امن و سلامتی کے داعی اسلام اوراہل اسلام کے خلاف 21ویں
صدی کے آغاز سے ہی جارحیت کا طویل ترین پس منظر آپ کے سامنے لانے کے بعد اب
آپ کو موجودہ دہشت گردی اور متوقع بربریت کی پرانی منصوبہ بندی کی جھلکیاں
دکھاتے ہیں تاکہ آپ خو د پہچان سکیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کس نادیدہ
قوت کے مہرے اور وحشی غلام ہیں اور اس نادیدہ قوت کے عزائم اور طریقہ
واردات کیا ہے۔
فری میسن اور ایلیومینیٹس(ILLUMINATIS) یہ دو یہود کی انتہائی خفیہ اور
طاقتور تنظیمات ہیں جو اس شیطانی منصوبے ’’ ون ورلڈ گورنمنٹ‘‘ عالمی اقتدار
کے حصول کے پیچھے کام کر رہی ہیں اور اقوام متحدہ UNO کی نکیل ان کے خفیہ
ہاتھوں میں ہے۔ 1770ء میں اس شیطانی منصوبے (عالمی اقتدار تک رسائی حاصل
کرنے کیلئے مندرجہ بالاپروٹوکولز) کو دور جدید کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے
کا فریضہ ’’ روحانیت کی روشنی ‘‘ ایلیومینیٹس(ILLUMINATIS) نامی تحریک کے
بانی ،نادیدہ قوت کے ترجمان ’’فرنٹ مین ویشاپٹ‘‘ کے سپرد ہوا ۔ویشا پٹ ایک
مسیحی ماہر قانون تھا جوجرمن کی ’’گولڈ سٹڈ یونیورسٹی‘‘ میں قانون کا
پروفیسر اور ایک کیتھولک پادری بھی تھا، انسان دشمن نظریات اور شر انگیز
کاروائیوں کی وجہ سے اسے چرچ سے نکال دیا گیا تھا۔ بعد ازاں اس نے مسیحت
چھوڑ کر ابلیسی فلسفہ ء یہودیت کواپنا لیا تھا ۔یہود نے اس کے ذمے یہ کام
لگا یاکہ وہ صدیوں پرانے پروٹوکولز کو نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے
تاکہ عالمی اقتدار تک رسائی کا کام سہل ہو سکے۔
ویشا پٹ نے اس کام کو ایک معروف جرمن یہودی ’’سنار روتھ شیلڈ‘‘کی معاونت سے
1776ء میں مکمل کر لیا۔ویشاپٹ کی خفیہ تنظیم ایلیومینیٹس(ILLUMINATIS)یعنی
’’ داعیان روحانیت یا روحانیت کی روشنی‘‘ جو 1760ء میں قائم ہوئی اور 1776ء
میں دنیا کے منظر پر اس وقت ابھر کے سامنے آئی یہ شیطانی منصوبہ اپنے پایہ
تکمیل کو پہنچا۔ اس تنظیم کا بنیادی ایجنڈہ بھی صیہونیت کے شیطانی منصوبہ
کی تکمیل تھی۔ یہ تنظیم فی الاصل عبداللہ بن سبااور حسن بن صباع (لعنۃ اللہ
علیہ ) یہودی کے فکرو عمل کا تسلسل تھی جو انہوں نے خلافت راشدہ کے عظیم
فطری نظام حکومت کے خلاف شروع کی تھی۔ اس دہشت گرد تنظیم نے سینہ دھرتی پر
’’صرف ایک حکمران کے کنٹرول ‘‘کی بڑے سائنسی انداز میں منصوبہ بندی کی ۔ یہ
خالصتاً شیطانی منصوبہ تھا جس کے تحت ایسا انقلاب لانا مقصود تھا جس میں
ابلیسی فلسفہ عالمگیر سطح پر تمام اقدارکو بہا لے جائے اور تمام مذاہب اور
حکومتیں تہہ و بالا ہونے کے بعد یہو د کے عالمی اقتدار کا خواب شرمندہ
تعبیر ہو سکے ۔
1840ء میں ان روحانیت کے داعیوں، روحانیت کی روشنی بکھیرنے والوں
ILLUMINATIS نے جنرل البرٹ پائیک ‘‘کو اپنے شکنجے میں پھنسا لیا اور اسے
اپنے مذکورہ شیطانی منصوبے ’’ صرف ایک حکمران کے کنٹرول ( One World
Government ) کے کام کو بتدریج آگے بڑھانے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی ذمہ
