ہمارا نظام تعلیم دنیا سے اتنا پیچھے کیوں؟۔

تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جسے ہر انسان لیکر ظلم کے خلاف،جہالت کے خلاف،ناانصافی کے خلاف اور ہر برے نظام کے خلاف لڑ سکتا ہے۔جن قوموں نے تعلیم کو اپنا ہتھیار بنایا تاریخ شاہد ہیکہ ان قوموں نے ہمیشہ ترقی کی۔وہ لوگ دنیا کے مہذب لوگ کہلائے۔ان لوگوں نے دنیا میں تعلیم کے ذریعے اپنی پہچان کروائی۔

تاریخ سے بخوبی علم ہوتا ہیکہ "اسلام" روز اول سے لیکر آج تک علم کی شمع کو جلا رہا ہے اور قیامت تک علم کی اس شمع کو لیکر بڑھتا رہے گا۔جتنے انبیاء کا اس جہاں میں ظہور ہوا انہوں نے توحید کی تعلیم دی،امن کا درس دیا،ظالم بننے سے رکنے کی تعلیم دی،دنیا میں رہن سہن کے طریقے بتلائے،اللہ کے احکامات پہنچائے اور توحید و تقوی کی تعلیم دی۔اللہ کے آخری نبی پر پہلی وحی جو نازل ہوئی وہ کچھ یوں تہی"پڑھ اللہ کے نام سے جس نے تجھے پیدا کیا"۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایمان کی تعلیم دی۔لوگوں کو اچھے اخلاق کی پہچان کروائی۔زمانہ جاہلیت کی لڑائیوں کو ختم کرنے کیلئے امن کا درس دیا۔عرب کی بگڑی ہوئی قوم کو ایک پر امن معاشرہ فراہم کیا۔انہیں اخلاق و ایمان کی تعلیم سے روشناس کروایا۔

قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم کے نوجوانوں سے فرمایا کہ"آپ تعلیم پر پورا دھیان دیں۔اپنے آپکو عمل کیلئے تیار کریں یہ آپکا پہلا فریضہ ہے۔ہماری قوم کیلئے تعلیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے"۔یہ تہی ہمارے بانی پاکستان کی سوچ اور فکر ہماری تعلیم کے بارے میں۔مگر!آج ہمارا ملک قوم کے معماروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے سے نالاں نظر آتا ہے۔

پاکستان کو بنے ستر سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔اس دوران تعلیم کیلئے کئی پالیسیاں بنیں اور مرتب کی گئی مگر ہمارا تعلیم کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ہم سے بعد میں آنے والے کئی ممالک تعلیمی لحاظ سے ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔انہوں جامع اور ایک متوازن نظام تعلیم اپنا کر تعلیمی میدان میں ترقیاں حاصل کیں اور ہمیں پیچھے چھوڑا۔

ہیومن ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان شرح خواندگی کے لحاظ سے دنیا میں136thنمبر پر ہے۔پاکستان میں58%لوگ پڑھنا اور لکھنا جانتے ہیں جنہیں ہم خواندہ کہتے ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 67لاکھ بچے سکول جانے کی عمر میں سکول جا ہی نہیں پاتے۔قریب59%بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کے کچھ عرصہ بعد مختلف وجوہات کی بنا پر سکول جانا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں5.3ملین بچے سکول ہی نہیں جا پاتے جو دنیا میں سکول سے محروم بچوں کا9.2%ہیں۔ پاکستان میں قریب49ملین بالغ افراد پڑھنا لکھنا ہی نہیں جانتے جو دنیا میں ناخواندہ افراد کا6.3%ہیں۔یو این کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری سطح کی تعلیم میں دنیا سے پچاس سے زائد سال اور سیکنڈری سطح کی تعلیم میں ساٹھ سے زائد سال دنیا سے پیچھے ہے۔

آج بھی ہمارے نظام تعلیم میں بہت سی پیچیدگیاں اور خرابیاں ہیں جنکی وجہ سے ہم دنیا سے تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔غیر متوازن نظام تعلیم ہماری تعلیمی نظام کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔نصاب کا پورے ملک میں یکساں نہ ہونا بہی غیر متوازن نظام تعلیم کا ایک سبب ہے۔ہماری ریاست ہمیشہ عوام کو ایک جیسا نظام تعلیم دینے میں ناکام رہی ہے۔اکثر پرائیویٹ ادارے تعلیم جیسے مقدس شعبے میں مافیا کا کردار ادا کررہے ہیں۔من مانا نصاب پڑھا رہے ہیں اور من مانے اخراجات عوام پر مسلط کررہے ہیں۔ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے میٹرک اور ایف اے کروا رہے ہیں جبکہ پرائیویٹ ادارے اے لیول اور او لیول کروارہے ہیں۔اکثر سرکاری ادارے اردو میڈیم ہیں جبکہ پرائیویٹ ادارے انگلش میڈیم ہیں۔اس غیر متوازن نظام تعلیم نے غرباء اور مڈل کلاس لوگوں کو بہت سے مسائل میں دبوچ دیا ہے۔

