تحریر: فخرالدین پشاوری، پشاور
4 اگست کو ’’یومِ شہدائے پولیس‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس دن تمام
شہدائے پولیس کوخراج عقیدت پیش کی جاتی ہے ۔ رسمی میں تقاریب منعقد کئے
جاتے ہیں ، شہدا کے لیے فاتحہ خوانی کی جاتی ہے، شہداء کی قربانیوں کا
تذکرہ کر کے ان کے خاندان والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ہونے کو تو یہ
کام ہے بہت بڑا اگر سنجیدگی سے لیا جائے تو عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے
کہ بس تقریب ہے ہم جائے یا نہ جائے ہو ہی جائے گی لیکن ایسا ہر گز نہیں۔ اس
کی حقیقت کو دیکھنا چاہئے کی تقریب کس سلسلے میں ہے۔
شہادت ایک ایسا عظیم مقام ہے کہ انسان سوچ بھی نہیں سکتا اور پھر پولیس جو
ہماری خدمت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں نہ گرمی کی فکر نہ سردی سے بچاؤ کا کوئی
خاص انتظام، لیکن پھر بھی کھڑے ہو کر ہماری حفاظت کرتے ہیں۔ فرض کریں ، اگر
آپ سے آپ کے بچے گھر میں چھوڑ کر عید کے دنوں میں آپ کو کسی تفریحی مقام پر
کھڑا کیا جائے ، تو آپ دوسروں کے بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ گھومتے
پھرتے،کھیلتے کھودتے دیکھ کر آپ کے دل پر کیا گزرے گی ، آپ کے لئے کتنا
مشکل ہوگا ، کیا آپ کو اپنے بچوں کی یاد نہیں رولائی گی؟ کیا آپ ایسا کر
سکتے ہیں؟ نہیں ، ہرگز نہیں! آب تو بس صرف تنقید کرنا جانتے ہیں۔سردی کے
موسم میں ہاتھ میں 30 ہزار کا موبائل لیے ہوئے گرم بستر میں لپیٹ کر ، بیوی
بچے بھی سامنے، بس صرف پولیس والوں کے خلاف پوسٹ شیئر کرتے رہو۔ ذرا نکل کر
اس سردی میں پہرا تو دو کیا خیال ہے دے پاؤ گے؟ مشکل تو کیا ناممکن بھی ہے۔
جب آپ قربانی نہیں دے سکتے تو پھر جو لوگ آپ کے لئے قربانی دیتے ہیں ان کی
فکر کرو، عزت کرو، ان کو اپنے دل میں جگہ دو، آپ سے کچھ بھی جائے بغیر ان
کو بہت کچھ ملے گا، ان کی حوصلہ افزائی ہوگی، ان کی حوصلوں کو تقویت ملے گی،
وہ اپنے آپ پر فخر محسوس کرنے لگیں گے جو ویسے بھی محسوس کرتے ہیں اور ان
کا کام ہے بھی فخر کرنے کی لائق۔
بعض لوگ پولیس کو کمزور سمجھتے ہیں ، ان کی شہادت کو شہادت نہیں سمجھتے،
میرے نزدیک تو یہ لوگ شہادت کے مفہوم سے صحیح طرح سے واقف نہیں ہوں گے۔
پولیس والے تو ایسے جنگوں میں شہید ہو رہے ہیں جو جنگ ان کی اپنی ہے بھی
نہیں۔ اصل جنگ ہماری ہے مگر انھوں نے اپنے سر لیا ہیں، قربانیاں دیتے ہیں
تو قوم کی خاطر ، عوام کی خاطر ، ہمارے اور آپ کے خاطر، چوری ڈکیتی ہم سے
ہوتی ہے چور کا پیچھا وہ کرتے ہیں، جانی نقصان ان کا ہوتا ہے، قربانی وہ
دیتے ہیں، صرف ہماری خاطر۔ ان کو کوئی پروا نہیں نہ گرمی کی نہ سردی کی ،
ان کے اپنے بچے یتیم ہوتے رہے اور وہ ہمارے بچوں کو یتیم ہونے سے بچاتے
رہے۔ افسوس ہوتا ہے ان لوگوں پر جو اتنی بڑی قربانیوں سے انکار کرتے ہیں
اور یہ سوچ کر بھی کہ یہ ہمارے ہی محافظ ہے ، ان کو تنقید کا نشانہ بناتے
ہیں۔ ہمیں تو ان پر فخر ہونا چاہئے ، ان کو سلیوٹ کرنا چاہیے ، ان کی شہادت
سے ہمارے دلوں میں شہادت کا جذبہ بیدار ہونا چاہیے ، ہمارا تو نصب العین یہ
ہونا چاہیے کہ جب کبھی دین اسلام یاوطن عزیز پر جان قربان کرنے کا وقت
آجائے اور ہم سینہ تان کر صف اول میں اپنے آپ کو پیش کرے۔
آج جو یہ عظیم دن منائی جارہی ہے اس میں اگر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے تو
اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ ہم اپنے ان شہید بھائیوں کے لیے فاتحہ خوانی
کرے ، ان کے لیے دعائیں مانگیں ، ان کے یتیم بچوں سے مل کر ان کے حوصلے
بڑھائیں ، ان سے ہر قسم کا تعاون کرے ، تمام شہداؤں کیلئے خصوصی دعائیں
مانگیں۔
آخر میں حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جس طرح ہمارے نصابی کتابوں
میں فوج کے شہداء کے نام اسباق و مضامین آتے ہیں، اسی طرح پولیس شہداء،
بہادر سپوتوں کے نام مضامین بھی نصاب میں شامل کئے جائے تاکہ لوگوں کے دلوں
میں پولیس کی عزت و احترام مزید بڑھ جائے اور ملک و قوم کی خدمت کا حقیقی
جذبہ دل میں پیدا ہو۔
|