داری سونپی ۔جنرل البرٹ پائیک نے 1859ء سے 1871ء کے دوران مکمل عرق ریزی
اور یکسوئی سے اس منصوبہ کو عملی شکل دی اور عالمی سطح پر تین بڑ ے
انقلابات اور تین بڑی جنگوں کی منصوبہ بندی (نشاندہی ) کی ۔ جنگوں کی
انگیخت کرنیوالے عوامل کے جزیات طے کیں۔پہلی، دوسری اور تیسری جنگ عظیم کے
فریقین طے کیے اور یہ بھی طے کیا کہ کس جنگ میں کس فریق کو کن ذرائع سے
شکست دے کر کیا نتائج حاصل کرنے ہیں ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے واقعات
اور ان کے پس پردہ یہود کے مقاصد اور اثرات کودنیا کاہر باشعور شخص دیکھ
چکا ہے ۔
جنرل البرٹ پائیک نے دوسری عالمی جنگ کے جومناظر اور مقاصد طے کیے تھے وہ
یہ ہیں
1۔ ضرور دوسری عالمی جنگ ہوگی جس میں برطانیہ یقیناًحصہ لے گا۔
2۔ برطانوی شاہی خانوادہ صہیونیت کاسرپرست ہوگا۔
3۔ ترکی کو ہر حال میں برطانیہ کے خلاف صف آراء کیا جائے گا۔
4۔ ترکی کو ہر حال میں شکست دی جائے گی کیوں کہ اس نے ارض فلسطین میں یہود
کو
اراضی فروخت کرنے سے انکار کیاکہ وہ وہاںآباد ہوتے ۔
5۔ جہاں تک ممکن ہوسکے ہمیں گوئم( غیر یہود) کو ایسی جنگوں میں الجھانا ہے
جس سے انہیں کسی علاقے پر مستقل قبضہ نصیب نہ ہو ،بلکہ جو جنگ کے نتیجہ میں
معاشی تباہی اور بد حالی کا شکار ہوں اورپہلے سے تاک میں بیٹھے ہوئے ہمارے
مالیاتی ادارے انہیں امداد فراہم کریں گے اس طرح ہماری بے شمار نگران
آنکھیں ا ن پر مسلط ہو کر ہماری ناگزیر ضروریات کی تکمیل کریں گے ، خواہ ان
کے اپنے اقدامات کچھ بھی ہوں اس کے رد عمل میں ہمارے بین الاقوامی حقوق ،ان
کے قومی حقوق کو بہا لے جائیں گے اس طرح ہمارے حقوق اسی انداز میں ان پر
لاگو ہو جائیں گے جس طرح کبھی ان کی اپنی حکومت ان سے مطالبہ کرتی تھی ۔
(تاریخ شاہد ہے ،یوں ہی ہوا کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اہل یورپ نے
بیشمار ایشائی و افریقی ریاستوں پر قبضہ کیا مگر وہ کسی پر اپنا مستقل قبضہ
برقرار نہ رکھ سکے اور پھر یہود کے مالیاتی ادارے تعمیر نو کے خوبصورت نام
سے ان علاقوں میں داخل ہوئے اور سودی قرض کی امداد سے سب کو یرغمال بنا تے
چلے گئے ۔ دوسری جنگ عظیم سے لے کر آج تک جتنی جنگیں ہوئیں ان کے حالات
ہمارے سامنے ہیں ،ان میں بھی یوں ہی ہوا کہ ادھرجنگ ہو رہی ہوتی تھی اور
اُدھر جنگ کروانیوالے یہود اور یہود کی لونڈی( یو۔این۔ او)اور اس کے
مالیاتی اداروں ’’ ورلڈ بنک، آئی ایم ایف وغیرہ میں اس کی تعمیر نو کی
باتیں ہو رہی ہوتی ہیں ۔ابھی حال ہی میں افغانستان اور عراق کی مثال لیں کہ
اُدھر جنگ جاری تھی اور اِدھر جنگ مسلط کرنے والے امریکہ اور یو ۔ این۔
او(UNO) میں ان کی تعمیر نو کی باتیں ہو رہی تھیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ کیا کوئی اپنے دشمن کو نقصان پہنچا کر ، اس کی امارت گرا کر دوبارہ
اس کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی بات کرتا ہے ؟ہرگز نہیں ، اس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایک سوچے سمجھے منصوبے پر عمل پیرا ہیں جس کا مقصد عالمی
