بوڑھے پنشنروں کے مسائل

سرکاری ملازمین ملک وقوم اور اپنے محکموں اور افسران بالا کی خدمت کرتے کرتے اپنی جوانی و عمر گزار دیتے ہیں اس دوران وہ ہر طرح کے نا مساعد حالات کا مقابلہ بھی کرتے رہتے ہیں کڑی دھوپ ہو یا تیز آندھی و طوفان انھوں نے بروقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا ہے اپنے بچوں کی پرواہ کیے بغیر وہ سارا وقت اپنے فرائض کی ادائیگی میں گزار دیتے ہیں جب شام کو دیر سے گھروں کو لوٹتے ہیں تو اس وقت بچے سو چکے ہوتے ہیں اور جب صبح جلدی سے گھر سے ڈیوٹی کے لیے نکلتے ہیں تو اس وقت بھی ان کے بچے سوئے ہوتے ہیں کئی کئی دن بچوں سے بات بھی نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی وہ سارا سارا دن چٹان کی طرح کھڑے ہو ڈیوٹی دینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتتے ہیں صبح سے لیکر شام تک اپنے افسران کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں افسران کی ڈانٹ ڈپٹ بھی برداشت کرتے ہیں اس کے باوجود وہ پھر دوسرے دن ان کی خدمت میں مصروف ہو جاتے ہیں اور کبھی اپنے افسران کو یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیتے ہیں کہ کل ان کو ڈانٹ کا سامنا بھی کرنا پڑ ا تھا بغیر کسی اونچ نیچ کی پرواہ کیے وہ اپنے فرائض کی انجام دہی جاری رکھتے ہیں ہر گزرنے والے دن کو یہ سوچ کر گزار لیتے ہیں کہ آنیوالا دن ان کے لیے کوئی بہتری لائے گا مگر آنیوالا دن ان کے لیے مزید تنگیاں لیکر آتا ہے لیکن وہ اس کو بھی برداشت کرنے میں ہمت سے کام لیتے ہیں اور خود کو چھوٹے بچوں کی طرح تسلیاں دیکر پھر بہتر مستقبل کی طرف نظریں جما لیتے ہیں کہ شاید کوئی ایسا وقت آئے گا جب ہماری مشقتیں رنگ لائیں گی اور ہم بہترین زندگی گزار سکیں گے کم تنخواہوں میں بھی وہ اپنے گھروں کا نظام خوش اسلوبی دے چلا لیتے ہیں اپنے اور اپنے بچوں کی خواہشوں کو دل میں لیے وہ حسرت بھری زندگی گزارتے چلے جاتے ہیں۔اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب وہ دن آئیں گے جب ان کی زندگی میں آرام و سکون کے دن آئیں گے اسی دوران وہ ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں یہ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ اب باقی زندگی آرام سے گزرے گی لیکن یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوتا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد جب پنشن لینے کا وقت آتا ہے تو ڈاکخانوں او ربنکوں میں جو برتاؤ ان کے ساتھ ہوتا ہے اس کو صرف وہی افراد سمجھ سکتے ہیں جو پنشن وصول کرنے کے کٹھن عمل سے گزر رہے ہیں ساٹھ سالہ ریٹائر منٹ پر انسان بوڑھا اور مریض بن جاتا ہے جو کہ نہایت ہی تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے زیادہ تر بنکوں اور ڈاکخانوں میں ضعیف العمر پنشنروں کے لیے بیٹھنے کے کوئی خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں ہوتے ہیں جس کے باعث مریض پنشنرز کو لائن میں زیادہ دیر کھڑا رہنے کی وجہ سے چکرا کر گرتے دیکھا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پنشن ادھر ہی رہ جاتی ہے اور باباجی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں خاص طور پر ایسے پنشنرز جو بستر مرگ یا طویل علالت کی وجہ سے اتنے کمزور ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا بھی جواب دے چکا ہوتا ہے ان کے لیے پنشن لینا توکسی عذاب سے کم نہیں ہوتا ہے بنکوں کی شرائط میں دن بدن سخت ہوتی جارہی ہیں اکثر جگہوں پر دیکھا گیا ہے کہبنک عملہ کسی دوسرے شخص کو پنشن دینے سے صاف انکار کر دیتا ہے اور یہ ہدایت کرتے ہیں پنشن صرف متعلقہ پنشنر کو ہی دی جائے گی اب ضعیف العمر پنشنر خود تو کسی بھی صورت چلنے پھرنے اور بنک جانے کی سکت تو رکھتا ہی نہیں ہے تو اب اس کے ساتھ ساتھ اس کے گھر والے بھی پریشانی کا شکا ر ہو جاتے ہیں ایک تو مریض پنشنر کی چارپائی کو گاڑی میں رکھنے کے لیے چار سے چھ بندوں کی ضرورت پڑتی ہے اور اس مرحلے کے دوران مریض پنشنر کا جو حال ہو جاتا ہے وہ گاڑی کا کرایہ بھی برداشت کرنا پڑ جاتا ہے جو کہ دونوں صورتوں میں نقصان دہ ثابت ہوتا ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ بوڑھے پنشنروں کے لیے سہولیات پیدا کرنے ان کے لیے الگ سے کوئی ادارے یا سنٹر بنائے جائیں جہاں پر ان کو قطاروں میں نہ کھڑا ہونا پڑے یا اس نظام کو ایزی پیسہ کی حد تک نافذ کر دیا جائے اس کے علاوہ اگر ان کو کوئی کارڈ ز ایسے جاری کر دیئے جائیں جن کی مدد سے وہ جس جہگہ سے چاہیں اپنی پنشن وصو ل کر لیں تو مزید آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں ساری زندگی تکلیفیں برداشت کرنے والوں کو کم از کم آخری عمر میں تو کچھ آرام ملے۔
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 169388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.