جشن آزادی مبارک
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء ۲۷ رمضان المبارک کو اﷲ رب العزت نے مسلمانوں کو ایک الگ
ریاست پاکستان کی صورت میں عنایت فرمائی ۔جسکا آغاز برصغیر پاک و ہند میں
ہندؤں کے متعصبانہ رویے سے شروع ہوا اور مسلمانوں نے اپنی حقوق کے حصول کے
لیے جدوجہد شروع کی ،۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو قراد داد پاکستان منظور کی اور پھر
برصغیر کے مسلمانوں کا الگ ملک کا قیام ایک جنون بن گیا ۔جس کی تکمیل دس
لاکھ سے زائد شہیدوں کے لہو سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ہوئی ۔
پاکستان کیوں بنایا گیا ۔۔۔؟:انگریز کی غلامی میں برسوں ہندو اور مسلمان
ایک ساتھ رہنے کے باوجود اپنی تہذیب اور ثقافت کو الگ الگ ہی تصور کرتے تھے
مسلمان اپنے آپ کو ہندؤ ں کے گندھے عقیدے پاک رکھنا چاہتا تھا ۔ایک سوال ہر
مسلمان کے ذہن میں تھا کہ ہم ان ہندؤں کے ساتھ مل کر نہیں رہ سکتے :کیونکہ
خدائے واحد کے سامنے جھکنے والے اور ہر طاقتور کے سامنے سر جھکانے والے ایک
نہیں ہو سکتے ۔ ایک بے بس و بے کس جانور کو ذبح کرنے والے اور اسے باعث ِ
تبرک سمجھ کر اس کی غلاظت کو کھانے پینے والے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔
کعبے کا پاسبان اور صنم خانے کا محافظ ایک نہیں ہو سکتے ۔
مسجد و محراب اور مندر و دیوتا ایک نہیں ہیں ۔
آب زم زم کا طہورہ اور گنگا کے پانی میں کوئی بربری نہیں ۔
یہی ایمانی حرارت تھی جس نے الگ ریاست کے مقام کے لیے ایک ملک کے حصول کے
لیے جہاں مسلمان اپنی آزادی کے ساتھ اﷲ اور اس کے رسو ل کے فرمودات پر عمل
پیرا ہو سکے لاکھوں قربانیوں کے دینے کے لیے تیار کر دیا ۔
قائد اعظم کیا چاہتے تھے ․․؟:قائد اعظم محمد علی جناح hنے قراد داد کو پیش
کرنے کے بعد یہ نعرہ لگوایا تھا ۔کہ پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔لاالہ الا اﷲ
مطلب یہ تھا کہ ہم پاکستا ن کلمہ طیبہ کے نظام کو چلانے کے لیے حاصل کرنا
چاہتے ہیں ۔۴ مارچ ۱۹۴۶ء کو قائد اعظم نے شیلانگ میں خطاب کرتے ہوئے کہا
۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں دین کو سیاست سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ہر
مسلمان کے پاس قرآن مجید کا ایک نسخہ ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی راہنمائی خود
کرے۔(بحوالہ قائد اعظم تقاریر و بیانات جلد سوم صفحہ ۴۷۴)
۲۵ جنوری ۱۹۴۱ ء کو قائد اعظم نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے
کہا میرے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ حضرات جان بوجھ کر شرارت کر رہے
ہیں اور پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد شریعت پر نہیں
ہو گی ،ہماری زندگی پر اسلامی اصولوں کا اطلاق آج بھی اسی طرح ہوتا ہے جس
طرح تیرہ سو سال پہلے ہوتا تھا ۔(بحوالہ ڈان ۲۶ جنوری۱۹۴۸ء)
اپنی زندگی کی آخری سرکاری تقریب سٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع
پریکم جولائی ۱۹۴۸ء کو فرمایا :’’ہم ایک ایسا معاشی نظام مرتب کرنے جارہے
ہیں جو عین اسلامی اصولوں کے مطابق ہو گا مغرب کا معاشی نظام انسانیت کو
فائدہ پہنچانے میں ناکام رہا ہے ۔‘‘
(یہ تقریر سٹیٹ بنک کی ویب سائٹ پرموجود ہے )
۲۲ اکتوبر ۱۹۴۹ء میں تمام اکابرین نے وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان کی
سربراہی میں قرار داد مقاصد منظور کی جس میں ملک کو اسلامی فلاحی ریاست
بنانے کا ارادہ کیا گیا اور یہ قرار داد موجودہ آئیں کا حصہ ہے ۔لیکن جلد
ہی ملک کو سیکولر پاکستان بنانے کے خواہاں نے ۱۹۵۱ ء میں لیاقت علی خان کو
قتل کر دیا اور آئین سازی کا کام بھی سیاسی کش مکش کی نظر ہوگیا ۔بنیادی
اصولوں کی کمیٹی لا دینی عناصر اور سیکولر زم کے حامیوں کی وجہ سے ناکام
ہوئی جبکہ انہوں نے پروپیگنڈا یہ کیا کہ علمائے کرام کی فرقہ بندیوں کی وجہ
سے اسلامی ریاست کا دستور قابل عمل نہیں ہو گا ۔چنانچہ جلد ہی مولا نا
مودودی ؒ،مولانا داؤد غزنوی ؒاور مفتی محمد شفیع ؒوغیرہ سمیت ملک کے اکابر
علماء نے ۲۲ نکات پر مشتمل ایک دستوری دستاویز پیش کی جس میں دستور کی
اسلامی بنیادیں طے کی گئی تھیں ۔
لیکن افسوس ۱۔قراردادِ مقاصد ۲۔علماء کے ۲۲ نکات ۳۔۱۹۵۶ء ،۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ء
کے آئین کی اسلامی دفعات آج بھی تمام تر کوششوں کے باوجود کاغذی حد تک
محدود ہے ۔
قیام ِ پاکستان اﷲ کا بہت بڑا احسان ہے امت مسلمہ پر اﷲ تعالیٰ نے اسی کی
طرف اشارہ کیا اور ساتھ جھنجوڑا بھی کہ اگر تم نے قدر نہ کی تو عذاب ایسا
آئے گا کہ وہ پھر صرف ظالم پر ہی نہیں بلکہ ا س کے ارد گرد والوں کو بھی
لپیٹ مین لے لے گا ۔ارشاد ہوتا ہے ۔
’’ اور اُس فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کیساتھ اُنہیں لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو
تم میں گنہگار ہیں اور جان رکھو کہ اﷲ سخت عذاب دینے والا ہے اور (اُس وقت
کو) یاد کرو جب تم زمین (مکہ) میں قلیل اور ضعیف سمجھے جاتے تھے اور ڈرتے
رہتے تھے کہ لوگ تمہیں اُڑا (نہ) لے جائیں (یعنی بے جان و مال نہ کر دیں)
تو اُس نے تمہیں جگہ دی اور اپنی مدد سے تمہیں تقویت بخشی اور پاکیزہ چیزیں
کھانے کو دیں تاکہ (ا ُسکا) شکر کرو ۔‘‘ (الانفال :۲۵،۲۶)
پاکستان ایسا ملک اﷲ نے ہمیں دیا ہے کہ جس میں ہر طرح کی نعمتیں دنیا کے
مقابلہ میں سب سے زیادہ عمدہ ملک ہے ۔
پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس میں چاروں موسم پائے جاتے ہیں ،حال ہی میں
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر نے بتایا کہ پاکستان میں تھر کوئلے
کے ۱۷۵ ارب ٹن کے ذخائر موجود ہیں جو کہ ۶۱۸ارب بیرل خام تیل کے برابر ہے
سعودی عرب کے تیل کے ذخائز ۲۶۰ ارب بیرل ہیں گویا پاکستان کے ذخائز سعود ی
عرب سے دوگناسے بھی زائد ہے ۔اسی طرح کینڈا کے ۱۷۹،ایران کے ۱۳۹،اور عراق
کے ۱۱۵ارب بیرل کے ذخائز ہیں جو کہ ۶۹۰ارب بیرل بنتے ہیں یعنی پاکستان کے
ذخائر کے تقریبا برابر ۔پاکستان میں کوئلے کے ذخائز ۱۷۵ملین جبکہ دنیا میں
کوئلے کی عام قیمت ۷۰ ڈالر ٹن ہے اس لحاظ سے صرف کوئلے کی فروخت سے ہم ۱۳
ٹریلین ڈالر حاصل کر سکتے ہیں اور یہ رقم مساوی ہے اس رقم کے جو امریکہ نے
