ہوشیار باش

 دانشوروں اور اہل فکر کا کہنا ہے کہ جس کسی کے پاس بے تحاشا دولت موجود ہو تو انہیں زندگی کے تمام تر لوازمات،تعاشیات میسر ہونے کے باوجود وہ سکون کی نیند سے محروم رہتے ہیں انہیں اپنے دروازے پر دربان رکھے بنا وہ خود کومحفوظ بھی نہیں سمجھتے ہیں یعنی دولت آسائش کے ساتھ ساتھ خطرے کا باعث بھی ہے اسی طرح اس معاشرے میں اگر کسی انسان کو بہت بڑی ذمہ داری سونپ دی گئی ہو اختیارات دیئے گئے ہوں تو وہ اتنا ہی جواب دہ ہوتا ہے اگر وہ ایمانداری سے اپنا فرض ادا کر رہا ہے تو پھر اس کے سر پر خطرات بھی زیادہ منڈلارہے ہوتے ہیں باالخصوص ہمارے معاشرے میں جو انسان جتنا زیادہ محب وطن ہوگا،جتنا امن پسند ہوگا،جتنا فرقہ واریت کے خلاف ہوگا،جتنا کرپشن لوٹ مار کے خلاف بولے گا،قلم اور زبان کو بروئے کارلائے گا وہی انسان زیادہ عتاب کا شکار رہتا ہے اور اسکی زندگی زیادہ خطرے میں رہتی ہے یہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے سچ لکھنے اور بولنے والے افراد اس آلودہ معاشرے کے ساتھ چل نہیں پا رہے ہیں بالکل سی طرح دنیا میں وہ ممالک جوقدرتی خزینوں سے مالا مال ہیں وہ ہمہ وقت جنگی صورت حال میں گرے ہوئے ہیں حقیقت مین انہیں آسودہ حال اور ترقی یافتہ ہونا چاہئے مگر وہ تمام تر فطری وسائل میسر ہونے کے باوجود غربت اور مسائلستان کے بھنور میں پھنسے نظر آتے ہیں تو یہ ایک عجیب کیفیت ہے یہی خوف و حراس کا تسلسل عرصہ دراز سے ہمارے خطے یعنی گلگت بلتستان میں بھی چلا آرہا ہے تاریخ شاہد ہے جب بھی کسی قوم کو تباہ کرنے کے متعلق حربے استعمال ہوتے ہیں تو سب سے پہلے اُس قوم کی نفسیات کو جانچ کر ان پر اس طرح کا وار کیا جاتا ہے میں بہت دور کی بات نہیں کرنا چاہوں گا میں اگر 1988کی بات نہ کروں تو یہ گتھی آسانی سے سمجھ نہیں سکیں گے یہاں یہ ضروری ہے کہ اس لیگل ’’شعوری دہشتگردی‘‘کا ذرا تمہیدی جائزہ لیا جائے 1988کے پس پردہ محرکات جو بھی ہوں یہ ایک الگ تفصیل ہے ہم سامنے والے رخ کی بات کریں گے قصہ مختصر تربیت یافتہ دہشتگردوں کا ایک بڑا لشکر دہشت گردی کے تمام تر لوازمات سے لیس ہو کر گلگت بلتستان کو تباہ کرنے کی غرض سے اوراپنے تعیں اس کارخیر کو جہاد کانام دے کر شاہراہ قراقرم کے راستے جگہ جگہ اس دہشتگردی کو پروان چڑھانے کے لیے تبلیغ کرتے ہوئے بلا خوف خطر گلگت کی جانب رواں دواں ہوتا ہے ہر سطح پر ان دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ،عزت افزائی بھی ہوتی ہے اسلحہ اور آمینشن ان کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ بہ بانگ دہل نعرے لگاتے ہوئے وہ گلگت میں داخل ہوتے ہیں اورایک مخصوص مکتب فکر کو نشانہ بناتے ہوئے دوسرے مکتب کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم تو ان کے خلاف جہاد کر رہے ہیں آپ تو ہمارے مسلمان بھائی ہیں ہم تو آپ کے ساتھ ہیں ہم آپ کی مدد کر رہے ہیں بحر حال گلگت میں کچھ علاقوں کودہشت گردی کا نشانہ بنایا گھروں کو نزرآتش کردیا جو سامنے آیا قتل کردیا بعض کو گرفتار کرکے قیدی بنایا اور پھر مسلمان بنا کر چھوڑ دیا میرا مدعا پوری کہانی نہیں میں بلکہ عبرت کے طور پر اس کھیل کوسمجھنے اور خاص طور وہ نوجوان جو اس وقت چھوٹے تھے