یہ تو دنیا کا کلیہ ہے کہ جیسے مسائل پیداہوتے ہیں ویسے
حل بھی ہوجاتے ہیں مگر بشرطیکہ، مسائل کے حل کرنے والے اربابِ
اقتدارواختیارمسائل حل کرناچاہیں تو کوئی مشکل نہیں ہے کہ گھمبیرسے گھمبیر
تر مسائل حل نہ ہوں ہمارے سرکاری اِسکولوں کی حالتِ زاراورفرسودہ نظامِ
تعلیم کا مسئلہ بھی ٹھیک ہوسکتاہے بس اِس کے لئے یہ قانون بنایا جائے کہ
انتخابات میں حصہ لینے کا وہی اہل ہوگا اَب جس کے بچے یعنی حقیقی اولاد،
پوتے ، پوتیاں، نواسے ، نواسیاں ، بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے، بھانجیاں ہی
ہوں، نہ کہ... اِس کے نوکروں ، محلے داروں اور دور دراز کے رشتے داروں کے
بچے ہوں سرکاری اِسکولوں میں لازمی زیرتعلیم ہیں اور ہوں گے اور وہ اِس کا
حلفیہ اقراربھی کرے گا کہ یہ سرکاری اِسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں
یاکریں گے تو پھر دیکھیں ہمارے سرکاری اسکولوں کی حالتِ زارمیں کیسے بہتر ی
نہیں آتی ہے اور سرکاری اِسکولوں کا بھی نظامِ تعلیم ٹھیک نہیں ہوتا ہے اور
جس اْمیدوار کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہ پڑھ رہے ہوں تو اِسے پابند کیا
جائے کہ وہ اپنے اور اپنے قریبی رشتے داروں کے بچوں کو ابتدائی تعلیم کے
لئے سرکاری اسکولوں ، کالجوں اور ہا ئیر ایجوکیشن کے لئے سرکاری
یونیورسٹیوں میں لازمی پڑھا ئے گااور اگرانکارکرے تو اْسے نااہل قرار دے
دیاجائے بس اَب موجودہ صورتِ حال سے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور نیورسٹیوں
کواِن کی ابتری سے نکالنے کے لئے یہی ایک چاہ رہ گیاہے کہ اس قسم کے کسی
فوری قانونی اطلاق سے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت اور عملہ سمیت نظامِ
تعلیم بھی ٹھیک ہوسکتاہے ور نہ تو ناممکن ہے،۔بہر کیف ، جیسا کہ کہاجاتاہے
کہ دورِجدید میں کسی بھی دْشمن مْلک کو زیر کرنے کے لئے جنگ و جدل کا بازار
گرم کرنے سے پہلے اْس پربغیر ہتھیاروں کے چارسمتوں سے یلغار کی جائے تو
بغیر افواج کے بھی کامیابی یقینی ہے بس جس کے لئے اول یہ کہ اْسے اخلاقی
اور تہذیبی لحاظ سے مفلوج کیا جائے اِس مقصد کے لئے لازمی ہے کہ اِس کے ہر
گھرمیں فحاشی اور عریانیت کو اتنا پھیلا دیا جائے کہ خواہ کسی بھی عمر کا
کو ئی بھی فرد ہواِس سے بچ نہ سکے اور مذیبی اور فرقہ واریت کی آگ کو
بھڑکادیاجائے جیسا کہ آج ہم اپنے مْلک میں کھلی آنکھوں سب کچھ ہوتا دیکھ
رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ اِس کے نظامِ تعلیم کوبہتر کرنے کا جھانسہ دے کر
ایسی پالیساں مرتب کرائیں جا ئیں کہ برسوں بعد بھی نتیجہ صفر نکلے اِس کے
لئے سب سے پہلی ترجیح یہ ہوکہ اِس کے تعلیمی سسٹم کواتنے معیاروں میں تقسیم
کرکے اِسے اتنا مہنگا اور سخت کردیاجا ئے کہ اِس تک عام غریب آدمی نہ پہنچ
سکے اور تیسرا یہ اِسے معاشی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کے لئے قرضوں
کے بوجھ تلے اتنا دھنسادیاجائے کہ اِس کی ساری فکرقرضوں کی ادائیگی اور
وصولی تک ہی محدود ہوکر رہ جائے اور چوتھا یہ کہ اْس مْلک کے اشرافیہ کویہ
باور کرادیاجائے کہ جب تک یہ اپنے انداززندگی کو ترقی یافتہ اقوام کے معیار
پر نہیں لائیں گے توتب تک یہ کچھ نہیں کرسکیں گے اِس لئے لازم ہے کہ کم
ازکم یہ خود کو اْس معیار تک لے کر جائیں جہاں پہنچ کر نہ صرف دنیا کے
نزدیک اِن کا وقار بلند ہوگابلکہ اِن کے مْلک اور قوم کا شمار بھی اچھی
اقوام میں ہوگا۔آج بدقسمتی سے میرے ارضِ وطن پاکستان میں ہمارے ر اپنے
نمادوستوں اور دْشمنوں نے کچھ ایسی ہی یلغار شروع کررکھی ہے اور یہ دْشمن
کا آلہ ء کار بن کر اْس کی بغیر ہتھیاروں کی چارسمتوں سے پوری پاکستا نی
قوم پر یلغار کئے ہوئے ہیں آج پاکستا نی قوم کی جتنی بھی زوال پذیری ہے اِس
کے ذمہ دارہماری یہی اشرافیہ ہے آج بیرونی اشاروں پر چل کر مْلک میں فحاشی
اور عریانیت کو لبرل ازم ، آزاد خیالی کا نام دے کر پروان چڑھا رہی ہے
اورایک طرف سرکاری تعلیمی نظام کو بگاڑ کر دیا ہے تو دوسری طرف نجی تعلیمی
نظام کو بہتر بنا نے کی آڑ میں اِسے تقسیم در در تقسیم کرکے مہنگا ترین بنا
رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کا حصول صرف امراء کے بچوں تک ہی محدود رہے جبکہ
ارضِ وطن میں بسنے والے 95فیصد غریب محنت کش اور غیور پاکستا نی کے بچے
تعلیم کے حصول سے محروم رہ جائیں اور یہی وہ اشرافیہ ہے جو مْلکی معیشت اور
ترقی و خوشحالی کے نام پر اپنے بیرونِ آقاوں سے بے لگام شرح سود پر قرضے تو
اپنی جھولیاں پھیلا پھیلا کرخوب لے رہی ہے مگرقرضوں کی بروقت ادائیگی نہ کر
کے پورے مْلک کو گروہی رکھا رہی ہے اَب اِسے میں ہمیں یہ ضرور تسلیم کرنا
پڑے گا کہ ہمیں تباہی اور پستی کے دہانے تک لے جا نے والے ہمارے یہی لوگ
ہیں جوہم پر اشرافیہ کی شکل میں قابض ہیں اور اِن کا ہمارے لئے یہی کردارہے
جو یہ ہمارے دوست بن کر ادا کررہے ہیں۔ |