پچھلے ۲۰۰ سالوں میں بینکوں سے بطور قرض لی ہے ۔
پنجاب کے کئی علاقوں میں لوہے کے ۱۴۰ ارب روپے کے ذخائر ہیں ۔پنجاب میں ۵۰
سے زائد شوگر ملوں کو صحیح چینلائز کر دیا جائے تو بڑی مقدار میں بجلی پیدا
کی جا سکتی ہے ۔
آب و ہوا کے اعتبار سے ہر موسم یعنی سردی ،گرمی اور خزاں بہار یہاں موجود
ہیں ۔ان موسموں کی بدولت الحمد ﷲ دنیا کی تقریبا ہرفصل اور پھل یہاں پایا
جاتا ہے ۔دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام پاکستان میں موجود ہے ۔
پاکستان دنیا کی بہترین آٹھویں ایٹمی طاقت ہے اور اس کی فوج دنیا کی ساتویں
بڑی بہترین فوج ہے ۔دنیا کے ۲۰۰ ممالک میں پاکستان معاشی طور پر دنیا کی ۲۴
طاقت ہے ۔کپاس کی پیداوار میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔دودھ کی
پیدا وار میں ہم دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں ۔پاکستان رقبے کے لحاظ سے دنیا
کا ۳۶واں بڑا ملک ہے ۔فنی عمارت رکھنے والی آبادی کے لحاظ سے اسلامی دنیا
میں ترکی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔گنا پیدا کرنے میں ہمارا دنیا میں ۵واں
نمبر ہے ۔
غور کیجئے !اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اس قدر عظیم ملک عنایت فرمایامگر ہم اﷲ کی نا
شکری ،اپنی کرپشن اور قیام پاکستان کے مقاصد کو بھول جانے کی وجہ سے آج
دنیا کی ذلیل قوم نظر آرہے ہیں اور چوری کے لیے تماشا بنے ہوئے ہیں ۔
پاکستان ہم نے کیسے حاصل کیا ․․؟:کیا ہم بھول گئے کہ ہمارے بڑوں نے قیام
پاکستان کے لیے کہ یہاں اﷲ اور اس کے رسول eکا نظام آزادانہ ہو ،اس کے لیے
کتنی محنتیں اور قربانیاں دی ہیں۔بھول گئے ہیں ۔ہندوستان سے مہاجر بن کر
آئے ہوئے پاکستانیوں کی جن میں دس لاکھ شہیدوں کا شامل ہے ۔چند ایک مثالیں
ملاحظہ کریں ۔
انگریز مؤرخ ڈاکٹر ٹامس اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ ’’۱۸۶۴ء سے ۱۸۶۷ء
تک کے ۳ سال ہندوستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال تھے ،ان ۳ سالوں میں چودہ
ہزار علماء دین کو انگریزوں نے تختہ ٔدار پر لٹکایا ۔ڈاکٹر ٹامس لکھتے ہیں
کہ دلی کی چاندنی چوک سے پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا ، جس پر علماء کی
گردنیں لٹکتی ہوئی نظر نہ آتی تھیں ۔علماء کو خنزیر کی کھالوں میں بند کر
کے جلتے ہوئے تنور میں ڈالا جاتا ،لاہور کی شاہی مسجد کے صحن میں پھانسی کا
پھندا تیار کیا گیا اور انگریزوں نے ایک ایک دن میں ۸۰ ،۸۰ علماء کو پھانسی
پر لٹکایا ۔‘‘
یہی انگریز مؤرخ ڈاکٹر ٹامس لکھتا ہے کہ ’’میں دلی کے ایک خیمے میں ٹھہرا
تھا کہ مجھے مردار کے جلنے کی بد بو محسوس ہوئی ،میں نے خیمے کے پیچھے جا
کر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگ کے انگارے دہک رہے ہیں اور ان انگاروں پر
چالیس مسلمان علماء کو کپڑے اتار کر ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈالا گیا ہے ، اس
کے بعد پھر چالیس علماء کو لایا گیا اور میرے سامنے ہی ان کے کپڑے اتار لیے
گئے ،ایک انگیریز افسر نے ان کی طرف دیکھ کر کہا :’’اے مولویو!جس طرح ان کو
