلان کرتی ہے دیکھو دیکھو بہار آرہی ہے -دیکھو نئی کونپلیں کھل رہی ہیں - نئے پتے نکل رہے ہیں - پتے بھی ایسے ویسے مرجھائے ہوئے نہیں بلکہ ایک دم چمکدار ایک دم سبز -- کہیں میلاہٹ کا ایک نشان بھی نہیں -- پھول بھی طرح طرح کے اودے اودے -- نیلے نیلے - پیلے پیلے - اسی بہار کے موسم میں مجھے اپنے کسی مسئلے کے حل کے لئے تحصیلدار مستونگ سے ملنے جانا پڑا - وقت کم تھا سو وقت کی پرواہ کئے بغیر شام کو ہی نکلنا پڑا حالانکہ دن بھر کی مصروفیات کے سبب تھکا ہوا تھا - مستونگ پہنچتے پہنچتے رات ہو گئی اس لئے ارد گرد کے علاقوں کا پتہ ہی نہیں چل سکا کہ کیسا علاقہ ہے اور بس کہاں جا رہی ہے -
تحصیل دار صاحب نے کسی ڈاک بنگلے میں رہائش کا انتظام کر دیا تھا - بس اڈے پر ڈاک بنگلے کا چوکیدار مجھے لینے کے لئے موجود تھا - ڈاک بنگلے کیسے پہنچا کچھ یاد نہیں -اتنا ضرور یاد ہے کہ اندھیرے میں ایک پگڈنڈی پر بھی چلنا پڑا تھا -ڈاک بنگلے پہنچا تو تھکن کے مارے برا حال تھا اس لئے جاتے ہی کھانا کھایا اور بستر پر پڑ کر سو گیا - صبح سویرے کسی مرغے کی بانگ نے بیدار کر دیا - میں ڈاک بنگلے سے باہر نکل آیا - باہر نکلا تو ایک عجب سا سماں تھا - سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کہاں کھڑا ہوا ہوں - سورج ابھی پورا طلوع نہیں ہوا تھا بلکہ طلوع ہی نہیں ہوا تھا لیکن اس کی ہلکی ہلکی روشنی پہنچ رہی تھی - چاند کی نہ جانے کونسی تاریخ تھی - معدوم ہوتا ہوا چاند نصف کرے کی صورت میں ایک چاندی کی پلیٹ کی طرح آسمان پر اب بھی موجود تھا
- ہر سو ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی - ایک سناٹا پھیلا ہوا تھا - سناٹے کا بھی کبھی کبھی ایک عجیب سا سحر انگیز طلسم ہوتا ہے اور ایک عجیب سی کیفیت ہوتی ہے - اس وقت وہی عالم تھا -
یہ سناٹا - سناٹے نے پھیلی ہوئی خاموشی - سورج کی ہلکی ہلکی روشنی - چاند کی خوبصورت چاندنی سب ملکر ماحول پر ایک جادوئی اثر ڈال رہے تھے اور مجھے مبہوت کر رہے تھے لیکن اس سے زیادہ حسن تو نیچے ڈھلان میں پھیلی ہوئی پھولوں کی چادر ڈھا رہی تھی - نیچے ڈھلان ہی ڈھلان تھی - اس ڈھلان پر بادام کےدرخت لگے ہوئے تھے اور ان پر سفید گلابی پھول سجے ہوئے تھے - یہ پھولوں کی چادر --------- چاندنی اور سورج کی ہلکی روشنی کے ساتھ مل کر فضا میں تیرتے ہوئے بادلوں کے روپ میں نظر آرہی تھی -
مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں بادلوں میں کھڑا ہوا ہوں - ڈھلان کے بعد کیا تھا یہ میرے ذہن نے سوچا ہی نہیں - شاید کوئی بل کھاتی سیاہ تارکول کی سڑک ہو یا شاید نہ ہو ------ شاید کوئی ندی ہلکے ہلکے دھیرے دھیرے بہہ رہی ہو یا شاید نہ بہہ رہی ہو --چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہوں جو سبزے سے لدی ہوئی ہوں ---------میں اس سحر سے نکلتا تو یہ سب سوچتا
مستونگ کے حسن کا یہ حسین سراپا میرے ذہن میں رہا - دس سال -
بیس سال -- تیس سال -- چالیس سال --
جب کہیں حسین نظاروں کی بات چھڑی - میں نے مستونگ کے اس حسین سراپے کو بلا لیا اور تصویر کشی کر نے لگا - میرا پسندیدہ مستونگ --جب بھی میں یہ الفاظ ادا کرتا ہوں تو منہ میں ایک حلاوت سی بھر جاتی ہے جس کا مزہ میں عرصے تک محسوس کرتا رہتا ہوں -

