ہمیں طرح طرح کے نعرے سننے کو مل رہے ہیں جو کہ حقیقی طور
پر کھوکھلے ہیں جن میں کوئی بھی حقیقیت نہیں آج آپ دنیا کی ترقی یافتہ
اقوام کی طرف نظر دہرائیں تو آپ کو کہیں سے بھی نیا امریکہ، نیا انڈیا نیا
روس یا نیا انگلینڈ وغیرہ کا نعرہ سننے کو نہی ملے گا کیونکہ اقوام کی ترقی
نعروں سے نہیں بلکہ شعور کی فراہمی میں ہے جو کہ آج کی ترقی اقوام نے بڑے
احسن انداز سے اپنی آبادی کو فراہم کیا ترقی صرف قوم کے معماروں کے احکامات
پر عمل میں ہے آج ہماری تمام سیاسی جماعتیں اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر
رہی ہیں جو کہ ہمارے قومی ہیروز کے فلسہ اور احکامات کے منافی ہے۔ نیا
پاکستان ہمیں نہیں چاہیئے بلکہ ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جو عین پاکستان کی
ideology سے مطابقت رکھتا ہو۔ ہمیں آج کا نیا پاکستان سڑکوں اور پلوں کی
صورت نہیں چاہیئے بلکہ ہمیں پاکستان کی ترقی کے لئے تعلیم کو بنیاد بنانا
ہو گا چونکہ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کے پاکستان کی بقاء کے
لئے تعلیم یافتہ معاشرہ ضرورت ہے تعلیم کو بنیاد بنا کر ہم دنیا کی تمام
اقوام سے مقابلہ کر سکتے ہیں ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جہاں law and order ہو۔
ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جہا ں مریضوں کے لئے بہتر نظام موجود ہو۔ ہمیں وہ
پاکستان چاہیئے جہا ں کرشیاء کی طرح ایک قصاب کی بیٹی بھی president بن
سکتی ہو۔ ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جہاں واٹر کولر کے ساتھ پڑے گلاس کو زنجیر
سے نہ جکڑنا پڑے۔ ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جہاں مساوات اسلامی کا راج ہو۔
ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جس کی بنیاد 1400 سال پہلے والے طرز زندگی پر رکھی
گئی ہمیں وہ پاکستان چاہیئے جس کی بنیادوں میں ہمارے پیارے نبی پاک صلی
اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی کی تعلیمات ہیں۔ ہمیں نیا
نہیں اپنا پرانا پاکستان چاہیئے جہان امیر غریب کے لئے یکساں تعلیمی مواقعے
میسر ہوں۔ آج دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کو تو follow کرنا چاہتے لیکن اپنے
قومی ہیروز کی تعلیمات پر عمل سے عاری ہیں آج ہمیں اپنے بے منزل سفر کو با
مقصد بنانا ہو گا۔ آج ہمیں جتنی بھی ترقی یافتہ اقوام ہمیں نظر آتی ہیں ان
تمام اقوام کے پاس پندرھویں صدی میں کچھ نہ تھا ہر چیز مسلمانوں کا مقدر
تھی لیکن بد قسمتی سے ہم نے سب کچھ پاس ہوتے بھی کچھ حاصل نہ کیا۔ اور وہ
تمام اقوام جو آج ہمیں انسانیت اور امن کا درس دیتی ہیں یہ سب ہمارے ہی
آباؤ اجداد کے اخذ کرتا علوم ہیں جن پر انہوں عمل کر کے اپنی زندگیوں کو
کامیاب کیا۔ ہمارے وہ تمام سیاسی خضرات جو پاکستان کو نیا بناے کی باتیں
کرتے ہیں ان سے مجھ نا چیز کا ایک سوال ہے کہ کسی نے کبھی نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے درس حکومت کو پڑھا۔ کبھی سیرت نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کا بغور مطالعہ کیا۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا بہت ہی کم ہے۔
کسی کو پتہ بو علی سینہ کون تھے امام غزالی کون تھے ابن الہاشم کون تھے
بہاؤ الدین زکریا کون تھے؟ یہ وہ تمام لوگ تھے جن کی عطا سے ہم تو خیر نہیں
لیکن دوسری اقوام ضرور ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں۔ اور ہم آج بھی پستی کی
جانب گامزن ہیں۔ کبھی ہم نے تعلیم کو ترقی ہتھیار نہیں سمجھا۔ کبھی ہم نے
وہ تعلیمی نظام رائج نہیں کیا جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو اپنے آباؤ
اجداد کی کامیابیوں سے آگاہ ہو سکیں تا ان میں بھی ایک جذبہ ایمانی اور
جذبہ کامیابی پیدا ہو سکے۔ کیونکہ جناب علم ہی واحد ذریعہ کامیابی ہے۔ آج
ضرورت ہے کہ ہم اقبال اور قائد کے فلسفہ کو پڑیھیں۔ واصف علی واصف اور
اشفاق احمد صاحب جیسے لوگوں کی عطا کردہ تعلیمات پر عمل کرنا ہو گا۔ ہمیں
با علم اور با عمل پاکستان کے لئے جدوجہد کرنا ہو گی۔ ہمیں آئین پاکستان کی
پیروی کرنا ہو گی۔ ہمیں دنیا میں آنے والے نت نئے علوم سے آگاہی حاصل کرنا
ہو گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری حالت زار یہی رہے گی۔ ہمیں ایک قوم ہو کر
دنیا سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ ہمیں عمل کی فضا کو پیدا کرنا ہو گا۔ اسی میں
ہماری کامیابی ہے۔ اقتدار میں آنے والی جماعت کوئی بھی ہو مجھے غرض نہیں
لیکن ہاں میرے ملک کے لئے جدوجہد کرنے والی ضرور ہو۔ تو میری اس آنے والی
جماعت سے میری ادنہ سی گزارش ہے کہ صرف پاکستان کی معیشت اور law and order
کو اسلامی تعلیمات کے مطابق تعمیر کیا جائے جس سے ہر مسہو کا حل بخوبی ہو
جائے گا اللہ میری اس ارض پاک کو شاد باد رکھے۔ پاکستان زندہ باد پاکستان
پائندہ باد۔ |