مگردشمنوں کی شاطرانہ چال میں آکر بعض کم فہم مسلمان
بھی ان کے شانہ سے شانہ ملا کر اسلام پر کاری ضرب لگا رہے ہیں اور خود
رسوائے زمانہ ہوئے جارہے ہیں۔ہوناتو یہ چاہئے تھاکہ مسلمان اپنے کردار کی
بناء پر فخر سے سر اونچاکر کے چلتا۔لیکن آج امت مسلمہ کف افسوس مل رہی
ہے۔آج نام نہاد مسلمان جہاد کےنام پر دنیا کے گوشہ و کنار میں بے گناہ
انسانوں کا قتل عام کررہے ہیں۔اسی باعث غیر مسلمین نے یہ کہنا شروع کردیاہے
کہ اسلام نےجہاد کوقانونی حیثیت دے کر مسلمانوں کو جارحیت کی کھلی آزادی دے
رکھی ہے۔لہذا،و ہ طاقت کے بل بوتے پر ہر ایک کواسلام قبول کرنے پرمجبور
کررہے ہیں ۔جبکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے اور اس کا حقانیت سے کوئی
سروکا ر نہیںہے۔اگر ہم اپنے مذہب کے قوانین اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر ایک طائرانہ ہینگاہ ڈالیں تو یہ بات
روزروشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ کہیں بھی جارحیت کی طرفداری نہیں پائی
جاتی۔اللہ تبارک و تعالیٰ کا کھلا اعلان ہے "من قتل نفسا بغیر نفس او فساد
فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔"
جوشخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ
قتل کرڈالے گا اس نے سارے انسانوں کو قتل کردیا ۔(سورہ مائدہ 32)
آپ پوری تاریخ اسلام کابغور مطالعہ کرلیں مگر انبیا ء ،ائمہ اور علماءعلیہم
السلام کے کردار سے قتل و غارت گری کی بوتک نہیں آتیملے گی ۔سرکار
دوعالمحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومین علیہم
السلام کی حیات طیبہ کا حرف بحرف اور باربار مطالعہ فرمالیں۔انہوں نے"بہ
ہیچ وجہ " کسی بھی کافر ومشرک پر حملہ کرنےکا حکم نافذ نہیں کیا ۔مگر آغاز
مد مقابل سے ہو ۔
تاریخ اسلام نے اس بات کوبڑے ہی جلی حروف میں لکھا ہے کہ ایک مرد شامی امام
حسنعلیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کچھ تلک آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا
رہا اورجب اس کے ناشائستہ الفاظ ،جملات اور ترکیبات کی لغت میں کچھ بھی
کہنے کو باقی نہ رہاتب وہ خاموش ہوگیا۔
امام حسن علیہ السلام نے مسکرا کر فرمایا:ایسامحسوس ہورہا ہے کہ اجنبی ہو!
اگرکپڑا،مکاناور خوردو نوش یاکسی کی ضرورت ہوتو میں حاضرہو ں۔
جب اس نے امامعلیہ السلام کایہ اخلاق دیکھاتو ہکا بکارہ گیا ،آنکھیں پھٹی
کی پھٹی رہ گئیں اور منھ کھلاہی کھلا رہ گیا۔جب اس کے حواس یکجا ہوئے تو
زبان کھولی اور اما م کی تعریف کےسواکچھ ادا نہ ہوا۔
ہادیان برحق کی زندگی میں جتنی بھی جنگیں آئیں ۔اگر آپ ان سب پر صرف ایک
سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ انہوں نے ہمیشہ اپنا
اوراپنے مقدسات کا دفاع ہی کیا ہے !
اگر دشمن جنگ کرنے پر مصر ہے تو ہمارا فر یضہ ہے کہ ہم اپنے جان و مال اور
عزت وآبر و کےدفاع میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں ۔
مذکورہ نظریہ کی تائید دنیا کا ہر صاحب و فکر ونظر کرتارہے گا۔چاہے وہ جس
قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو۔کیوں کہ حق کادفاع بہر حال ضروری ہے ۔اسی
باعث دنیا کا ہرملک اپنی خاص دفاعی فوج اور کچھ اہم افراد رکھتا ہے جس کے
ذریعہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرتاہے۔وگرنہ ہر کس و ناکس فرعون زمانہ ہوتا۔جس
کا نتیجہ یہ ہوتا کہ زمین لاشوں سے پٹ جاتی اور جنازے زیادہ اور زندہ آدمی
کم ہوتے !
دین اسلام کسی بھی مخلوق کو اذیتپہونچانے سے منع کرتا ہے چہ برسد کہ خون
بہانے کی اجازت دیدے۔۔۔!لیکن اگر ظلم کاچلن ہوہی جائے تو "ردو الحجر من حیث
جاء " |