ٹریڈیونینز کے بارے میں محترم چیف جسٹس کے ریمارکس

پاکستان کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آئین میں نہ لکھا ہوتا تو ٹریڈیونین پر پابندی لگادیتا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ ٹریڈیونینز نے نظام کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ محترم چیف جسٹس نے یہ ریمارکس 25جولائی کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایک مقدمے کے دوران ارشاد فرمائے۔ چیف جسٹس کے ان ریمارکس پر محنت کشوں میں سراسیمگی پھیل گئی ہے۔

یہ اس ملک کی مزدور تحریک کی بڑی بدقسمتی ہے کہ 71 سال تک کام کرنے کے باوجود ٹریڈیونینیں اور ان کے قائدین معاشرے کے لکھے پڑھے طبقے کی طرف سے کماحقہ عزت اور احترام حاصل نہ کرسکے، اور آج بھی ان کے بارے میں ایک منفی ذہن کام کررہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس منفی ذہن کے تشکیل پانے کی کچھ حقیقی وجوہات بھی ہیں لیکن ٹریڈیونین کارکنوں کے اس ’انبوہِ کثیر‘ میں ایسے افراد نہ پائے جاتے ہوں جنھوں نے تحریک کو صرف حقوق کی جدوجہد ہی تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ذمہ داریوں کی ادائیگیوں پر بھی آمادہ اور متحرک کیا ہے۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن ٹریڈیونین قائدین کے کردار کی وجہ سے منفی ذہن بنا ہے وہ خود ہمارے کارخانوں کی انتظامیہ کے منفی طرزِعمل کا ایک ردِعمل ہے۔ واضح رہنا چاہیے کہ ٹریڈیونین تحریک سے ہماری وابستگی صرف ملک کے دستور ہی کی وجہ سے نہیں ہے، گوکہ یہ اصلاً وابستگی ہے اور اسی لیے یہ دستوری آزادی اور وابستگی 1956ء سے لے کر 1973ء تک ملک کے ہر دستور میں موجود رہی ہے۔ بلکہ اس ضمن میں ہمارا ایک بین الاقوامی commitment بھی ہے یعنی آئی ایل او کے کنونشنز۔

یہ بھی عجیب بات ہے کہ اسی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں یہ واضح کیا ہوا ہے کہ اگر آئی ایل او کنونشنز کی ہم نے کوئی توثیق نہ کی ہوتی تو ہمارے دستور میں نہایت وضاحت کے ساتھ انجمن سازی اور اجتماعی سودے کاری کی آزادی موجود ہے۔ اور ہماری یہ دستوری آزادی ان کنونشنز سے بھی زیادہ مضبوط، مستحکم اور مؤثر ہے۔ بلکہ ہماری یادداشت کے مطابق اسی فیصلے میں جو غالباً سول ایوی ایشن کے کیس میں کیا گیا ہے، سپریم کورٹ نے یہاں تک وضاحت کردی ہے کہ اگر انجمن سازی کی آزادی کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی قانون بھی نہ ہوتا تو بھی ہمارے دستور میں دی ہوئی آزادی پوری طرح مؤثر بعمل ہے۔ جہاں تک اجتماعی سودے کاری کا تعلق ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی نظم اور مکینزم سی بی اے اور انتظامیہ کے درمیان کنٹریکٹ کے ذریعے سے عمل میں آسکتا ہے۔ لیکن یہ انتہائی تکلیف کی بات ہے کہ آج اسی سپریم کورٹ سے آئین میں دی ہوئی آزادی کو ایک بوجھ سمجھا جارہاہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ محترم چیف جسٹس صاحب نے عجلت میں ظاہر کردہ جن خیالات کا اظہار کیا ہے، ضرور کسی مناسب موقع پر ان کی وضاحت فرمائیں گے اور صنعتی تعلقات کو مستحکم کرنے، پیداواریت میں اضافے اور صنعتی امن کو قائم کرنے میں ٹریڈیونین کا جو کردار ہے اور جس میں غیرمعمولی اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے، اس کی تائید فرمائیں گے۔
 

Prof Shafi Malik
About the Author: Prof Shafi Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.