کچھ تلخیاں مگر قصور کس کا؟

تحریر : مریم صدیقی، کراچی
نو سالہ کشف روتی ہوئی گھر آئی اور ماں سے لپٹ گئی۔ ماں کے استفسار کرنے پر ہچکیوں کے درمیان بس اتنا ہی بول پائی کی ماں مجھے وین سے اسکول نہیں جانا۔ ماں نے بچی کی معمولی ضد جان کر سمجھا بجھا کر اگلے دن پھر اسکول بھیج دیا۔ چند دن گزرنے کے بعد ایک بار پھر آکر ماں کے پلّو سے لپٹ گئی ۔ ماں مجھے ڈرائیور انکل کے ساتھ وین میں اسکول نہیں جانا۔ اب کی بار مدعا اپنی سمجھ کے مطا بق وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ ماں جو ٹی وی پر پسندیدہ ڈرامہ دیکھنے میں مگن تھی سر ہلا کر بیٹی کو پاس بٹھالیا۔ تھوڑی دیر بعد بچی بہل گئی تو بات آئی گئی ہوگئی۔سلسلہ یونہی جاری رہا۔

ایک دوپہر جب گھڑی تین بجا رہی تھی ، کشف کو گھر آنے میں کافی دیر ہوچکی تھی، صائمہ(کشف کی والدہ) نے ڈرائیور کو فون کیا تو کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ اسکول سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ مقررہ وقت پر وین میں بیٹھ کر جاچکی ہے۔ صائمہ نے گھبراہٹ کے عالم میں اپنے شوہر کو آفس میں فون ملایا اور مطلع کیا کی کشف اب تک گھر نہیں پہنچی۔ شوہر نے اسکول فون کیا اور حسب سابق جواب پاکر بھاگتا دوڑتا گھر پہنچا۔ بیوی کو لے کر اسکول پہنچا تا کہ ڈرائیور کے متعلق ضروری معلومات حاصل کر سکے لیکن معلوم کرنے پر پتا چلا کہ وہ نیا ڈرائیور تھا، ابھی کوائف جمع نہیں کر وایے گئے تھے۔دو دن بعد پولیس کو علاقے کے با ہر کچرے کے ڈھیر پر کشف کی لاش ملی۔ کشف کے چہرے اور بازو پر تشدد کے نشا ن دیکھ کر صائمہ کے کانوں میں ایک آواز گونجی ماما مجھے ڈرائیور انکل کے ساتھ وین میں نہیں جا نا اور پھر گونجتی چلی گئی ۔

زارا نہم جماعت کی طالبا تھی،اسکول کو ایجوکیشن ہونے کے با عث ا س کی ایک ہم جماعت فر حان سے دوستی ہوگئی۔ کثرت سے ساتھ وقت گزارنے کے با عث ایک دوسرے کی عادا ت سے واقفیت ہو گئی۔کم عمری اور ناسمجھی کے دور میں جب یہ آزادی میسر آئی تو اسے محبت کا نام دے دیا گیا ۔زارا ایک دن دیر سے اسکول پہنچی تو فرحان کو ایک ہم جماعت لڑکی سے بات کرتا پا کر آگ بگولا ہو گئی۔ ساراوقت فرحان سے ناراض رہنے کے بعد جب گھر آئی تو یہ احساس مکمل طور پر حاوی ہوچکا تھا کہ فرحان نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ غصہ دماغ پر طاری تھا۔ اپنے کمرے موجود ٹی وی آن کیا تو ایک لڑکی ڈرامے میں اپنے محبوب کے دھوکا دینے پر خود کشی کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

زارا بنا سوچے سمجھے کچن سے چھری اٹھا لائی اور اسی تیزی سے اپنے ہاتھ پر چلا لی۔ گھر میں کسی کہ موجودنہ ہونے کے باعث فوری طو رپر زارا کو طبی امداد فراہم نہ کی جا سکی اور ایک معصوم جان اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔ماں باپ جب رات کے کسی پھر گھر پہنچے تو بیٹی کی خون میں لت پت لاش کو دیکھ کر ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ آخری وقت تک ماں باپ یہ وجہ نہ جان سکے کہ آخر کس چیز کی کمی نے بیٹی کو خود کشی کرنے پر مجبور کر دیا ۔