آگ میں جلا دیا گیا ،تم کو بھی اسی طرح آگ میں جھونک دیا جائے گا ،اگر تم
میں سے صرف ایک آدمی بھی کہ دے کہ ہم ۱۸۵۷ء کی جنگ میں شریک نہیں تھے تو تم
کو چھوڑ دیا جائے گا ۔‘‘ٹامس کہتا ہے کہ:
’’مجھے پیدا کرنے والے کی قسم ہے ،میں نے دیکھا کہ چالیس علماء آگ پر پک
گئے اور پھر ان چالیس علماء کو بھی آگ میں جھونک دیا گیا ،لیکن کسی ایک
مسلمان عالم نے بھی انگریزوں کے سامنے گردن نہ جھکائی اور نہ معافی کی
درخواست کی ۔‘‘
(داستان ِ ہجرت ص؍۴۰ )
یہ نوجوان لڑکی ابھی نئی نئی بی اے کر کے آئی تھی ،سکھوں اور ہندؤ ں نے اس
کے بھائیوں کو اس کے سامنے قتل کیا پھر اس کے ساتھ پندرہ سکھوں نے زیادتی
کرنے کے بعد اس کے چھاتی کاٹ لی اور پھر اسے چوک سراجاں کی طرف پھینک دیا
والدہ ماجدہ نے اٹھ کر لڑکی کو سنبھالا وہ زندگی کے آخری لمحوں پر تھی
والدہ ماجدہ لـڑکی کی سرعت کے ساتھ مرحم پٹی کی ،تھوڑی دیر کے بعد اس کی
آنکھیں کھلیں اپنی بھائیوں کے نام پکار تی رہی اور بے ہوش ہو گئی اور آدھی
رات تک بے ہوش رہی ،جب اس نے آنکھیں کھولی والدہ نے اسے پانی پلایا قرآن
مجید پڑھا وہ سنتی وہی پھر امی نے پو چھا’’ بیٹی کیا ہوا تھا ۔‘‘
اس نے آہستہ آہستہ یہ جواب دیا:’’ درو دیوار جل رہے ہیں دنیا بھر کے تاریک
سائے مسلمانوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ بہت خون بہے گا ،اور
ہم پاکستان کی آرزو لیے جگر فگاری کے ساتھ چلے جائیں ،یہ ستارے اور آسمان
بھی ان درد بھرے مناظر کی تاب نہیں لاتے یہ وحشی درندے ہندواور سکھ انسان
کی پیشانی پر داغ ہیں ۔کیسے کیسے گہرے گھاؤمسلمانوں کو لگ چکے ہیں ۔شعلہ
ریز آہیں آسمانوں کو چیر تی ہوئیں عرش جلیل سے جالگتی ہیں کہ اے اﷲ پاکستان
بنا دے ،یہی جستجوں یہی تمنا ہے ۔ہمارے بلکتی روحوں کو قرار آئے گا ،میرے
بھائی قتل ہوئے تو کیا پاکستان تو بن جائے گا ۔‘‘پھر اسے ایک ہچکی آئی اور
وہ ہمیشہ کے لیے سو گئی ۔
ایک خاتون خون میں لت پت پڑی تھی ،پانی پلا کر مرہم پٹی کرنے کی کوشش کی
گئی ،مگر اس کا فائدہ کچھ نہ تھا ،آخری دم پر تھی ،اس خاتون نے بتلا یا
:’’شام چو راسی کی جنگ میں اس کے والد اور سات بھائی ،چچا اور ان کے چار
لڑکے سبھی شہید ہو گئے، تین بہنیں لڑتے لڑتے نہر میں ڈوب گئیں ،والدہ کو
انہون نے قتل کر دیا ،میں چھپ گئی لیکن انہوں نے مجھے ڈھونڈ نکالا جب قریب
آئے تو میں نے چھروں اور ٹوکے سے دو کو زخمی کر دیا اور پھر انہوں نے جلا
کر میرا یہ حشر کیا ،جو ناقابلِ بیان ہے ،خاتون آخری سانسوں سے پہلے کہہ
رہی تھی:’’پاکستان کو میرا سلا م پہنچا دیجیے ،خود نہ رہ سکے تو کیا ہو ا
رہنے والوں کے لیے تو ہے ،قائد اعظم سے کہہ دیجئے کہ شام چوراسی کے
نوجوانوں ،بزرگوں اور جوان لڑکیوں نے پاکستان کی جنگ شام چوراسی کی نہر پر
لڑی ہے اور یہ خون ہر گز رائیگاں نہیں جائے گا ۔‘‘
(داستان ِ ہجرت ص؍۸۰۔۸۴ )
ہم ہند سے گھر آئے تو اسلام کی خاطر
گھر بار جو لٹوائے تو اسلام کی خاطر
ہمارے بزرگوں نے لاکھوں قربانیاں دے کر اس خطہ پاک کو حاصل کیا اب اسے
سنبھال کر ہمیں ہی رکھنا ہے ۔
لائے ہیں ہم طوفانوں سے کشتی نکال کے
اسے رکھنا میرے بچوں سنبھال کے |