یہ نفرت بُری ہے ، نہ پالو اسے دل میں خلش ہے ،نکالو
اسے
نہ تیر ا ،نہ میرا ،نہ اِس کا ،نہ اُس کا یہ سب کا وطن ہے بچالو اسے
اگر اﷲ کسی قوم کو الگ آزادانہ اسلامی ریاست عنایت کر دے تو اس کی ذمہ
داریوں میں شامل ہے کہ وہ اﷲ کے نظام کو چلانے کے لیے ساری قوتیں‘ طاقتیں
صرف کر دیں ۔اور اﷲ اور اسکے رسول اﷲ کی اطاعت کو بجا لائے ۔ارشاد باری
تعالیٰ ہے ۔
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور
زکوٰۃ دیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع کریں اور سب
کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہے ۔‘‘ [الحج:۴۱]
اپنا سارا کا سارا عدالتی نظام بھی اسی اﷲ کے قانون کے پیش ِ نظر بنائیں۔
وطن سے محبت کریں یاد رہے ، وطن کی محبت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے۔
یہ وطن اہل اسلام کا گلستاں
یہ وطن اہل ایماں کی کہکشاں
ہم کہ سینوں میں رکھتے ہیں عزم جواں
ہم وطن کی محبت میں دے دیں گے جاں
صحابہ کرام مہاجرین ؓ اگرچہ برضا و رغبت اﷲ و رسول ؐ کی رضا کی خاطر اپنے
وطن، اپنے گھر بار سب کو چھوڑ کر مدینہ آگئے تھے لیکن شروع شروع میں ان کو
وطن کی یاد ے خوب ستایا۔ مدینہ میں آتے ہی حضرت بلال ؓ اور ابوبکر صدیق ؓ
بخار میں مبتلا ہو گئے جب کچھ صحت یابی ہوئی تو یہ اشعار پڑھے:
أَلَا لَیْسَتَ شِعْرِیْ ھَلْ أَبِیْتَنَّ لَیْلَۃً
کاش! پھر مکہ کی وادی میں رہوں میں ایک رات
بِوَادٍ وَ حَوْلِیْ إِذْخِرٌ وَ جَلِیْلُ
ایسی وادی میں کہ جہاں میرے ارد گرد جلیل واذخر ہوں
وَ ھَلْ أَرِدْنَ یَوْمًا مِیَاہَ مَجَنَّۃٍ
اور کاش مجنہ کے چشموں پر حاضری دوں۔
وَ ھَلْ یَبْدُوْنَ لِیْ شَامَۃٌ وَ طَفِیْلُ
کاش! پھر دیکھوں میں شامہ کاش! پھر دیکھوں طفیل
یہ حالت زار دیکھ کر رسول اﷲ ؐ نے کہا:
اے میرے اﷲ! شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور اُمیہ بن خلف مردودوں پر
لعنت فرما۔ انہوں نے ہمیں اپنے وطن سے اس وبا کی سر زمین کی طرف نکالا۔ پھر
آپ ؐ نے مدینہ کی محبت اور وہاں سے وباء و بیماری کے رفع کی دعا کی۔’’اے
اﷲ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت اسی طرح پیدا کر دے جس طرح مکہ کی محبت
ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اے اﷲ! ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت عطا
فرما اور مدینہ کی آب و ہوا ہمارے لیے صحت خیز کردے یہاں تک کے بخار کو
حجفہ میں بھیج دے‘‘
صحیح بخاری (۱۸۸۹) (۵۶۵۴)
اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور مدینہ نہ صرف آب
و ہوا بلکہ ہر لحاظ سے ایک جنت کا نمونہ بن گیا۔ اور اﷲ نے اسے ہر قسم کی
برکتوں سے نوازا اور سب سے بڑا شرف جو کائنات عالم میں اسے حاصل ہے وہ یہ
کہ یہاں سرکارِ دو عالم رسول اکرم ؐآرام فرما رہے ہیں۔
آپؐاپنے وطن کے متعلق کہا کرتے تھے سیدناعبد اﷲ بن عباسؓکہتے ہیں کہ رسول
اﷲؐ نے مکہ کے لیے فرمایا:
’’کس قدر تو پاکیزہ شہر اور مجھے محبوب ہے اور اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ
نکالتی ‘میں تیرے سوا کہیں سکونت اختیار نہ کرتا‘‘ ترمذی(۳۹۲۶)صحیح
عبد اﷲ بن عدی بن حمراء کہتے ہیں میں نے رسول اﷲؐکو دیکھا کہ اپنی اونٹنی
پر حزورۃ کے مقام پر کھڑے تھے آپ فرما رہے تھے:
اﷲ کی قسم!اﷲ کی زمین میں سب سے بہتر ین اور اﷲ کی زمین میں مجھے سب سے
زیادہ پیارا ہے‘اگر مجھے تیرے اندر سے نکالا نہ جاتاتو میں کبھی نہ نکلتا۔
ترمذی (۳۹۲۵)صحیح
مالک بن حویرثؓبیان کرتے ہیں کہ :’’میں اپنی قوم کے چند لوگوں کے ساتھ رسول
اﷲ ؐکے پاس آیا،ہم آپ کے پاس بیس راتیں ٹھہرے،آپؐبہت رحم کرنے والے،نرم دل
تھے،جب آپ نے ہمارا اپنے گھر والوں کے متعلق شوق محسوس کیا تو فرمایا:جاؤ
