الحمداﷲ ، گیارہویں عام انتخابات اختتام پذیر ہوگئے۔عمران
خان کو طویل جددجہد کے بعد کامیابی مبارک۔ عوام طویل عرصہ سے تبدیلی کی
منتظر تھی۔ ڈاکٹرعافیہ کی واپسی اور کرپشن کا خاتمہ عمران خان کیلئے برابر
کے چیلنج ہیں۔ قوم کی خواہش اور دعا ہے کہ عمران دونوں چیلنجوں سے سرخرو
ہوکر نکلے۔ پاکستان کے عوام دو جماعتوں کی باریوں، ملی بھگت اور کرپشن سے
بیزار ہوچکے تھے۔ عمران خان کی صورت میں عوام کو تبدیلی کا راستہ نظر
آرہاتھا مگر شکوک شبہات بہت زیادہ تھے۔ بہرحال انتخابات ہوگئے اور پی ٹی
آئی نے قومی اسمبلی میں سادہ کے قریب قریب اکثریت بھی حاصل کرلی ہے۔ معلق
اسمبلی کا خدشہ درست ثابت نہیں ہوامگر گذشتہ دس سالوں کی کرپشن کے باعث
پاکستان تحریک انصاف کیلئے حکومت چلانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ یہ کرپشن
صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے۔ ہر سرکاری ادارہ کرپشن کا شکار ہوچکا ہے۔
عام آدمی اعلیٰ سرکاری افسران کی کرپشن سے اتنا زیادہ متاثر نہیں ہوتا ہے
جتنا چھوٹے افسران اور کلرک درجے کے ملازمین کی کرپشن سے متاثر ہوتا ہے۔
احتساب کا عمل جاری ہے مگر چھوٹے سرکاری افسران اور ملازمین کا احتساب نہ
ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کا نوٹس نہیں لیا ہے۔ اس کرپشن کی طرف توجہ
دینے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ بلدیہ عظمیٰ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، پانی اور
نکاسی آب ، انسداد ملاوٹ، محکمہ ٹرانسپورٹ، صحت ، تعلیم غرض کے ہر بلدیاتی
، صوبائی اور وفاقی محکموں کے چھوٹے افسران اور ملازمین نے عام شہریوں کو
اے ٹی ایم مشین سمجھ لیا ہے اور اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کیلئے اعلیٰ
افسران نے ماتحت عملہ کی کرپشن پر مکمل طور پر چشم پوشی کی ہوئی ہے۔ اس وقت
ملک میں صرف پاسپورٹ اور نادرا کے ادارے ایسے نظر آتے ہیں جہاں بغیر رشوت
کے کام ہوجاتا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے
کیلئے اس کرپشن کے خاتمہ کی طرف خصوصی توجہ دینا ہوگی۔
2008 ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی ’’روٹی ، کپڑا اور مکان‘‘ اور 2013
ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن ’’لوڈشیڈنگ کے خاتمے، کشکول توڑنے،
غیرملکی بنکوں میں جمع لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر
عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے ‘‘ کے وعدوں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔اس
کو کیا کہئے کہ دونوں پارٹیوں نے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ نہ عوام کو
عزت سے روٹی ملی، نہ تن ڈھانپنے کیلئے کپڑا ملا(ملک کے بے شمار دیہات ایسے
ہیں جہاں قوم کے بچوں کو تن ڈھانپنے کیلئے مکمل لباس آج بھی میسر نہیں ہے)،
نہ سر چھپانے کو مکان ملا، لاکھوں کی تعداد میں لوگ کرائے کے مکان میں رہ
رہے ہیں، نہ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی ، نہ لوٹی ہوئی دولت واپس آئی اور نہ ہی
قوم کی معصوم اور مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی وطن واپس آسکی۔عافیہ کی
واپسی میں ایک بہت بری رکاوٹ کرپشن بھی رہی ہے۔ عافیہ کے مقدمہ کیلئے 20
لاکھ ڈالر کی رقم اس کے وکیلوں کو نہیں ملی ۔اس کی تحقیقات کیلئے بھی ایک
جے آئی ٹی تشکیل دی جانی چاہئے۔بھائی، بہن ، باپ، بیٹے اور بیٹی پر مشتمل
حکمرانوں نے قوم کے دس سال برباد کردیئے۔2013 ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کے
رہنما اس بات پر فخرکرتے تھے کہ ان کی جماعت نے پانچ سال کی آئینی مدت مکمل
کرلی ہے مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا تھا کہ انہوں نے پورے پانچ سال ملک
قرضوں پر چلایا ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت نے قرض لینے کے اگلے پچھلے
تمام ریکارڈ توڑ دیے، نواز شریف دور حکومت میں 8000 ارب روپے سے زائد کا
ملکی و غیر ملکی قرضہ لئے جانے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے باعث ملک پر قرضوں
کا مجموعی بوجھ 22000 ارب روپے سے بڑھ گیا۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ
کے مطابق ملکی و غیر ملکی قرضوں میں اضافے کا رحجان بدستور جاری ہے، قرضوں
کا مجموعی حجم 22000 ارب روپے سے بڑھ گیا ہے جس میں ملکی قرضے 14 ہزار787
ارب روپے اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 7 ہزار200 ارب روپے سے زائد ہے۔پی پی