علاقائی عدم مساوات بہی تعلیم کی بہتری میں رکاوٹ ہے۔
کچھ شہروں میں کالجز اور یونیورسٹیز کا نام تک نہیں اگر ہے بھی ان کالجز اور یونیورسٹیز اور بڑے شہروں کی کالجز اور یونیورسٹیز کے معیار میں بہت فرق ہے۔یہ چیزیں بہی ہمارے نظام تعلیم کے غیر متوازن ہونے کا سبب ہیں اور ان وجوہات کی وجہ سے بہی ہم دنیا سے تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔فنی تعلیم کا ہر جگہ نہ ہونا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔دنیا بھر میں ریاست اپنے نوجوانوں کو خودمختار بنانے کے لئے انہیں فنی تعلیم مہیا کرتی ہے۔اسی ضمن میں فنی تربیتی ادارے قائم کئے جاتے ہیں کالجز بنائے جاتے ہیں۔جو ملکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

غیر تربیت یافتہ اساتذہ ،بھی ہمارے تعلیمی نظام کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔دنیا بھر میں تعلیم میں اوّل نمبر اور قابل ترین افراد کو معلم کے طور پر منتخب کیا جاتا ہے۔مگر ہمارے ہاں تو نظام ہی الٹ ہے ۔جسے کوئی نوکری نہ ملے وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں اپنی قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے جیسے بہت سے کم علم اور کم فہم طلباء کو پروان چڑھاتا ہے جو ہمارے نظام تعلیم کی خرابی اور معیار کی پستی کا باعث بنتے ہیں۔غربت ،ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے ۔ملک کی بڑی آبادی غربت میں زندگی بسر کر رہی ہے ۔ایسے میں لوگوں کے لئے تعلیم کا حصول مشکل ہو جاتا ہے اور غریب والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کی بجائے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے بھٹوں اور مکینکوں کے پاس مزدوری کے لئے چھوڑ آتے ہیں۔

ناقص امتحانی طریقہ و تشخیص ،بھی ہمارے تعلیمی اداروں اور امتحانی مراکزکی بڑی خامی ہے۔دنیا بھر میں طلباء کو تعلیم بوجھ کے تصور سے بالاتر ہو کر بغیر کسی خوف اور سیکھانے کے نظریے سے دی جاتی ہے۔لیکن ہمارے ہاں گریڈز اور نمبروں کی دوڑ میں ماں باپ اور اساتذہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بچے تعلیم کے بوجھ تلے دبے انہیں 90فیصد نتائج تو دے رہے ہیں مگر حقیقت میں سیکھنے کے مرحلے میں انہوں نے 50%بھی نہیں سیکھا۔دنیا بھر کے تعلیمی میدان میں روز یعنی معمول کاکام روز کروا کر اسی دن اس کام کو پرکھ لیا جاتا ہے اور اسی حساب سے طلباء کو نمبرز اور گریڈز دیئے جاتے ہیں۔اس طرح طلباء کام کے بوجھ سے بالاتر ہوکر سیکھتے ہیں اور گھر جا کر تعلیمی پریشانی سے آزاد کھیل کود کر اپنی جسمانی نشونما میں بھی بہتری لاتے ہیں۔مگر ہمارے ہاں تو بچوں کو نمبروں کی دوڑ میں ہفتے کا کام دو دنوں میں کروایا جاتا ہے اور اس کی تشخیص کے لئے مہینوں بعد کوئی امتحان لیا جاتا ہے۔جس کے باعث طلباء نمبروں کے لئے نقل یا رٹہ سسٹم کا سہارا لیتے ہیں۔

پاکستان کے آئین کی شق 25Aکے مطابق ’ریاست 5 سے16سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔مگر یہاں تو سارا نظام ہی الٹ ہے ریاست اپنے دوسرے فرائض کی طرح اس مقدس اور اہم فریضے کو بھی پورا کرنے میں ہمیشہ ناکام رہی ہے۔تعلیم کے لئے مختص کئے گئے فنڈز GDPکا 2%ہوتے ہیں جسے کم از کمGDPکا7%ہونا چاہئے۔دنیا بھر میں تعلیم کے لئے دفاع سے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے۔

ایسے اور بھی بہت سے فیکٹرز ہیں جنکی وجہ سے ہم دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔الیکشن ایک ہفتے کی دوری پر ہیں۔ووٹ اس شخص کو دیں جو تعلیم یافتہ ہو اور تعلیم کے فروغ کا علمبردار ہو اور یکساں مفت نظام تعلیم کاحامل ہو۔

Luqman Hazarvi
About the Author: Luqman Hazarvi Read More Articles by Luqman Hazarvi: 24 Articles with 22704 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.