اپنے اہل وعیال مین چلے جاؤ اور انہیں دین،نماز سیکھاؤ،اور جب نماز کا وقت
ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو عمر رسیدہ ہو وہ امامت
کرائے۔‘‘صحیح بخاری(۶۲۸)
ہر سال 14اگست کا دن جب آئے تو جشن ِ آزادی کیسے منائیں۔یہ ذہین میں رہے کہ
آزادی کا مفہوم دین اسلام پر عمل پیرا ہونے کے لیے آزاد ملک کا پاسبی آزاد
ہے نہ کہ جشنِ آزادی منانے والا ہر گناہ کے لیے آزاد ہے اسے کوئی پوچھنے
والا نہیں ۔نہیں نہیں آج ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی غلامی کا شکار ہیں
۔ہماری ثقافت و تہذیب ،آئین و قانون ،عدلیہ اور اقضیہ سب انگریز کی غلامی ک
بعد بھی ۔۔۔کے غلام ہیں ہمارا داہنا بازو (مشرقی پاکستان )کاٹ دیا گیا ۔
حکمران کافروں کی چاپلوسی کرنے پر مجبور ۔۔کیا یہ آزادی ہے اور یہ جشن کس
چیز کا جشن ہے ۔
آج ہم ۱۴ اگست جشن آزادی کے نام پر سرکاری غیر سرکاری عمارتوں کو سبز ہلالی
جھنڈیوں سے سجا کر ،لال ،پیلی بتیوں ،مانوس کی زیبائش کر کے ،شراب و کباب
کی محافل سجا کر ملک و ملت کے ازلی دشمن بھارت کی فحش بے ہودہ فلموں کو
دیکھ کر ،نائٹ کلبوں میں عریاں اور تھرکتے جسموں کی نمائش کروا کر ،موٹر
سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر اور آلودگی پھیلاتی گاڑیوں کے پریشر ہارن بجا
کر مناتے ہیں۔اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ملک ِ
پاکستان دیا تھا اس کی خوشی منا رہے ہیں ۔لاکھوں شہیدوں کی روحوں کو ایصال
ِ ثواب پہنچا رہے ہیں ۔ آئیے محمد کریمؐکو جب اﷲ خوشی دیتا تھا ۔تو ان کی
حالت کیا ہوتی تھی:
’’جب رسول اﷲؐ کو کوئی خوشی والا معاملہ یا خوشخبری ملتی تو اﷲ کے حضور
سجدہ میں گر پڑتے(اور شکرانے کا سجدہ کرتے)‘‘ ابو داؤد(۲۷۷۴)
حضرت علیؓ کو نبی کریمؐ نے یمن کی طرف روانہ کیا وہاں جاکر حضرت علی ؓنے
اہل یمن کے قبول اسلام کی خوشخبری آپؐ کو بطور خط لکھ کر سنائی تو جب:
’’رسول اﷲ ؐ نے وہ خط پڑھا تو اس پر اﷲ کا شکر ادا کرنے کیلئے سجدے میں گر
گئے۔‘‘ البیھقی(۲؍۳۶۹)
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ؐ نے فرمایا:
’’میں مومنوں کے بارے میں اﷲ کے فیصلے پر تعجب زدہ ہوا کہ اگر مومن کو
بھلائی(خوشی وخیر)پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی حمد اور شکر کرتا ہے اور اگر
مصیبت پہنچتی ہے تو اپنے رب کی حمد اور صبر کرتا ہے (پھر فرمایا)مومن کو ہر
چیز کے بدلے اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اپنی بیوی کے منہ میں آجانے والے لقمہ
کا بھی۔‘‘
مسند احمد(۱؍۱۷۳)صحیح
صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:’’اگر مومن کو خوشی پہنچتی ہے تو وہ
اﷲ کا شکر کرتا ہے اور یہ اسکے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے
تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ بھی اسکے حق میں بہتر ہے‘‘ صحیح مسلم
(۷۵۰۰)(۲۹۹۹)
اﷲ تعالیٰ نے بھی قرآن میں یہی حکم سنایا ہے کہ ہر نعمت کا شکر ادا کرو نا
قدری نہ کرو۔
’’پس مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو میری
(نعمتوں کی)نا شکری نہ کرو‘‘ سورۃ البقرۃ(۲؍۱۵۲)
’’اﷲ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اگر تم اسکی عبادت کرتے ہو ‘‘ سورۃ النحل(
؍۱۱۴)
خوشی کا سبب بننے والے کا بھی شکریہ ادا کرو‘حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ
رسول اﷲؐ نے فرمایا:’’جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اﷲ کا شکریہ ادا
نہیں کر سکتا ۔‘‘
سنن ابی داؤد(۴۸۱۱)
ظفر آدمی نہ اس کو جانئیے گا ہو وہ کتنا بھی صاحب فہم و ذکاء
جسے عیش میں یا د خد ا نہ رہا جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا |