زمانے میں عجب ہوا چلی ہے

عائشہ طارق
ہمارے معاشرے کا دیکھتے ہی دیکھتے رنگ بدلتا جا رہا ہے۔ ہمارے روائے، ہماری سوچ سب بدل رہا ہے۔ یہ کوئی مثبت تبدیلی نہیں۔

زمانے میں عجب ہوا چلی ہے
زمانے کو کس رت لے بہا چلی ہے
جانے کس گناہ کی ہم کو سزا ملی ہے
عزت کے نام پہ یہ عجب رسم چلی ہے

ہم جھوٹ بولنے پر شرمندہ نہیں ہوتے مگر ہمیں سچ بولنے پر شرم آتی ہے۔ اس لیے تو جھوٹ بولنے والا سر اٹھائے چلتا ہے اور سچا بولنے والا سر جھکا کر۔ ہمارے معاشرے کا عجیب المیہ بن چکا ہے۔ ہمارے اداروں کو ایمان دار اور سچے لوگوں بجائے بےایمان اور جھوٹے لوگ زیادہ راس آتے ہیں۔ ہم سچا کا ساتھ دینے سے ڈرتے ہیں اور جھوٹ کو جسٹیفائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم عدالتوں، قانون اور انصاف سے ڈرنے کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہم گناہ کو، جرم کو ہوتا دیکھ کر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے اپنی آنکھیں بند کر دیتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور سوچتا ہے سب ٹھیک ہے۔ اگر کوئی غلط کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ غلط کو غلط کہنے کی ہمت رکھتا ہے تو اس کو خوف زدہ کر کے اس کی آواز کو ڈبا دیا جاتا ہے۔

ہم خود سچ بولنے، سچ دیکھنے، اور سچ کے لیے آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ اور امید کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سچ بولا جائے، "سچ بولنے والوں کو اگر سچ پر شرم آنے لگے، تو جھوٹ بولنے والے جھوٹ کہتے، وقت گردن کڑا لیا کرتے ہیں"

ہمارے ساتھ کوئی ناانصافی نہ ہو، جب کے ہم خود انصاف نہیں کرتے ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری عدالتوں سے ہمیں انصاف ملے مگر ہم نے اپنے کردار میں اس کو شامل ہی نہیں کیا ۔ ہم نے خود کبھی کسی کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ ہم یہ بات کیوں نہیں سمجھتے اگر ہم اپنے معاشرے کو انصاف پسند، قانون ساز اور سچا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو پہلے ان سب کو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا۔

ہم اپنے معاشرے سے کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اور خود ہم سب اوپر سے لے کر نیچے تک کرپٹ ہے۔ ہمارے ملک میں ہر کوئی کرپشن میں ملوث ہیں۔ سب فرق اتنا ہے کہ غریب دو روپے کی کرپشن کرتا ہے اور امیر لاکھوں کی اور پھر دونوں ہی مل کر کرپشن کا رونا روتے ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کی شکایت کرتا ہے مگر کوئی بھی خود کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ سب خود کرپشن کرتے ہیں اور ملک کو کرپشن سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم سب کرپشن کرنا تو چھوڑتے نہیں۔ تو ملک کیسے کرپشن فری ہوگا؟۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ کرپشن سے پاک ہو تو ابتداء ہمیں اپنے گھر سے کرنی ہوگی۔

ہم ہر وقت ملک میں ناقص قانون سازی کی شکایت کرتے ہیں اور خود ٹریفک کے قوانین کو بھی فیلو نہیں کرتے وہ ہر وقت ٹریفک کی شکایت کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اس قدر برائیاں رچ بس گئیں ہیں کہ اب یہ ہمارے معاشرے کا حصہ لگتیں ہیں۔

" اور پھر جو چیزیں رواج میں آجائیں ان کا غلط ہونا ہمارے ذہنوں سے نکل جاتا ہے"

میں نے خود اکثر لوگوں کو جگہ جگہ پر گندگی کی شکایت کرتے سنا ہے اور پھر انہی لوگوں کو اپنا کوڑا نیچے پھینکتے دیکھا ہے۔ اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے ریپر نیچے کیوں پھینکا ہے تو جواب ملتا ہے کہ اور بھی لوگوں نے پھینکے ہوئے ہیں اگر ایک میں پھینک دیا تو کیا ہو گیا۔ ہم ہر بات پر اس جملے کا استعمال کرتے ہیں۔

” سب کرتے ہیں میں نےکر لیا تو کیا ہو گیا "

زرہ سوچئیے گا کہ آپ اکیلے کے کرنے سے کیا ہو سکتا ہے۔ جب ملک کی 20 کروڑ عوام میں سے ہر کوئی یہ سوچ کر غلط کام کرے گا کہ سب کرتے ہیں میں نے کرلیا تو کیا ہو گا تو معاشرے کو پھر تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہم کسی کے غلط کام کو دیکھ کر اس کو فوراً اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کسی کے اندر کوئی اچھائی دیکھنے کے بعد اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ کہیں غلطی سے وہ اچھائی ہم میں نہ آ جائے۔
ویسے تو ہر طرف نئے پاکستان کی دھن ہے۔ مگر اگر اس نئے پاکستان میں بھی ہمارے روائیں، ہماری سوچ اور ہمارے انداز پرانے ہی رہئے گئے تو پھر نئے پاکستان کا کیا فائدہ؟ ہم دنیا کو تو بدلنا چاہتے ہیں مگر خود کو نہیں۔

"دنیا کو بدلنے کے لیے خود کا بدلنا ضروری ہے۔ اگر ہم خود کو بدل لے گئے تو دنیا خود بہ خود بدل جائے گئی۔"
اس سال 14 اگست سے پہلے خود سے وعدہ کیجیے کہ اس ملک کی ترقی میں آپ اپنا قرار ادا کریں گئے۔ دنیا کی مثال تو ہم دیتے ہیں مگر اب اپنے ملک کو دوسروں کے لیے مثال بنائے گئے۔ کیونکہ
" جو خود کے لیے مشعال بنتے۔ وہی دوسروں کے مثال بنتے ہیں۔"

خود سے وعدہ کیجیے کہ اپنے عام اور خاص ہر معاملے میں سچ کو اپنائے گئے۔ عدالتوں اور قانون کی عزت اور ان کی پابندی کریں گئے۔ ایمان داری سے کام کرے گا اور دوسروں کی ایمان داری کی عزت کریں گئے۔ کرپشن کا خاتمہ اپنی ذات سے کریں گئے اور پھر دوسروں پہ انگلی اٹھائے گئے۔ پہلے خود انصاف قائم کریں گئے اور پھر دوسروں سے ڈیمانڈ کریں گئے۔ پہلے اپنے حصے کے فرائض پورے کریں گئے پھر دوسروں سے شکایت کریں گئے۔ پاکستان زندہ باد!

Tariq Javed
About the Author: Tariq Javed Read More Articles by Tariq Javed: 28 Articles with 22828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.