یا پیدا ہی نہیں ہوئے تھے انہیں ان تلخ حقائق کوواضح کرنے کی اپنی سی کوشش کررہا ہوں تاکہ میں مضمون کی اصل روح تک پہنچ سکوں بحر حال یہاں کے مظلوم لوگ قتل ہوئے ان کے املاک کو نزر آتش کیا گیا اور بہت سے علاقوں میں جو اس مکتب فکر کے مسلمان بستے تھے وہ ان حالات کا شکار ہو کر اپنا گھر بار جائداد چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑ کر گلگت کے مختلف جگہوں پر پناہ لی اور آہستہ آہستہ وہیں بسنے لگے اس تاریخی لشکر کشی کے بعد گلگت میں فریقین کے مابین ایک خلیج پیدا ہوئی نفرت نے جنم لیا حالانکہ اس سے قبل یہاں دونوں مکاتب فکر کے درمیان شادی بیاہ اور خاندانی رشتے تھے جو یکسر ٹھنڈے ہوئے مگر شاباش ہو مرحبا ہو یہاں کے امن پسند انسان دوست خوف خدا رکھنے والے عوام کو اس پیدا کردہ نفرت کو آہستہ آہستہ ختم کرکے پھر سے پرانا ماحول کو بحال کردیا یہ اپنی دھرتی سے محبت کرنے والے لوگ ہیں کسی بھی طور اپنی دھرتی کو اجڑتا نہیں دیکھ سکتے ہیں دشمنوں کا اصل حدف کو دونوں مکاتب فکر کے لوگوں نے ناکام بنادیا اس کے بعد پھر دیگر حربے استعمال کئے گئے جس باعث علاقے کے اندر دہشت گردی کا سلسلہ چل نکلا مگر جلد ہی لوگ سمجھ گئے پھر امن بحال ہوا مگر گلگت بلتستان کے دشمنوں کو یہ امن برداشت نہ ہوا تو گلگت بلتستان کے قائد ہر دلعزیز شخصیت آ غا سید ضیاء الدین رضوی کو شہید کر ڈالا اور ایک بار خود علاقہ آگ اور خون میں ڈوب گیا اس کے بعد پھر امن کے متوالوں نے دھرتی کے رکھوالوں نے اپنا کردار ادا کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑا اور عوام کی بھی کسی حد تک سمجھ آگئی اور پہلے سے بھی بہتر انداز سے بھائی چارہ یہاں دیکھنے کو ملا کچھ عرصے کے بعد پھر ٹارگٹ قتل کا سلسلہ ابھرنے لگا مگر عوامی ایکشن کمیٹی کے وجود میں آنے کے بعد گلگت بلتستان مکمل امن کا گہوارہ بنا دونوں مکاتب فکر نے کھلے شاہراہ پر ایک دوسرے کے پیچھے نماز ادا کر کے اسلام دشمن،علاقہ دشمن قوتوں کویہ پیغام دیا کہ تمہارا ہر حربے کو ہم مل کر ناکام بنا دیں گے اور واقعی ناکام بنا دیا اور ایک مثالی کردار ادا کرکے گلگت بلتستان کو امن کا نمونہ بنا کر دنیا کو دکھا دیا اب مذکورہ بالا حقائق سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردوں کا ایک بڑا لشکر اسلحہ و بارود سمیت بذریعہ شاہراہ قراقرم گلگت میں داخل ہوجاتا ہے کیا اس وقت کوئی ریاست کا وجود نہیں تھا؟ سیکورٹی اداروں کو چھٹی دی گئی تھی؟ راستے کے تمام چیک پوسٹ والے خواب خرگوش کی طرح سوئے پڑے تھے ایوان بالا کو خفیہ اداروں نے خبر نہیں تھی؟کیا اس دوران حکومت کی رٹ ختم ہوچکی تھی؟ فرض کریں وہ گلگت پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے کیا یہاں پر سیکورٹی ادارے موجود نہیں تھے اور فرنٹیر کانسٹیبلری کا کردار کھل کر سامنے آیا یاد رکھیں ہمدردی یہاں کے غریب اور مظلوم انسانوں سے نہیں بلکہ نظر یہاں کے وسائل پر ہے دشمن کسی بھی کاتب فکر کا دوست نہیں فوط اپنے احداف تک پہچنے کے لئے ہمیں استعمال کر رہا ہے جب ہمارا ایک بازو کمزور ہوگا تو دشمن کو دوسرا بازو مروڑنے میں آسانی ہوگی ہمیں اس کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے قدرت نے گلگت بلتستان کو اپنے بیش بہا خزینوں سے نوازا ہے ہر زاویئے سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان اہمیت کا حامل ہے بلکہ جب سے سی پیک کی کہانی چلی ہے علاقے کی اہمیت دن بہ دن پوری دنیا میں اجاگر ہورہی ہے اس لئے بقول چیرمین عوامی ایکشن کمیٹی مولانا سلطان رئیس یہاں کے مکین چاہئے یا زمین واقعی اب تک یہاں کے انسانوں کے کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں ہوا ہے،اب آجائیں ضلع دیامر کے بدترین علم دشمنی پر مبنی دہشتگردی کے حوالے سے بات کرتے ہیں ایک درجن یا اس سے زائد لڑکیوں اور لڑکوں کے اسکولز کو نزر آتش کرنا کچھ کو بم سے اڑانا داریل سے تعلق رکھنے والے ایک بیدار شخصیت کی زبانی جو واقعہ بیان ہوا وہ میں آپ تک پہنچانا چاہتا ہوں اس کا کہنا ہے کہ یہ سارے اسکول الگ الگ گاؤں میں واقع ہیں ان اسکولوں کے درمیان کافی فاصلہ ہے اس نے کہاوقوع کے رات داریل میں ایک آدمی اپنے کھیت میں پانی دے رہا تھا رات کے ایک ڈیڈھ بجے کا وقت تھا اس نے دیکھا کہ دور ایک گاؤں میں آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھا پھر اسی اثنا میں اس کے اپنے گاٗوں میں بھی ایک جگہ آگ کے شعلے نظر آنے لگے اس کو یہ اندازہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کہ یہ آگ سکول میں ہی لگی ہے وہاں کے لوگوں سے یہ معلوم ہوا کہ اس کارروائی سے قبل کمنیکیشن کا نظام بھی ناکار بنا رکھا تھا حیرت کی بات یہ کہ اتنے فاصلے پر موجود ایک درجن سے زائد اسکولزپر ایک ساتھ ایک ہی ٹائم پر کارروائی ہوئی ہے دیامر کے ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ اسکول میں چوکیدار صحیح ڈیوٹی انجام نہیں دیتے ہیں اس کا کہنا تھا کہ صرف ایک اسکول میں چوکیدار موجود تھا وہاں پر جب پیٹرول کی اسپرے کی گئی تو وہ بیدار ہو کر دہشتگردوں پر فائرنگ کی جس باعث وہ وہاں ناکام ہوئے بتایا جارہا ہے کہ ان دنوں موسم گرما کی تعطیلات ہیں اور اس بہانے سے چوکیدار بھی گھروں میں مزے کر رہے ہیں تو دہشت گردوں نے چھٹیوں میں اپنا کام کر دکھایا اس نے کہا کہ لگتا ایسا ہے کہ کم از کم ایک ماہ قبل سے دہشتگردوں نے تیاری کی ہوگی یہ ضرور تربیت یافتہ لوگ ہیں اور ایک منظم سازش کے تحت علم کے چراغ کو بجھانے کی کوشش کی گئی ہے تعلیم کے ساتھ دشمنی،علم کے ساتھ ،نور کو بجھانے کی کوشش کی گئی ہے ہمارے نبی ﷺ نے مرد زن دونوں کو محد سے لحد تک علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے جو علم دشمن ہیں یقینا وہ اسلام دشمن ہیں وہ علاقے کے دشمن ہیں وہ خاص طور پر دیامر کے نئی نسل کے دشمن ہیں انہیں کسی طور جہالت میں رکھنا چاہ رہے ہیں ماضی میں غیر ملکی سیاح کا قتل اور آرمی و پولیس آفیسران کا جو قتل ہوا تھا یہ واقعہ بھی اس کڑی سے جڑتی نظر آ رہی ہے اس کے پیچھے بہت بڑی قوت کا ہاتھ بھی کارفرما ہوسکتی ہے بہت سارے عوامل و محرکات کارفرما ہوسکتے ہیں ایک جانب گلگت بلتستان کے عوام کے اندر اپنے حقوق کے حصول کے لئے تیزی کے کے ساتھ شعور بیدار ہوا ہے دوسری جانب عوامی ایکشن کمیٹی کی فعالیت سے علاقے میں امن پیدا ہوا ہے، جبکہ لاکھوں سیاح کا جی بی کی جانب رخ کرنا بے خوف خطر جی بی کے چپہ چپے