اقتدار کا حصول ہے ۔)
6۔ لیگ آف دی نیشنز (LEG OF THE NATIONS) تشکیل دی جائے گی ۔
لیگ آف دی نیشنز ، بعد ازاں جس کانام تبدیل کرکے یو۔ این ۔ او ( United
Nation Organization ) رکھا گیا ،اس کے مقاصد اور اس کے عزائم کیاہیں ہر
باشعور شخص جانتا ہے کہ یہ یہود کے صدیوں پرانے منصوبے ،عالمی اقتدار ( One
World Government ) کو عملی جامہ پہنانے اور دنیا کے تمام مذاہب اور
حکومتوں کو تہہ و بالا کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔اس پس منظر میں اقوام
متحدہ پر یہودیوں کے تسلط کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام
متحدہ کے دس انتہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر 73 یہودی فائز
ہیں۔ اقوام متحدہ کے صرف نیویارک دفتر میں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں
اور یہ سب کے سب انتہائی حساس شعبے ہیں جو اس بین الاقوامی تنظیم کی
پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ یونیسکو (UNESCO) میں نو شعبوں کے سربراہ یہودی
ہیں۔ آئی ۔ایل۔او (I.L.O) کی تین شاخیں یہودی افسران کی تحویل میں ہیں۔ ایف
۔اے۔ او (F.A.O) کے گیارہ شعبوں کے سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ عالمی بنک
(WORLD BANK) میں 6 اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) میں 9 شعبوں کے
سربراہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم فری میسن سے ہے۔ یہ
تمام عہدے یہودیوں کے پاس ہیں انتہائی اہم اور حساس ہیں اور یہ لوگ ان کے
ذریعہ سے تمام بین الاقوامی امور پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ
بیشمار یہودی اور ان کے گماشتے ہر ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ذرا اندازہ
لگائیں کہ اگر یہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیر اثر کام کر رہے ہوں تو وہ
عالمی سیاسیاست، معاشیات، اور مالیات کا رخ جس سمت چاہیں موڑ سکتے ہیں اور
بعینہ یہی وہ کام ہے جو وہ سر انجام دے رہے ہیں۔
آج مسلمان حکمران سب کچھ جاننے اور بوجھنے کے باوجود کہ ’’یہ ادارہ اسلام
اور اہل اسلام کی عظمت و سربلندی ، عزت ووقار، سلامتی و بقاء کا بد ترین
دشمن ہے‘‘ اس کی رکنیت کواپنے لیے بڑی سعادت سمجھتے ہیں اور بڑ ا فخر محسوس
کرتے ہیں کہ ہم اس کے فلاں عہد ہ پر کام کر رہے ہیں ۔یہ نہیں دیکھتے کہ اس
کے پس پردہ ان کے عزائم کیاہیں ۔سب کچھ جاننے کے باوجود اندھے بنتے ہیں اور
حق بات سے منہ موڑتے ہیں ۔یہ لوگ اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کے
احکامات و ہدایات کی تو خلاف ورزی کر سکتے ہیں مگر یو۔ این۔ او کے ہر حکم
کو نہایت تہہ دل سے تسلیم کرتے ہیں خواہ وہ ان کے اپنے خلاف ہو ،یااسلامی
اقدار و روایات کے خلاف ہو ۔
گذشتہ نصف صدی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ UNO اسلامی ممالک کے مسائل کو
