تحریر: زینب حسنی، پشاور
وہ آج پھر دروازے کو ٹھوکر مارتے ہوئے گھر آیا۔ اندر آتے ہوئے سب سے پہلے
نظر اپنی 3سالہ بیٹی گڑیا پر پڑی جو ہاتھ میں چاند تاروں والا سبز اور سفید
پرچم لیے اپنی توتلی زبان میں ’’پاتتان پاتتان‘‘ گا رہی تھی۔ وہ چیل کی طرح
بھاگتا ہوا آیا اور اس کے ننھے ہاتھوں سے وہ پرچم لے کر نوچنے لگا۔ گڑیا
باپ کا یہ انداز دیکھ کر رونے لگی۔ اندر نماز کی نیت باندے مریم بھاگ کر
آئی، وہ حیدر کے پاؤں کے نیچے سبز پرچم دیکھ کر ہی سمجھ گئی کے کیا ماجرا
ہے، جلدی سے گڑیا کو اٹھا کر چپ کرانے لگیں۔ اتنے میں دادا جان بھی کمرے سے
نکلے، حیدر کو غصے میں دیکھ کر انھیں بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں دیر
نہیں لگی۔ حیدر کے پاؤں کے نیچے سبز پرچم کو دیکھ کر داداجان نے اپنے ہونٹ
بھینچ لیے اور بمشکل اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے بولے ’’ حیدر بیٹا آگیا
میرا شیر ادھر دادا کے پاس شاباش ‘‘۔ حیدر بمشکل اپنے اشتعال کو دباتے ہوئے
آیا اور چھوٹے سے برآمدے میں رکھی ہوئی چارپائی کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو داد
جان ایک مرتبہ پھر بولے ’’ آ نہ بیٹا آجاؤ شاباش میرا شیر بیٹھ جاؤ میرے
قریب‘‘۔ ’’ مریم بٹیا تو جا حیدر کے لیے ٹھنڈا پانی اور گرما گرم روٹی لے
آ‘‘۔ حیدر کو اپنے پاس بٹھا کر دادا جان نے مریم کو مخاطب کیا۔ مریم جو
خاموشی سے یہ سب دیکھ رہی تھی دادا جان کے کہنے پر باورچی خانے کی طرف بڑھ
گئی۔
اس پورے گھر میں 4افراد تھے دادا جان، حیدر مریم اور گڑیا۔مریم کو اس گھر
میں آئے ہوئے چوتھا سال تھا اور ان 4سالوں میں اس نے ایم اے کی ڈگری ہاتھ
میں لیے حیدر کو در در کی خاک چھانتے دیکھا تھا۔ حیدر کی پڑھائی مکمل ہونے
کے بعد ہی دادا جان نے اس کی شادی پڑوسیوں کی مریم سے کی تھی۔ مریم آٹھویں
جماعت پاس کیے ایک انتہائی سلجھی ہوئی باشعور لڑکی تھی۔ وہ محلے والوں کے
کپڑے سلائی کرکہ حیدر کا ہاتھ بٹاتی رہتی۔ ان چار سالوں میں وہ یہی کرتی
آئی تھی۔ ہر بار جب حیدر گھر سے نوکری کے لیے نکلتا تو اس پر خوب دعائیں
پڑھ کر پھونکتی رہتی کہ کیا پتا اس مرتبہ قسمت مہربان ہوجائے، حیدر کی
نوکری لگ جائے اور زندگی سہل جائے۔ آج بھی اس نے تہجد میں اٹھ کر اﷲ کے
حضور سجدہ ریز ہوکر حیدر کی کامیابی کے لیے خوب دعائیں مانگی اور حیدر کو
دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا تھا لیکن کئی بار کی طرح ایک مرتبہ پھر حیدر ناکام
ہوا لوٹ آیا تھا۔ حیدر اتنا تلخ نہیں تھا وہ شوخ اور ایک خوش طبع نوجوان