مس مجھے میڑک کلاس کا خضر پریشان کر تا ہے۔ ارسلہ آج ایک بار پھر خضر کی شکایت لے کر اپنی کلاس ٹیچر کے پاس موجود تھی۔ٹیچر نے سر سری طور پر سنا اور ارسلہ کو مطمئن کرنے کے لئے خضر کو سمجھانے کی حامی بھر لی۔شزا نے ارسلہ کو روتے ہوے دیکھ کر وجہ جاننی چاہی۔ارسلہ نے روتے ہوئے مختصراشزا کو بتا یاکہ خضر اور اس کے دوست مجھے پریشان کرتے ہیں۔ کبھی راستہ روک لیتے ہیں، کبھی ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شزانے اس کے آنسو پونچھے اور فوری طور پر ساری بات گھر والوں کے علم میں لانے کی تاکید کی ۔ارسلہ نے روتے ہوئے بتا یا کہ میرا تعلق ایک گاؤں سے ہے۔ ہمارے یہاں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں ہے۔میں نے بھی پانچ جماعتیں گاؤں کے کہ اسکول سے پڑھی ہیں ۔ابا کی لاکھ مخالفت مول لے کر بے بے نے مجھے یہاں پڑھنے کے لیے بھیجا ہے اگر ابا با کو پتا چل گیا تو وہ یہی سمجھے گا کہ سارا قصور میرا ہے اور مجھے جان سے مار دے گا۔

چند دن تک جب ارسلہ اسکول نہ آ ئی توشزا ٹیچر کے پاس گئی تاکہ ارسلہ کے بارے میں معلوم کرسکے، ٹیچر نے ارسلہ کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے اس کے ابا کو فون کیا تو اس کی بے بے سے بات ہوئی۔ انہوں نے بتا یا کہ اس کے ابا نے اسے اسکول میں کسی لڑکے کے ساتھ دیکھ لیا تھا ۔گھر لا کر پانی میں زہر ڈال کر اسے پلا دیا۔ اسے بول نے کا موقع بھی نہیں دیا ۔میں جان تی ہوں میری بیٹی ایسی نہیں تھی یہ کہہ کر وہ زارو قطار رونے لگیں۔

ایسے کئی واقعات صبح و شام ہماری نظروں سے گزرتے ہیں، ہم دیکھنے ، سننے اور پڑھنے کے باوجود خاموش تما شائی بنے رہتے ہیں۔ کیونکہ اب تک اس آگ نے ہمارے گھر کو اپنے لپیٹ میں نہیں لیا ہے۔ ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ جب یہی آگ ہماریے گھر کی دہلیز پار کر چکی ہوتی ہے۔معاشرے میں وقوع پذیر ان ان واقعات کا ذمہ دار کون ہے؟ آخر کون سے محرکات کار فرما ہیں معاشرے کی ان بڑھتی ہوئی خرابیوں کے پیچھے؟

کیا اس سب کے قصور وار ماں باپ ہیں جو واقف ہی نہیں کہ ان کی اولاد کی زندگی کس ڈگر پر جا رہی ہے ۔ ان کے لیے ان کی اولاد سے زیادہ ان کے دوست ، ان کی پارٹیز اور ان کی ذاتی زندگی اہم ہے۔ بحیثیت والدین جو ذمہ داریا ں ان پر عا ئد ہوتی ہیں وہ مکمل طور پر ان سے نابلد ہیں۔آجکل والدین کی اکثریت اپنے بچوں کی سر گرمیوں، ان کے دوست احباب سے مکمل طور پر نا واقف ہیں ۔ہم نے انہیں موبائل ،انٹرنیٹ تو فراہم کر دیا لیکن وہ شعور نہ دے سکے جو انہیں صحیح اور غلط کی پہچان کر وا سکے ۔ ہم نے انہیں تعلیم تو دی لیکن ان کی تربیت نہ کرسکے۔ ہم اپنی اولاد کی بنیادی ضروریات پوری کردیتے ہیں لیکن ہمارے پاس وقت نہیں انہیں دینے کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ماں باپ اور اولاد کے درمیان بھروسے اور اعتماد کا رشتہ مفقود ہے۔

والدین کے بعد تربیت کی ذمہ داری اساتذہ کے فرائض میں شامل ہے۔ کیا ہمارے اساتذہ اپنا کردار احسن طریقے سے نبھارہے ہیں؟ یا اس کا قصوروار میڈیا ہے جو تیزی سے نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کر رہاہے۔ ہم دورِ جدید سے دورِ جاہلیت میں سفر کرتے نظر آرہے ہیں۔ ہم مغرب کی اندھی تقلید میں اپنی ثقافت اپنے اقدار سے، اپنے محور سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم مقصد قیامِ پاکستان کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے ایک بار بحیثیت قوم یکجا ہونے کی کیونکہ ۔۔۔
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142286 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.