حل کرنے کی بجائے انہیں مزید الجھانے اور طول دینے کی پالیسیوں پر گامزن ہے
۔ مسئلہ کشمیر کاہو یا فلسطین کا ،چیچنیا کاہو یاکوسوؤ، صومالیہ اور قبرص
وغیرہ کا UNOاور اس کی سلامتی کونسل(مردہ قراردادوں کی عجائب گھر) کسی
قرارداد پر عمل نہیں کر وا سکی جس کا تعلق ملت اسلامیہ کے ساتھ ہے۔ عالمی
سلامتی کا دعویدار ادارہ آج تک امریکہ کوجارحیت ،ظلم و بربریت سے باز نہ
رکھ سکا۔ انڈیا اور اسرائیل جیسے ریاستی دہشت گردوں کا کچھ نہ بگاڑ سکا ۔
بتاؤ ! ثابت کرو ، کوئی ادنیٰ سا معاملہ جو کسی مسلمان کی ذات سے وابستہ ہو
اور اسے UNO نے حل کیا ہو ؟اس کے بر عکس مشرقی تیمور کا معاملہ کل پیدا ہوا
اور اسے فوراً حل کرکے ،ایک عیسائی ریاست کے طور پر آزادی دلوا کر اسے UNO
کا ممبر بھی بنا لیا گیا۔ سب سے بڑی اسلامی ریاست’’انڈونیشیا ‘‘ کو دولخت
کر دیا اور مزید اس کی تقسیم در تقسیم کی سازشیں جاری ہیں۔
کشمیر کا مسئلہ دیکھیں 70 سال بیت گئے مگر کسی قرار داد پر عمل نہیں ہوا۔
فلسطین کے مسئلے کا کوئی حل نہیں نکل سکا۔ اگر دنیامیں کہیں غیر مسلموں کے
ساتھ کوئی معاملہ پیش آ جائے تو یہ ادارہ چلا اٹھاتا ہے ، اس کے بر عکس اگر
مسلمانوں کیساتھ کوئی معاملہ پیش آجائے تو یہ چپ سادھے محض تماشائی بنا
رہتا ہے ۔ جب انڈیامیں 1992ء میں مسلمانوں کی شاندار ، عظیم ترین عبادت
گاہ’’بابری مسجد ‘‘ کو شہید کیا گیا تو اس وقت یہ کہاں تھا ؟ادھر انہوں نے
ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے مسئلے پر محض شک کی بنا پر پورے افغانستان کی اینٹ سے
اینٹ بجادی ،جبکہ بابری مسجد کو انتہا پسند ہندؤ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید
ہوتے ہوئے پوری دنیانے دیکھا مگر کسی نے ان کے خلاف آواز تک نہیں اٹھائی
۔اس معاملہ میںآج تک مسلمانوں کو انصاف نہ مل سکا۔انڈیامیں انتہاپسند ہندؤ
دہشت گردوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہو رہی ہیں ان کے خلاف
کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ فلسطین میں بندر نما یہودی من مانیاں کرتے پھر رہے
ہیں مگر کوئی انہیں روکنے والا نہیں ۔
اسرائیل اور انڈیا ایسے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں جن سے قوموں کی زندگی اور
موت وابستہ ہے۔ایک طرف مقبوضہ فلسطین میں بر سر اقتدار لیکوڈ پارٹی کے
انتہا پسند یہودی دہشت گردوں نے ’’سلیمانی ہیکل ‘‘تعمیر کرنے کا منصوبہ
تیار کر رکھا ہے اور دوسری طرف ہندؤ دہشت گردوں نے ’’رام مندر‘‘ کی تعمیر
کا معاملہ چھیڑ رکھا ہے ۔اگر بات صرف’ ’رام مندر‘‘اور’’سلیمانی ہیکل ‘‘ کی
ہے تو ہمیں اس سے کیااعتراض ہو سکتا ہے مگر جس ہیکل کی تعمیر کا ذکر یہودی
کر رہے ہیں اس کے لئے انہیں پورے مقبوضہ فلسطین میں اورکوئی مناسب جگہ
دکھائی ہی نہیں دیتی ، وہ اس کی بنیادیں عین اس جگہ رکھنا چاہتے ہیں جہاں
صدیوں پرانی اور تاریخی مسجد اقصیٰ اور مسلمانوں کا قبلہ اول ’’بیت
المقدس‘‘ واقع ہے ،جسے صدیوں پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا
