بچپن عمر کاسب سے خوب صورت دور ہے۔اس کو بے فکری سے تعبیر
کیاجاتاہے۔ معصومیت بچے کا اصل سر مایہ ہو تی ہے۔لیکن کبھی کبھی اس کے بر
عکس بھی ہو تا ہے بچوں کا جنسی استحصال کر کے ان سے بے فکری اور لاعلمی چھن
لی جا تی ہے کوئ جنسی درندہ اپنی وقتی تسکین کے لئے کسی بچے کو نشانہ بنا
تا ہے تو اس کے بعد کا ٹروما بچے کی ساری زندگی پہ اثر انداز ہو تا ہے-دنیا
کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی جنسی زیادتی کے واقعات میں دن بدن
اضافہ ہو تا جارہا ہے ہر سال ہزاروں بچے اس ظلم کا شکار ہو تے ہیں-اور ساری
زندگی اس ناکردہ گناہ کی سزا بھیجتے ہیں ۔
بچوں کو ایسے خوف کا شکار کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی زبان کھول نہیں پاتے
اپنے ماں باپ تک کو نہن بتاتے-اور جو بتا دیتے ہیں ان کے ماں باپ معاشرے کے
ڈر سے ان کے ساتھ ہو نے والی زیادتی پہ خاموش رہتے ہین ۔زیادہ تر کیسز
رجسٹر نہن ہو پا تے اور جو ہو جائیں ان پہ فیصلہ نہن ہو پاتا۔ان کیسز میں
زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے جن کی عمر نو سے گیارہ سال تک ہے-انفرادی واقعات
کے بعد اب تو اجتماعی واقعات نے بھی قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔قصور
کاواقعہ جس میں ایک پورا گینگ پکڑا گیا جو کہ تقریباً چار سو بچوں پر جنسی
تشدد کر کے ان کی ویڈیوذ بنا تا اور پھر ان کو بلیک میل کرتا تھا ۔پاکستان
کی تقریباً چالیس فی صد آبادی پندرہ سال سے کم عمر افراد پہ مشتمل ہے آبادی
کا یہ حصہ ہمارا مستقبل ہے سب سے گمبھیر مسلئہ بچوں کا جنسی استحصال
ہے۔لیکن اس کو حل کر نے کی بجائے والدین اساتذہ اور حکومت مجر مانہ خاموشی
اختیار کیے ہوئے ہیں۔بچوں کو جنسی استحصال سے محفوظ رکھنے کے لئے بچوں اور
والدین کا بہت ضروری ہے۔بچوں سے کھل کر بات کی جائے ان کو آگہی اور شعور
دیا جائے تاکہ وہ گڈ اور بیڈ ٹچ میں فرق کر سکیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری
رہنا چاہئیے ۔ اس قسم کے ظلم سے بچوں میں جو نفسیاتی مسائل پیدا ہو تے
ہیں۔جو عمر بھر پیچھا کر تے ہین بچے عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ان کی
زہنی صلاحیتیں مفلوج ہو نے لگتی ہیں ڈر خوف عدم اعتماد اور تنہائ جیسی
کیفیات پیدا ہو نے لگتی ہیں بچوں کا جنسی استحصال کوئ نیا مسلۂ نہن لیکن آج
کل جس تواتر سے اس قبیح فعل کی خبریں گردش میں آرہی ہیں وہ لمحہ فکریہ
ہے۔صحت مند معاشرہ کے فروغ کے لئے روشن پاکستان کی تکمیل کے لئے ایسے مسا
ئل پہ تو جہ دینا ہو گی۔
|