لیکن یہ کیا ہوا --چوالیس سال بعد جولائی 2018 کو اس تصویر میں دھبے سے آگئے -
اسی مستونگ کے قریب 13جولائی 2018 کو ایک سیاسی جماعت ‘ بلوچستان عوامی پارٹی ‘ کے جلسے میں سراج رئیسانی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کےبھائی نے تقریر کا آغاز ہی کیا تھا کہ ایک دھماکا ہوا اور میرے مستونگ کے ڈیڑھ سو کے قریب افراد کو خون میں نہلا دیا - اس میں سراج رئیسانی بھی شامل تھے -
انا للہ و انا الیہ راجعون

بے شک ہم اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی طرف لوٹ کر جائیں گے -


جمیل الدین عالی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ٹی وی ،فلم یا اسٹیج کے اداکار (ستارے) ان کے موضوعات میں شامل نہیں - اسی طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی سیاست کے معاملات میرے موضوعات میں شامل نہیں - وجوہات کئی ہو سکتی ہیں - ایک بڑی وجہ تو یہ بھی ہے کہ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ اصولوں کے بغیر سیاست معاشرے کی تباہی کا ذمہ دار بن سکتی ہے - لیکن پاکستان کی سیاست میں یہی سب کچھ ہورہا ہے-سو سیاسی پہلوؤں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ سراج رئیسانی کی سیاسی پارٹی کیوں وجود میں آئی - اس کے نام بی - اے - پی کو “باپ “ کہہ کر کیسی پھبدیاں کسی جاتی ہیں میں فقط ان بے گناہ افراد جو اس سانحے میں شہید ہو گئے کا ماتم کرنا چاہتا ہوں-
کیسے کیسے افراد تھے جو روٹی روزی اور اپنے خاندان والوں کی پرورش کے لئے محنت اور مشقت کا سمبل بنے ہوئے تھے ایک ہی لمحے میں اس جہان فنا سے اس جہان بقا کو رخصت ہوگئے -

کیا وہ گڈریا یاد نہیں آتا جو عمر کم ہونے کے سبب تین چار بکریوں اور دنبوں کو لیکر صبح سویرے نکل جایا کرتا تھا اور شام گئے واپس آتا تھا -موئیشیوں کو تو پیٹ کے لئے خوراک مل جاتی تھی لیکن کیا کو گڈریئے بھی کچھ خوراک ملتی یا وہ یا بھوکا پیاسا ہی شام کو گھر آکر کھانے کاسوال کرتا تھا -- کسی کو علم نہیں -- وہ بھی اس دھماکے میں ملک عدم کو روانہ ہوا -

وہ سائیکل پر دن بھر مختلف قسم کا کباڑ جمع کر نے والا شہید بھی یاد آتا ہے جو دن بھر گلیوں کوچوں میں پھرتا اور جھٹ پٹے کے وقت میلے کچیلے کپڑوں میں گھر پہنچتا وہ بھی اس جہاں بے وفا کی بے وفائی کا گلہ کئےبغیر چلا گیا

ایک شہید مٹی کی دیواریں بنانے میں کسی کا معاون تھا - اور چند سکے -چند نوٹ لیکر گھر آتا تھا - اب وہ نہیں آیا کرے گا کہ اب وہ دھماکے کی خوراک بن کر قبر کی دیواروں کے اندر دفن کیا جا چکا ہے -

یہ تسلیم کہ سائنس کے بہت سے کمالات ہیں -یہ بھی مانتا ہوں کہ سائنس نے ہمیں بے شمار آسانیاں دی ہیں - اس سے بھی انکار نہیں کہ اس کے بغیر زیست بڑی تکلیف میں تھی - لیکن انسانیت کے بغیر سائنس کا استعمال سماج کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے - ریموٹ کنٹرول دھماکا یا خود کش دھماکا ہونا اور پھر بے گناہ لوگوں کا اسکی زد میں آنا اور کیا ہے ؟ کیا یہ معاشرے کا نقصان نہیں ہے ؟ بے گناہ افراد کی ہلاکتیں ملک کے اندر نئے مسائل جنم دیتی ہیں ہیں - کئی مسائل تو نفسیاتی ہوتے ہیں جن کا عام لوگ ادراک نہیں کر سکتے اور کئی سماجی جو معاشرے سے پنہاں نہیں ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہم نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں -

یہ شہدا معصوم تھے - سیاست کی اونچ نیچ سے نا آشنا - حکومتی حکمت عملیوں سے نا واقف- سیاست دانوں کی جادو گریوں سے لاعلم - ان شہدا کی تدفین کے وقت کچھ دشواریاں کھڑی ہو ئی تھیں لیکن شہادت پانے والے تدفین کی جگہ پا ہی گئے -

اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا گو ہوں کہ وہ ان کی قبور پر نور افشانی کرتا رہے اور ان کی ارواح کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ------------ آمین --اللھم آمین
 

Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 333339 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More