اور ن لیگ دونوں حکومتوں کی داخلہ و خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو بھی
دونوں حکومتیں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہیں۔ان ادوار میں بھارت کے
پاکستان دشمن اقدامات پر سرکاری طور پر خاموشی کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔
پاکستان امریکہ کا مکمل طور پر تابع و فرمانبردار نظر آتا تھا۔ عافیہ کو
واپس لانے کی کسی کو فکر نہیں تھی مگر ریمنڈڈیوس اور کرنل جوزف کو چھوڑنے
کے لئے دونوں جماعتوں کے قائدین اور سرکاری حکام بے تاب نظرآتے تھے۔
پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل ہوچکا ہے۔ بلدیاتی ، صوبائی یا وفاق کا
کوئی ایک بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جہاں عام شہری کاکوئی جائز و قانونی کام
بغیررشوت کے ہوجاتا ہو۔ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، واٹر اینڈ سیوریج، کسٹم ،
انکم ٹیکس، عدلیہ ، پولیس کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں نذرانہ پیش
کئے بغیر کام ہوجاتا ہو۔عام آدمی کیلئے سرکاری اسپتالوں میں علاج و ادویات
اور اسکولوں میں تعلیم نہیں۔ اس کے باوجود 2018 ء کے عام انتخابات کی مہم
کے دوران سابقہ حکمران جماعتوں پی پی اور ن لیگ کی اربوں روپوں کی اشتہاری
مہم میں صوبہ سندھ اور پنجاب میں دودھ کی نہریں بہتی نظرآتی تھیں۔
ایک عام پاکستانی شہری کی ملک یا بیرون ملک کہیں بھی اہمیت نہیں۔ ڈاکٹر
عافیہ سمیت ہزاروں پاکستانی غیرملکی جیلوں میں بند ہیں، ایسا آخر کب تک
چلتا؟ وہ یہ سمجھتے رہے کہ سیاسی جماعتوں سے ان کے انتخابی منشور اور مہم
کے دوران کئے گئے وعدوں کا حساب کبھی نہیں مانگا جائے گا؟بلآخر انتخابات کے
مسلسل انعقاد سے عوام میں سیاستدانوں کا احتساب کرنے کا شعوربیدارہو ہی
گیا؟ انتخابی کمپین کے دوران دنیا نے دیکھا کہ عوام سابقہ راکین اسمبلی اور
وزراء سے گذشتہ پانچ سالوں کا حساب مانگ رہے تھے اور امیدوار عوامی احتساب
سے گھبرا کر بھاگ رہے تھے۔ عوامی احتساب کے عمل کو یہاں پر ختم نہیں ہونا
چاہئے۔ عوام کو اس تسلسل کوقائم رکھنا ہوگا تاکہ اگلے عام انتخابات سے پہلے
نئی معرض وجود میں آنے والی صوبائی اور قومی اسمبلیوں سے عوام کے مسائل حل
کرائے جاسکیں۔
عمران خان کے کریڈٹ میں کرکٹ ورلڈکپ اور شوکت خانم میموریل کینسر اسپتال
پہلے سے موجود ہیں جس کی وجہ سے بھی عوام کو ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ
ہیں۔زرداری اور نواز حکومتوں نے ملک پر قرضوں کا جو بوجھ لاد دیا ہے وہ
عمران خان کی حکومت کے لئے بہت بڑا امتحان ثابت ہوگاجس کا واحد حل کرپشن کا
خاتمہ کرنا ہے نہ کہ عوام پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ لادنا ہے کیونکہ ملک پر
قرضوں کی وجہ کرپشن ہی بنی ہے اس لئے کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری و
غیرسرکاری عناصر کا سختی سے احتساب ہونا ناگزیر ہوچکا ہے اور ان کی جیبوں
اور بینک اکاؤنٹ سے لوٹی ہوئی رقم کی پائی پائی وصول کرناضروری ہو چکا ہے
۔جب بھی سیاستدانوں کی کرپشن پر ان کے مواخذہ کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا
کہ سیاستدانوں کے احتساب کا حق عدلیہ کو نہیں عوام کو حاصل ہے۔عوام نے اس
الیکشن میں کافی حد تک سیاستدانوں کا احتساب کیا ہے۔ اب عدلیہ کو ان کے
ساتھ کوئی رعایت نہیں برتنی چاہئے۔ عوام انتہائی کڑے احتساب کے منتظر ہیں
تاکہ سیاست اور سرکاری اداروں میں سے کرپٹ عناصر کا صفایا ممکن ہوسکے اور
عوام کو وہاں سے ریلیف ملنا شروع ہوجائے۔ عمران خان کو اپنی حکومت کی
ابتداء قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کے وطن واپسی کے معاملے سے کرنی چاہئے تاکہ
ملک اور پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے بیٹی کی واپسی کی صورت میں رحمت کا
دروازہ کھل سکے اور عام انتخابات کے انعقاد کے بعد عوام کو یہ بات یاد
رکھنی چاہئے کہ اس مرتبہ عوام کو اطمینان سے نہیں بیٹھنا ہے،اسمبلیوں کاحصہ
بننے والی ہر جماعت کو اس کے پارٹی اور انتخابی منشور پر عمل کرانا ہے۔عوام
نئی اسمبلیوں کی تشکیل کے موقع پر کسی احتجاج کے موڈ میں نہیں ہیں۔
سیاستدانوں کو اس کا ادراک کرنا چاہئے اور عوام اور ملک کے مفاد میں ایک
اچھی اپوزیشن تشکیل دینا چاہئے ۔اپوزیشن کا احتجاج بہت سارے سیاستدانوں کی
رہی سہی ساکھ بھی ختم کردے گا۔ ملک کوگڈ گورنس کیلئے حقیقی اپوزیشن کی بھی
ضرورت ہے۔ |