کہاجاتا ہے کہ آزادی صحافت ایک صحت مند اور مہذب جمہوری
معاشرے کی بقاء کی ضامن ہے اور آزاد صحافت کسی بھی مملکت کے پہلے تین
بنیادی ستون مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ کے ابلاغ اور حفاظت کا فریضہ سر
انجام دیتی ہے مگر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں صحافی کھلے عام
قتل بھی ہوتے ہیں اور سسک سسک کر مر بھی رہے ہوتے ہیں ،فریڈم نیٹ ورک کی
ایک رپورٹ مختلف اخبارات کی زینت بنی جس میں بتا یا گیا تھا کہ جنوری سن
دوہزار سے لے کر جنوری سن دوہزار سولہ تک کئی سو صحافی دہشت گردانہ
کاروائیوں ،ٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنے جن میں سے صرف چند ایک کے قاتل گرفتار
ہوئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر صحافیوں کے قاتل کھلے عام گھومیں گے تو
صحیح اور سچ تک رسائی کیسے ممکن ہوگی ،صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ اور میڈیا
ہاوسز پر حملے پاکستان میں آزادی صحافت کو ختم کرنے کے غیر ملکی ہتھکنڈے
ہیں جو کہ انشااﷲ ناکام و نامراد ہونگے۔
ملک عزیز پاکستان میں وادی قرطاس و قلم کے بے اماں مسافروں پر یہ ظلم و ستم
کوئی نئی بات نہیں بلکہ تحریک آزادی اور بنائے پاکستان میں روح پھونکنے
والے اس شعبہ کے ورکر قیام پاکستان ہی سے جاگیرداروں، وڈیروں اور حکمرانوں
کے عتاب کا شکار رہے ہیں اور ا س پر مستزادیہ کہ اپنے گھروں اور اپنوں سے
دور بہت دور دراز کے علاقوں میں اور بم دھماکوں ،گولیوں کی بوچھاڑ میں اپنے
بچوں کے مستقبل اور اپنی جان سے بیگانہ ہوکر قوم کے سامنے سچ اور حقائق کو
پیش کرنے والے اور اپنے خون سے اس ملک کی آبیاری کرنے والے گمنام صحافیوں
کو دو لفظ خراج تحسین کے بھی نہیں ملتے، اس لئے حکومت وقت کو چاہئے کہ
میڈیا سیفٹی قوانین بنائے اور ان پر فوری عمل در آمد کروایا جائے تاکہ اس
شعبہ سے وابستہ پاکستانی شہری اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے
دن کی روشنی اور رات کے اندھیرے میں بلاخوف وخطر ملک و قوم کی خدمت کرسکیں۔
اس سلسلہ میں صحافیوں اور میڈیا مالکان کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس
رہنا چاہئے اور ہر ادارے میں ایک ’’گیٹ کیپر‘‘ لازمی رکھا جائے جوکہ بری
خبروں ،سنسنی خیزی پھیلانے والی خبروں،لوگوں پر پرسنل اٹیک والی خبروں ،غیر
مصدقہ ،جھوٹی خبروں اور اخلاق باختہ تصاویر کی اشاعت سے روک سکے اس کے ساتھ
ساتھ میڈیا سے وابستہ ورکروں کو معقول تنخواہ دینا بھی میڈیا مالکان کی ذمہ
داری ہے حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ میڈیا ہاوسز کو لیبر قوانین پر یقینی عمل
در آمدکا پابند کرے کیونکہ میڈیا ہاوسز اور مالکان حکومت سے کروڑوں روپے کے
اشتہارات لیتے ہیں مگر ورکرز کو معقول تنخواہ نہیں دی جاتی جس سے ان کی
کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
آخر میں میری گذارش صحافی یونینز سے ہے کہ وہ جن مقاصد کے لئے بنائے گئی
تھیں کیا وہ من وعن پورا ہورہا ہے اور کیا صحا فی برادری کے ساتھ جو
استحصالی رویہ وڈیروں ،جاگیرداروں اور صاحب اقتدار لوگوں کی طرف سے تھا
کیاوہ ختم ہوگیا ہے یا آج پاکستان میں صحافی پہلے سے زیادہ بے اماں اور بے
یقینی کی زندگی گذار رہا ہے ؟اور کیا پوری دنیا میں صحافیوں کے لئے پاکستان
کو سب سے خطرناک دس ممالک میں شامل نہیں کرلیا گیا ۔صحافی یونینز کوچاہئے
کہ اپنا ایک مشترکہ فورم بنائے جس میں سب یونینز اور میڈیا ہاوسز کے
نمائندے ہوں جو کہ اپنا ایک مشترکہ ضابطہ اخلاق بنائے اور اپنے اختلافات کو
اپنی میز پر ہی حل کریں ،اس کے ساتھ ساتھ اس شعبہ سے وابستہ افراد کی حفاظت
کو یقینی بنانے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں وگرنہ صرف چند میڈیا پرسنز
کے علاوہ باقی ساری صحافی برادری کئی دہائیوں سے جن مسائل میں گھری ہے ان
سے نکل نہیں سکتی۔
|