انتخابی نتائیج کے بارے میں دھاندلی کا پہلے دن اٹھنے
والا شور اگلے روز اب آہستہ آہستہ کم ہو نے لگا ہے ، توقع ہے کہ جمہوری
نظام کے تسلسل اور بقاء کے نام پر ملک میں تحریک انصاف کے طرز سیاست کو
اپنانے کی بجائے مسلم لیگ ن اورا سکی ہم خیال جماعتیں کچھ دن مزید پھڑ
پھڑانے کے بعد جس کو جو ملا ہے اسے اپنا نصیب سمجھتے ہوئے حالات کے ساتھ
سمجھوتہ کر لیں گی ، اسی میں سب کا فائدہ ہے ، پولنگ ختم ہوتے ہی مبارکباد
اور فتح کی ٹویٹ کرنے والوں نے جس جس کو جتنا حصہ دیا اس پر شکر کریں شہبا
زشریف اگر پنجاب حکومت کے لئے ’’اصل حکمرانوں‘‘سے آشیر باد حاصل کرنے میں
کامیاب ہو گئے تو وہ اور انکے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف پرانی تنخواہ پر
کام شروع کردیں گے ، نہیں تو پچھلے پانچ سال حکومت میں ہو کر بھی اپوزیشن
والی عادت اب انکے کام آئے گی ، ادھرتحریک انصاف کا جو چلن ماضی میں رہاہے
اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ پریشر گروپ کی طرح کام کرنے والی ایسی
جماعت ہے جس نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو دبانے اور رگڑا لگانے کا کوئی موقع
ہاتھ سے نہیں جانے دیا ، اور اسکے پاس آج بھی حکومت چلانے کے لئے ایسی ٹیم
موجود نہیں جو امور حکومت پر عبور نہ سہی مگر کم ازکم اسکی تھوڑی بہت ہی
اہلیت رکھتی ہو ، پنجاب میں عبدالعلیم خان اور فواد چوہدری کے نام وزیر
اعلیٰ کے لئے سامنے آنا کسی لطیفے سے کم نہیں، انکے علاوہ بطور اتحادی
جماعت کے ق لیگ کے پرویز الہٰی کا نام بھی وزیر اعلیٰ کے لئے گردش کر ر ہا
ہے ، شہباز شریف کی جگہ اگر یہی تبدیلی لانا مقصود تھی جسے لانے کے لئے
اتنی بڑی مشق کی گئی ہے تو پھراس تبدیلی کا جنازہ ابھی سے تیار سمجھیں مرکز
میں اکثریت حاصل کرنے والے عمران خان کا ’’ڈنک ‘‘ حکومت چلانے کے تصور ہی
سے نکل گیا ہے ، وہ اب تک دنیا کاسب سے آسان کام کرتے چلے آئے ہیں ،
برائیاں ، خامیاں اور محض تنقید انکا چلن رہا ہے ، انہوں نے پاکستان کے
بحرانوں کا ذمہ دار کبھی 33سال قابض رہنے والے آمر حکمرانوں کو قرار نہیں
دیا ، یہی بات انکے اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہونے کے لئے کافی ہے ، پاکستان کو
مسائل سے نجات دلاناکوئی خالہ جی کا گھر نہیں ، بے صبری ، جذباتی اور
لاابالی طبیعت کے مالک عمران خان جو بات بے بات الجھنے لگتے ہیں اور ٹکٹیں
تقسیم کرنے کے عمل کو عذاب کہتے رہے ہیں ، وزیراعظم بن کرکیاگل کھلاتے ہیں
اسکے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑے گا ، فی الحال تو قوم کو مبارک ہو
کہ انکی دن رات کی ایک ہی جیسی تقریروں سے جان چھوٹ گئی ہے ، اسکے بدلے
انہیں حکومت میں برداشت کرنا مہنگا سودا نہیں ہے، عمران خان کی سابقہ اہلیہ
جمائمہ خان نے انکی کامیابی کو طویل جدوجہد کا ثمر قرار دیا ہے اور انکے
لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے ، سمجھ نہیں آتی کہ وہ عمران خان کی آج بھی
پرستار ہیں اور عمران خان نے بھی انکے خلاف کبھی ایک لفظ نہیں کہا تو آخر
انکی علیحدگی کی وجہ کیا تھی ، جن سیاسی جماعتوں اور انکے امیدواروں کے
خواب چکنا چور ہوئے ہیں انہیں بھی صبر کرنا پڑے گا کہ اسکے سو اکوئی چارہ
بھی نہیں ، کروڑوں روپے انتخابی مہم میں جھونک کر جو بازی ان امیدواروں نے
کھیلی تھی وہ فیصلہ بھی انہی کا تھا ، ان سرمایہ دار امیدواروں کے شوق
سیاست نے چار دن غریبوں کو بھی بریانی اور مٹن قورمے سے لطف اندوز ہونے کا
موقع دے دیا
ہارنے والوں سے یہی کہیں گے
کہ ’’ سمجھوتہ غموں سے کر لو الیکشن آتے ہی رہتے ہیں |