رہا تھا۔ لیکن پچھلے چار سالوں سے در در کی خاک چھاننے کے بعد بھی نوکری نہ
ملنے نے اسے تلخ بنا دیا تھا اسے اس ملک سے نفرت ہونے لگی تھی جہاں ڈگری کے
بجائے رشوت میں دیے گئے پیسوں کی اہمیت تھی۔ جب بھی وہ گھر ناکام لوٹتا تو
اس کی یہی حالت ہوتی وہ سارا الزام اس پاک سرزمین کو دیتا آج بھی یہی ہوا
تھا یوم آزادی کو 7دن ہی رہ گئے تھے لیکن اگست کے شروع ہوتے ہی محلے کے
بچوں نے سبز پرچم لینا شروع کر دیا تھا۔ گڑیا کے پاس پرچم کی بھی یہی وجہ
تھی دادا جان قریبی دکان سے سبزی لینے کے لیے گئے تو وہاں بچوں کے ساتھ
پرچم دیکھ کر ایک گڑیا کے لیے بھی لے آئے۔
ان 4سالوں میں مریم نے دادا جان کو ہر دفعہ یوم آزادی کا دن کو خوب جوش و
خروش سے مناتے دیکھا تھا۔ جب بھی وہ قوم کی خاطر کسی شہید کے بارے میں سنتے
تو اشکوں کا ایک سیلاب ان کے بوڑھی آنکھوں سے رواں ہوتا اگست کے شروع سے ہی
وہ گھر کو سجانے میں لگ جاتے تھے۔ اچھا بیٹا اب بتا کیوں اتنا غصہ کر رہا
تھا اور اس سب میں بھلا اس سبز پرچم کا کیا قصور تھا جسے تم نے بے دردی سے
پیروں تلے روند ڈالا۔ دادا جان نے چارپائی پر بیٹے خاموش حیدر کو مخاطب
کیا۔ بس وہ دادا جان نوکری نہ ملنے کی وجہ سے غصہ آگیا تھا، حیدر بے زاری
سے بولا ۔ اتنے میں مریم حیدر کے لیے کھانا لے کر آئی جسے وہ بے دلی سے
زہرمار کرنے لگا۔ کل 14اگست کی تاریخ تھی دادا جان کا شوق دیدنی تھا۔ وہ
بازار سے ڈھیر سارے چھوٹے بڑے پرچم لے آئے اور مریم کو آواز دی۔ مریم بٹیا!
مریم دوڑی دوڑی چلی آئی ، جی دادا جان۔ آؤ مریم بٹیا! میرے ساتھ ذرا کل کے
لیے اس گھر کے سجانے میں مدد تو کرو۔
دادا جان اور مریم دونوں ہی وطن عزیز کی یوم آزادی کی خوشی میں پرچم لگانے
میں مگن تھے کہ حیدر کمرے سے نکلا نظر سبز پرچموں کے ڈھیر پڑی تو گویا اسے
پتنگے لگ گئے۔ یہ سب کیا ہے دادا جان آپ اچھی طرح جانتے ہیں یہ بچوں والے
کھیل تماشے مجھے بالکل پسند نہیں اور ویسے بھی جس ملک نے ہمیں کچھ دیا ہی
نہیں اس کا یوم آزادی منانے کا کیا فائدہ۔۔؟؟ وہ تلخی سے بولا، اور مریم کے
سامنے سے پرچم اٹھا کر نوچ ڈالے۔ دادا جان کے آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے۔
مریم جو کب سے خاموش کھڑی یہ تماشہ دیکھ رہی تھی پھٹ پڑی ۔ واہ حیدر بہت
عمدہ خیالات ہیں آپ کے ۔کس قدر ناشکرے انسان ہیں آپ، محض ایک دولت نہ ملنے
پر یہ پاک وطن تمہارے لیے بیکار ہوگئی۔ آج اگر ہم روٹی کے لیے محتاج ہیں تو
اس میں اس مٹی کا کیا قصور۔۔؟؟ یہ پاک مٹی کبھی اناج دینا تو نہیں بھولی
آگر کچھ غلط ہو رہا ہے تو اس کی ذمہ دار یہ مٹی نہیں ہم ہیں حیدر ہم۔۔۔!!
