آزادجموں وکشمیر دنیا کا ایک ایسا خطہ ہے جس کا سارا نظام
منصوبہ بندی کے اعتبار سے عجیب وغریب چلتا آرہا ہے جس کااندازہ ترقیاتی اور
غیر ترقیاتی بجٹ کے اعداد وشمار میں زمین آسمان کے فرق سے لگایا جاسکتا ہے
،ترقیاتی بجٹ غیر ترقیاتی بجٹ سے دو گنا نہ سہی مگر برابری کی بنیاد پر
ہوتا تو بھی قابل تعریف جوازیت تلاش کی جاسکتی تھی ،مگر گزشتہ سال تک 64ارب
غیر ترقیاتی اور ترقیاتی صرف 12ارب تک ہی تھا ،تاہم گزشتہ سال جب اسلام
آباد کے منصوبہ سازوں نے وسائل کی تقسیم چاروں صوبو ں کو300فیصد زائد فنڈ
یعنی ایک روپیہ سے 4روپے تک بڑھاتے ہوئے فیصلہ کیا تو آزادکشمیر کو 22ارب
ترقیاتی بجٹ یعنی ایک روپے کو تقریباً دو روپے کر دیا ،جس کی بڑی وجہ یہ
تھی آزادکشمیر کی مشینری (نظام)یہ دوگنا ترقیاتی بجٹ استعمال میں لانے کی
صلاحیت سے محروم ہے ورنہ شاہد چاروں صوبوں کی طرح یہ دس ارب سے 40ارب تک
چلا جاتا ،مگر ایسا کیوں نہ ہوسکا اس کی ایک بڑی وجہ مشینری کی صلاحیت سے
ہٹ کر تعمیراتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے ،اگر روز اول سے منصوبہ بندی ،اور
مستقبل کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعمیروترقی کا عمل آگے بڑھایا جاتا
تو ترقیاتی بجٹ دوگنا کیے بغیر بھی جتنے وسائل پہلے میسر آئے ان میں
13ہزار2سو 97 مربع کلو میٹر پر مشتمل یہ خطہ تعمیروترقی کا شاہکار ہوتا
بلکہ زلزلہ میں اتنے بڑے پیمانے پر تباہی بربادی اور انسانی جانوں کا ہر گز
نقصان نہ ہوتا جتنا ہوا تھا ،کوئی شک نہیں ملت پاکستان کے اوپر بیرونی
امداد (قرضہ جات)کا ایک بڑا بوجھ آیا مگر ان علاقوں میں زلزلے سے پہلے کے
مقابلے میں 100گنا زیادہ تعمیراتی باب رقم ہوئے۔مگر اس میں بھی منصوبہ بندی
کا اجتماعی فقدان برقرار ہی رہا ،فالٹ لائنوں کے باوجود یہ سلسلہ پہلے سے
زیادہ شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے ۔ورنہ اندرون ،بیرون ملک،رہنے والوں
سمیت کم وبیش 40لاکھ آبادی کو کم بجٹ میں زیادہ سہولیات کے ساتھ مستفید کیا
جاتا ،منصوبہ بندی سے پہلے بھی ممکن تھا آج بھی ممکن ہے ،10اضلاع کی بستیوں
خصوصاً شہروں میں آبادی کا بڑھتا ہوا رحجان جس کے باعث مسائل ومشکلات میں
تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی مثال دارالحکومت مظفرآباد کو سامنے رکھ کر
بیان کی جاسکتی ہے آج بھی محلوں کے اندر گلیوں میں ایمبولینس داخل ہوسکتی
ہے نہ فائر بریگیڈ آسکتی ہے مگر مکان بہ مکان ،منزل بہ منزل اضافہ زور
اختیار کر گیا ہے تو زلزلہ سے پہلے انڈین گولہ باری فائرنگ کے مسلسل بارہ
پندرہ سال کے دوران نیلم جہلم کے سیز فائر لائن کی ملحقہ وادی کا یہاں
منتقل ہوکر مستقل مقیم ہوجانے اور زلزلہ کے بعد پھر بڑی تعداد میں آبسنے کے
ساتھ شروع دن سے سبھی اضلاع خصوصاً ڈویژن مظفرآباد سے ملازمت وکاروبار کے
لیے آنے والوں کا گھر بنا کر آباد ہونے کے علاوہ آبادی کے اضافے کے عوامل
سے مستقبل میں خوف ناک چیلجز کا سامنا کرنا پڑھے گا ،جبکہ باغ ،کوٹلی ،راولاکوٹ،میرپور
،بھمبر ،سدھنوتی ،ہٹیاں ،اٹھمقام ،کہوٹہ میں مکانیت مستقبل کا سب سے بڑا
چیلنج ہوگا ایسے میں بلند وبالا پہاڑوں کی چوٹیوں دورافتادہ دشوار گزار
علاقوں میں دوچار یا پچاس ،ساٹھ افراد کیلئے سڑک پانی بجلی صحت تعلیم کے
غیر پائیدار منصوبوں پر جتنے بڑے پیمانے پر فنڈز کا استعمال ہوتا آرہا ہے
ان کا نزدیکی کھلے علاقوں میں نئی بستی ،شہر ،سیٹ لائٹس ٹاؤنز طرز پر تعمیر
کر کے اکٹھے آباد کیا جائے تو بہت کم وسائل میں بہت زیادہ سہولیات کا
اہتمام کرتے ہوئے مستقبل کے تقاضوں کے ساتھ حقیقی معنوں میں فلاحی باب رقم
ہو سکتے ہیں ۔اب خطے کا پورے ملک کے ساتھ سی پیک سے منسلک ہونے اور پنجاب ،کے
پی کے،سے جوڑنے کے ثمرات کے باعث تجارت ،سیاحت کا رخ ،اس طرف موڑنے کے روشن
امکانات یقینی ہو چکے ہیں،جن کا بھرپور انداز میں استفادہ یقینی بنانا
ہوگا۔آبادی کو روزگار کے مواقعے میسر آئیں تو ساتھ ساتھ جنگلات کو آبادی سے
دور کر کے بچانے اور مزید محفوظ شجر کار ی کے ساتھ ماحولیات کے چیلجز پر
بھی توجہ مرکوز ہو سکے مگر اس کیلئے مظفرآباد سے لیکر میرپور تک اور سماہنی
سے لیکر نیلم تک جنگلوں سمیت سرکاری اراضی پر لینڈ مافیا کا قہر ختم کرنے
مکان کی ضرورت سے زیادہ تمام الاٹ منٹ قبضے ختم کرکے نئے شہرؤں کی منصوبہ
بندی اپنے اداروں اور ملک کی قابل اعتماد ہاؤسنگ تعمیراتی کمپنیوں کو لا کر
مقابلے کی فضا کے ساتھ نئے شہر بسانے لازمی ہیں اور اسطرح ترقیاتی بجٹ کا
بہترین استعمال بھی نہ صرف ممکن ہو سکے گا بلکہ اس میں مزید اضافے کے جواز
بھی میسر آئیں گے۔یہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ چیف سیکرٹری ،ایڈیشنل چیف
سیکرٹری ترقیات اور تعمیرعامہ سے منسلک بیوروکریسی کا بھی فرض ہے وہ اپنے
طورپر اس جانب تمام تر توجہ مرکوز کر کے اپنے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل
کردار کو قابل تعریف بنائیں۔
|