تھااور جس کا تعلق اسلامی تاریخ میں ’’مقدس واقعہ معراج ‘سے ہے ۔ اس واقعہ
کو بھی رونما ہوئے تقریبا پندرہ سو سال گزرچکے ہیں ،نہ جانے وہ کس پٹواری
کابنا ہوا شجرہ اور جمع بندی ہے جس نے یہودیوں کو ایسے ثبوت فراہم کیے ہیں
کہ ’’اسی جگہ پر کبھی کوئی ہیکل موجود رہا ہے جسے گرا کر یہ مسجد تعمیرکی
گئی لہٰذا اگر ہیکل تعمیر کرنا ہی ہے تو مسجد اقصیٰ کوگرا کر عین اسی جگہ
تعمیر کرو۔‘‘
جہاں تک بھارت کے انتہا پسندہندؤ دہشت گردوں کا تعلق ہے ان کی کہانی بھی ان
سے کچھ مختلف نہیں وہ بھی عین اسی جگہ مندر کی بنیادیں رکھنا چاہتے ہیں
جہاں بابری مسجد واقع ہے اور جوپہلے ہی اس مقصد کیلئے گرائی جا چکی ہے۔ یہ
ایسے خطرناک منصوبے ہیں جن سے قوموں کی زندگی اور موت وابستہ ہے لیکن
کیونکہ ان دونوں کا تعلق مسلمانوں کی ذات سے ہے اس لئے UNOکے نزدیک ان
دونوں کی کوئی وقعت نہیں ،اس کے بر عکس اگر مسلمان غیر مسلموں کی کسی عبادت
گاہ کو گرائیں یا اس کی جگہ مسجد تعمیر کرنے کا ادارہ کریں تو پھر دیکھنا
کہ یہ ادارہ کس طرح شیر بن کر سامنے آتا ہے ۔اگر یہ ایک عالمی ادارہ ہے
تواس کی نظر میں تو سب برابر ہونے چاہئیں تو پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کے
ساتھ ہی ناروا سلوک کیوں؟
اتنا کچھ دیکھنے اور سننے کے باوجود مسلمان حکمران بصیرت کی آنکھ کھولنے کی
بجائے اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پر مصر ہیں اوراپنے معاملات کو مزید
الجھانے اور پیچیدہ بنانے کیلئے بڑے اد ب و احترام سے اس کے حضور لے جاتے
ہیں، اپنی آزادی ، خود مختاری پر تمام جانوروں سے بدتر انسانوں کی غلامی کو
ترجیح دیتے ہیں ۔میں یہ بات پورے یقین سے کہتا ہوں اگر تمام مسلمان حکمران
باہم متفق ہوکر صرف ایک مرتبہ خلوص نیت اور خلوص دل سے رب کائنات کے حضور
یہ عرض کرتے کہ اے رب ذوالجلال !تو ہی ہمارا مالک ہے ، تو ہی ہمارا کارساز
ہے، تو ہی ہمارا وکیل ہے اور تو ہی ہمارا حافظ و ناصر ہے۔ہم تجھ پر بھروسہ
کرتے ہیں تو ہمارے سارے معاملات حل فرمایا اور ہمیں دنیا میں عزت کی زندگی
بسر کرنے کی توفیق دے ۔‘‘ اور اللہ کریم کے بتائے ہوئے نور ہدایت پے چلتے
تو آج ہمیں روئے زمین پر کوئی معاملہ نظر نہ آتا۔
اے مسلمانو! اگر عافیت چاہتے ہو تواللہ سے ڈرواور اس کی رکنیت سے فوراً
دستبر ہو جاؤ، اللہ رب العالمین پر بھروسہ کرو اوراپناعالمی ادارہ تشکیل
دو،اپنی الگ شناخت بناؤ،ورنہ یاد رکھو ! تمہیں اللہ عزوجل واحد القوی
القہار کے غضب سے بچانے والا کوئی نہ ہو گا ،دنیا میں بھی ذلت و رسوائی
تمہارامقدر ٹھہرے گی اورآخرت میں بھی ذلیل ہوکر جہنم میں جھونک دئیے جاؤ
گے۔
اے مسلمانو! سنبھال جاؤ ،بصیرت کی آنکھیں کھولو ، ہوش میں آؤ ،عقل و دانش
سے کام لواور اپنی عزت ووقار ، عظمت و سر بلندی اور سلامتی و بقاء کے بد
ترین دشمن کو پہچانو، اس کے ناپاک عزائم اور صدیوں پرانے شیطانی منصوبہ
بندی پر نظر دوڑاؤاور عبرت حاصل کرو۔ |