حیدر کو مریم کے ساتھ گزرے 4سالوں میں کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا کے وہ اتنی
محب وطن ہے۔ وہ روتے ہوئے بولتی جارہی تھی۔ کروڑوں شہداؤں کے خون بہنے کے
بعد ہی تو ہمیں یہ پاک مٹی ملی اسی مٹی نے ہمیں غلامی کی زندگی سے نجات دی
ہمیں دنیا میں الگ پہچان دی ہمیں زندگی کو اپنے طرز پر گزارنا سکھایا،مگر
ہم نے کیا کیا بدلے میں سوائے بدنامی، رسوائی، مفلسی، بدحالی۔ یہ ہم ہیں
حیدر جس کی وجہ سے اس پاک سرزمین کا حسن نچڑ گیا، ہماری وجہ سے اس کی جڑیں
کھوکھلی ہو گئی ہیں۔
حیدر ہم۔۔۔۔ ہم بھٹکے ہیں، سیدھے راستے سے ہم نے اس وطن کی سرحدوں کو
دشمنوں کی اماج گاہ بنا ڈالا۔ اس مٹی کا اعتبار مجروح کیا ۔ اس پاک سرزمین
کے گنہگار ہم ہیں حیدر۔۔!! ہم تو اس پیارے وطن کے قابل ہی نہیں تھے یہ تو
شاید ان شہدا کا خون ہی اﷲ کریم کو عزیز تھا جس کی وجہ سے یہ پاک مٹی ہم بے
قدروں کے ہاتھ آئی۔ پوچھیں دادا جان سے انہوں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا
ہوگا نہ وہ قیامت خیز منظر جب ہندؤں نے مسلمانوں کے گھر بے دردی سے جلا
ڈالے تھے۔ حیدر کیا آپ نے کبھی دادا جان کی آنکھیں غور سے نہیں دیکھی کیا
آپ کو ان آنکھوں میں کوئی درد نظر نہیں آتا وہ درد جو کسی روح کو روح سے
جدا ہونے کے بعد ملتا ہے، جو کسی باپ کو بیٹے سے بیوی کو شوہر سے بچوں کو
ان کی ماں سے جدا کر کے ملتا ہے؟ نہیں نا کیونکہ آپ دیکھنا ہی نہیں چاہتے
میں نے دیکھ چکی ہوں ان آنکھوں کا حزن و ملال پڑھ چکی ہوں میں، ڈائری پڑھی
ہے میں نے ان کی، وہ دکھ جو یہ سہہ چکے ہیں محسوس کر چکی ہوں میں آپ کے
والدین آپ کے نانا، نانی آپ کی دادی آپ کے چچا کیا آپ کو کبھی اس مٹھی سے
ان کے خون کی خوشبو نہیں آئی سب جل کر راکھ ہوگئے تھے وہ اس وطن کو آزاد
کرنے میں جل چکے تھے وہ اب چیخ چیخ کر رونے لگی تھی۔ دادا جان نے آگے بڑھ
کر اسے گلے لگایا وہ خود بھی رو رہے تھے اپنوں کی جدائی کا غم تازہ ہونے
لگا تھا۔ حیدر وہ تو جیسے سکتے کی سی حالت میں تھا۔ پیروں تلے روندے ہوئے
پرچم اٹھائے اور چیخنے لگا۔ میری ماں کا لہو تھا اس مٹی میں اور میں اسی کو
برا بھلا کہتا رہا ۔ میرا باپ جس کی انگلی پکڑنے کے لیے میں ہمیشہ ترسا ان
کی راکھ تھی اس مٹی میں اور میں اس کی ناقدری کرتا رہا، وہ آگے دادا جان کی
طرف آیا۔ دادا جان! آپ نے بھی مجھے نہیں سمجھایا میں گنہگار رہا اپنوں کی
لہو کا۔ وہ سبز پرچموں کو بے اختیار چومتا دھاڑے مار مار کر رونے لگا تھا۔
14 اگست کی صبح ان تینوں کے لیے بہت ہی خوش آیند تھی حیدر کل سارا دن رو رو
کہ اﷲ تعالی اور دادا جان سے اپنے ناشکرے پن کی معافیاں مانگتا رہا، اس عزم
کے ساتھ کے اب چاہے جیسے بھی حالات بنیں وہ اپنی طرف سے وہ علم جو اس ملت
نے اسے دیا ہے، اوروں میں منتقل کرے گا اور اگلے دن ان کے گھر کے باہر’’
النور سینٹر ‘‘ کے نام سے ایک بورڈ لگا تھا جس میں نہایت مناسب فیس میں کم
آمدنی والے افراد کے بچوں کے لیے تعلیم کا بندوبست کیا گیا تھا، اسے اپنی
مٹی کا قرض لوٹانا تھا۔
|