۱۴۔اگست صبح تقریبا سات بجے موبائیل فون کی گھنٹی بجی۔
چارجنگ سے فون اتارتے ہوئے میں نے فون اٹھایا۔ سلام کرنے بعد جوابا سلام کا
جواب ملا۔ آزادی مبارک! میں نے بھی جوابا آزادی مبارک کہا۔ فون کرنے والے
صاحب نے بتایا کہ آج وہ آزادی کے حوالے سے کوئی پروگرام انعقاد کروا رہے
ہیں‘ شرکت کی دعوت پیش کی۔ میں نے وعدہ تو نہیں کیا ‘ البتہ اتنا کہہ دیا
کہ ہو سکا تو ضرور حاضر ہوں گا۔ شکریہ کہتے ہوئے صاحب نےفون بند کر
دیا۔اسقدر میسجز بھی تھے ‘ جنہیں پڑھنے کے بعد پھر سبکو جواب دینے میں بھی
کافی وقت لگ گیا۔ موبائیل فون دوبارہ چارجنگ پہ لگانے کے بعد میں کمرے سے
باہر آیا ۔
ہر جگہ جھنڈیاں لگی نظر آ رہی تھیں۔ چھوٹے ابھی بھی اسی عمل میں مصروف تھے
اور بڑے کھانے پکانے میں ۔جیسے آج عید کا دن ہو۔ چھت پہ لہراتا سبز پرچم
دیکھ کر میرے لبوں پہ مسکان پھیل گئی۔ سلیوٹ کرنے کے بعد اللہ کا شکر بجا
لایا ۔ اور ان سب کے حق میں دعا کی جن کی وجہ سے یہ وطنِ عزیز ہمیں ملِا۔
آنے والے اچھے وقت کی بھی دعا کی۔ سفید کپڑے ‘ کالے شوز ‘ گھڑی‘ خوشبو‘ بال
بناتے ہوئے میں نے گھر بتایا کہ میں دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں ‘ شام تک
واپس آ جاؤں گا۔ موبائیل فون چارجنگ سے اتارا ۔ گھر والوں کی دعاوں میں
گھر سے رخصت ہوا۔ آج ہمارا پروگرام تھا ‘ میجر عزیز بھٹی شہید کی آرام گاہ
پر جانے کا۔ اگرچہ میں پہلے بھی ایکبار دیکھ چکا ہوا تھا۔ راستے میں میری
نظر اُن جگہوں پہ پڑی ‘ جہاں مزدور بیٹھا کرتے تھے‘یہ کیا؟ یہ آج بھی یہیں
ہیں ‘ اس سے آگے ایک اور یہیں منظر میری آنکھوں سے گذرا۔ میری مسکراہٹ غائب
ہوگئی‘ نا جانے میں کیوں اُداس ہوگیا‘ اب حوصلہ نہیں رہا تھا مزید آگے جانے
کو‘ دل ہے کہ مان نہیں رہا گھومنے پھرنے‘ کھانے پینے کو۔
آخر کوئی بہانہ کر کے میں واپس آگیا۔ دوستوں سے معذرت کر لی تھی۔ میں وہاں
آگیا جہاں مزدور بیٹھا کرتے ہیں۔ سب ہی یکبارگی میں میری طرف لپکے۔ جی صاحب
! جی صاحب‘ کیا کام ہے؟ کیا کام ہے‘ صاحب میں کام جلدی کر دوں گا‘ صاحب میں
تھوڑے پیسوں میں کر دوں گا۔ خیر بڑی مشکل سے میں یہ بات ثابت کرنے میں
کامیاب ہوا کہ میں یہاں ویسے ہی آیا ہوں،۔ میں نے اُنکی آنکھیں گلے شکوؤں
سے بھری پڑی دیکھی۔ دل میں ہزاروں خواہشیں بھی دیکھی۔ لب شاید یہ کہہ رہے
ہوں کہ کوئی مسیحا ادھر بھی آئے ۔ کم مزدوری پہ آج ہمیں لے جائے۔ موٹر
سائیکل ‘ کاریں آج دیکھ کر اُنکا دل چاہتا تو ہوگا نا آزادی کا دن وہ بھی
منائیں ‘ لیکن یہ خیا ل آتے ایک خیال گھر لوٹ جاتا ہوگا۔ ’’ آزادی کا دن
منائیں صاحب‘ تو گھر شام کو کیا لیکر جائیں صاحب‘‘ ہم تو آزادی منا سکتے
ہیں ‘ تو کیا مزدو ر بھی؟ عید کا دن آتا ہے گذر جاتا ہے۔ آزادی کا دن بھی آ
کر گذر جاتا ہے۔ ہمیں تو آج کہیں گھومنے جانا ہوگا‘ کہیں دعوت پہ جانا ہوگا‘
یا کہ کسی کو اپنے ہاں بُلانا ہوگا۔ لیکن ہمارے مزدور؟ وہ آ ج کے دن بھی
ہمارے منتظر ہیں۔ جائیے جائیے ! آج اُس جگہ جائیے جہاں مزدور بیٹھے ہیں ‘
وہا ں اپنی مرضی سے کم از کم کسی ایک کو ساتھ لیں ‘ اس سے وہیں یہ بات طے
کریں ‘ کہ آج وہ کھانا آپ کے ساتھ کھائے۔ اور آپ اسے اج ۵۰۰‘ ۱۰۰ یا ں جتنے
ہو سکیں دیں گے‘ طے کرلیں یہ بھی ‘ اور ایک وعدہ ان سے بھی لیں کہ وہ آج
کام نہیں کریں گے ‘ سیدھا گھر جائیں گے اور آزادی کا دن اپنے گھر والوں
کےساتھ منائیں گے۔ پھرآپ کو اصل آزادی کا لطف ملے گا۔
میری سب تنظیموں ‘ جماعتوں اور دوستوں سے اپیل اورمیری خواہش ہے کہ اِس با
ر یُوں آزادی کا دن منایا جائے۔ |