چھوٹا منہ اور بڑی بات یہ کہاوت تو زندگی میں سنی اور بار
ہا آزمائی۔مگر چھوٹے قلم سے بڑے بڑے کام بہت کم دیکھنے اور پڑھنے کوملتے
ہیں۔ لکھنے کا ہنر کسی بھی لکھاری کے پاس ایک خداداد صلاحیت ہوتا ہے، مگر
اس صلاحیت کو با مقصد طریقوں سے استعمال کرنا کوئی کوئی جانتا ہے۔ پاکستان
جیسے ملک میں جہاں ادب کو باقاعدہ پروموٹ کرنے کے لیے اداروں کا فقدان ہے۔
ایسے ملک میں ایک کم سن پختہ قلم کار کا ہونا قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے۔
اور میں ایسی ہی بہت پیاری اور ذہین قلم کارفلک زاہد کا ذکر بہت فخر کے
ساتھ کرنا چاہوں گی۔ میں نے فیس بک پر فلک زاہد کی کتاب کے بارے میں پڑھا
اور پھر ان سے فون پر بات کی، مجھے وہ بہت معصوم اور پیاری بچی معلوم ہوئی،
اور مجھے ان سے بات کر کے دلی خوشی ہوئی۔ بعد میں فلک زاہد کی کتاب کا
مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا۔ اور ننھی سی پیاری لکھاری مجھے اٹھارہ سال پہلے
کے دور میں واپس لے گئی جب میں عمران سیریز کی کہانیاں بہت شوق سے پڑھا
کرتی تھی۔ فلک زاہد کی کہانیاں پڑھ کر وہی خوف اور تجسس خون میں گردش کرتا
ہوا محسوس ہوا۔ اور پڑھتے ہوئے کہیں بھی ایک پل کے لیے ایسا محسوس نہیں ہوا
کہ میں کسی کم سن لکھاری کے قلم سے لکھی ہوئی داستان پڑھ رہی ہوں۔ لفظوں کی
پختگی، ماحول کی منظر کشی، چلتے پھرتے کہانی کے کردار، خوف و تجسس کی فضاء
مکمل طور پر قاری کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ فلک زاہد جس کو بچپن سے ہی
جاسوسی کہانیاں پڑھنے کا شوق تھا، اْس نے اپنے اس شوق کو بہت محبت اور لگن
کے ساتھ ایک تخلیقی شکل دی۔ تخلیق کا تعلق کسی فکری سوچ کو عملی صورت دینا
ہے اور وہ تخلیق نثر، نظم،افسانہ وغیرہ کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ فلک زاہد
کی تحریروں میں ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی تحریروں کا موضوع موجودہ
وقت کے نوجوان لکھاریوں سے مختلف اپنایا، عموماً اس عمر میں بہت سے نئے
لکھاری لکھنے کی ابتداء رومانوی نظموں وغیرہ سے کرتے ہیں، اور اگر افسانہ
کی طرف بھی آئیں تو معاشرتی کہانیوں کو جو اْن کے ماحول کا حصہ ہوتی
ہیں،زیرِ موضوع لاتے ہیں۔ لیکن فلک زاہد نے داخلی اثر قبول کرنے کی بجائے
اندرونی اثر قبول کیا یعنی جس قسم کی تحریریں فلک زاہد کے مطالعہ میں شامل
رہی ہیں، اْس نے وہی ماحول اور صورتِ حال اپنی کہانیوں میں پیدا کی، اس طرح
فلک زاہد کی تحریریں یورپی ماحول کا اثر قبول کرتے ہوئے فوری طور پر قومی
سے بین الاقوامی تحریروں کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ کیونکہ فلک زاہد کی
تحریریں مخصوص علاقے اور ماحول کے اثر سے نکلتی ہوئی دنیا میں پھیلے تمام
معاشروں کو اپنے احاطہ میں لاتی ہیں۔ اور میں یہ بات دعویٰ کے ساتھ کہہ
سکتی ہوں اگر فلک زاہد کی ان کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو یہ
بین الاقوامی شہرت کی حامل ہوں گی۔ اس کی تحریریں قاری کو موجودہ جذباتی
خساروں اور گھٹن کے ماحول سے نکالتے ہوئے حقیقت کی دنیا تک لے جاتی ہیں۔
جہاں انسان کی سوچ کے زاویے بدل جاتے ہیں، اور سوچنے کی صلاحیتیں بیدار ہو
جاتی ہیں۔ فلک زاہد کی تحریروں کا موضوع میرے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک
ہے۔ اور میں اس بات کی قائل ہوں کہ زندگی کو دوشاخہ تلوار کی طرح ہونا
چاہیے، کسی ایک نقطہ پر رک جانا گویا سوچ کو مقید کرنا ہے۔ لکھاری فطری طور
پر بھی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، اور اس قسم کی تجسس سے بھرپور کہانیاں
زندگی کو متحرک رکھتی ہیں۔ اور موضوعات کی رنگینیوں میں اضافہ کا باعث بنتی
ہیں۔ فلک زاہد جیسے لکھاری ہمارے ملک کی پہچان اور اثاثہ ہیں۔ اور میں تمام
ادیبوں سے امید کرتی ہوں کہ وہ ہمارے ادب کے اس ضوفشاں ستارے کی بھرپور
حوصلہ افزائی کریں گے۔ اور جن لوگوں نے اب تک فلک زاہد کو نہیں پڑھا وہ
ضرور پڑھیں۔ فلک زاہد کے مستقبل کے لیے بہت سی نیک خواہشات اور دعائیں۔ میں
امید کرتی ہوں کہ فلک زاہد اپنی صلاحیتوں کی شمعیں روشن کیے ان شاء اﷲ آگے
بہت آگے بڑھتی جائیں گی۔ اور ان کی تحریروں کو عالمی شہرت حاصل ہو گی۔ |