میں گھومنا پھرنا، کسی کو نہیں بھایا ہو، اس کے علاوہ سی پیک کے منصوبے پر رکاوٹ پیدا کرنے کے منصوبے کے ساتھ بہت سی خباثتیں اس میں پوشیدہ ہوسکتی ہیں یہ کوئی چھوٹا واقعہ نہیں یہ غیر معمولی واقعہ ہے سنا ہے چیف جسٹس نے دہشتگردی کا از خود نوٹس لیا ہے متوقع وزیر اعظم عمران خان بھی برہم ہوئے ہیں اور یہ تحریک انصاف کے لیے ایک چیلنچ ہے، ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ کس حکمت عملی تحت اس واقعہ کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں گلگت سے بھی سیکورٹی فورس،پولیس متاثرہ علاقوں میں کارروائی کر رہی ہیں ایک اطلاع کے مطابق تا دم تحریر ایک درجن کے قریب مشکوک افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے اس خطرناک واقعہ کے محرکات جو بھی ہوں ہاتھ جس کسی قوت کا بھی ہو مگر یہ بات خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کہ جب تک وہاں کے مقامی سہولت کار موجود نہ ہوں مقامی سطح پر ان کی حوصلہ اافزائی نہ کی جائے تب تک یہ ممکن نہیں؟ جی بی حکومت اور خاص طور پر تبدیلی کا بادشاہ عمران خان متوقع وزیر اعظم سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی طور بھی اس واقعہ میں ملوث منفی کرداروں کو ان کے سہولت کاروں کو بے نقاب کر کے انہیں آہنی ہاتھوں سے گرفت میں لے کر ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ آئندہ کوئی ایسی حرکت کرنے سے قبل سو بار سوچنے پر مجبور ہوجائے؟ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے تمام اسکولوں کی سیکورٹی کو سخت بنایا جائے خدا نخواستہ پشاور جیسا واقعہ کہیں رونما نہ ہو اس کے علاوہ شاہراہ قراقرم کے مسافروں کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور گلگت بلتستان کے داخلی و خارجی راستوں پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے اس واقعہ کی خبر پوری دنیا میں پھیل چکی ہے جسکے بنا پر پورا جی بی بدنام ہوا ہے ہمارا سیاحت متاثر ہوسکتا ہے ہمارا امیج خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مانا کہ یہ گزشتہ واقعات کی کڑی ہوسکتی ہے مگر دیامر کے عوام نے ان دہشت گردوں کے خلاف کھل کر احتجاج کیا ہے اور سیکورٹی اداروں کی مدد کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے،دیامر کے عوام اس دلدل سے نکل کر ترقی کرنا چاہ رہے ہیں اپنی اولاد کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہ رہے ہیں انہیں سازش کے تحت جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دھکیلا جارہا ہے ہم دیامر کے عوام کے ساتھ ہیں ہم سب نے مل کر دہشت گردوں اسلام دشمنوں علم دشمنوں علاقہ دشمنوں کے مکرو عزائم کو خاک میں ملا دیں گے ہمیں تمام تر تعصبات سے بالا تر ہو کر ایک قومی وحدت کی جانب گامزن رہ کر علاقے کو دشمنوں سے پاک کرنا ہوگا پروردیگار عالم ہم سب کو متحد رہنے اور جی بی کے مشترکہ قومی حقوق کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
 

Yousuf Ali Nashad
About the Author: Yousuf Ali Nashad Read More Articles by Yousuf Ali Nashad: 18 Articles with 19124 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.