پنجاب یونیورسٹی ہمیشہ اپنے ملازمین اور اساتذہ کو تنخواہ
اور پنشنرز کو پنشن کی ادائیگی ہر مہینے کے آخری تاریخ کو کر دیتی ہے۔اس
مہینے بنک کا سسٹم صحیح کام نہ کر سکا، کچھ آہستہ چلا۔ جو اس ملک میں عام
طور پر کام زیادہ ہونے پر ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے اور الزام سسٹم پر
کہ کمپیوٹر ائزڈ ہے اور ہمارا تھکا ہوا کمپیوٹر ہی کام نہیں کرتا۔ یہ حادثہ
پچھلے ماہ بھی پیش آیا تھا اور لوگوں کو پچھلے ماہ ان کے واجبات تین دن دیر
سے ملے تھے۔ اس وقت تو لوگ برداشت کر گئے مگر اس ماہ جب دوسری دفعہ ایسا
ہوا تو یونیورسٹی کے ملازمین نے زبردست احتجاج کیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا
موقف تھا کہ انہوں نے ہمیشہ کی طرح تمام رقم ایک دن پہلے بنک کو منتقل کر
دی تھی اس لئے وہ کسی بھی کوتاہی سے بری الذمہ ہیں۔ بنک والے بھی یہ بات
مانتے ہیں اور اسے سسٹم کی ناکامی قرار دیتے ہیں کہ جس پر ان کا اختیار
نہیں تھا۔ مگر جب اتنے بہت سے ملازمین اکھٹے ہوں تو احتجاج تو بنتا تھا۔
چنانچہ احتجاجاًپنجاب یونیورسٹی کے تمام ملازمین اولڈ اور نیو کیمپس میں
واقع بنکوں کی برانچوں کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھے رہے۔
ویسے پنجاب یونیورسٹی کے حالات بھی ملکی حالات سے بہت ملتے جلتے لگتے ہیں۔
شہباز شریف ،جو دس سال تک پنجاب کے سیاہ وسفید کے مالک رہے ہیں، کے چہیتے
عمر سیف کا الیکشن کمیشن کے لئے بنایا ہوا سسٹم بھی بیٹھ گیا اور کئے گھنٹے
بیٹھا رہا۔ اب بیٹھے ہوئے کو اٹھانا یا تو ذمہ داران چاہتے ہی نہیں تھے یا
پھر بیٹھے ہوئے کی اپنی مرضی اٹھنے کی نہیں تھی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یہ
سب تو اﷲجانتا ہے یا پھر شہباز شریف کہ جس نے عمر سیف جیسا ہیرا بڑی محنت
سے ڈھونڈھ کر آئی ٹی یونیورسٹی کا وائس چانسلر لگایا ہوا ہے، حالانکہ اس
فیلڈ میں ان سے بہتر بھی بہت سے لوگ تھے مگر افسوس وہ لوگ کسی اچھے حوالے
سے محروم تھے۔ اب اپوزیشن احتجاج کر رہی ہے کہ زیادتی ہو گئی مگر کس نے کس
کے ساتھ کی۔ یہ کسی کوکچھ پتہ نہیں۔ جیتنے والے خوش ہیں کہ جیت گئے۔ ہارنے
والے فارغ بیٹھے تھے ۔ان میں سے کسی ایک نے شوشا چھوڑا۔باقی سارے ساتھ لگ
گئے۔ انہیں شغل میسر آ گیا ہے چلیں کچھ دن تو مصروفیت میں گزریں گے۔ویسے
ہمارے ملک کا مزاج ایسا ہی ہے کہ جیسے اقبال نے کہا ہے ’’وہ ناداں گر گئے
سجدوں میں جب وقت قیام آیا‘‘۔ ہمارے لوگوں کا اور ان کے بنائے ہوئے سارے
سسٹمز کا کمال یہی ہے کہ کام کے وقت کہیں سجدے میں نظر آتے ہیں۔کچھ ہو نہ
ہو ،جانے کیوں ہمارے سسٹم بیٹھ جاتے ہیں ،گو یہ خوبی اصل میں گدھے کی سمجھی
جاتی ہے کہ کام کے وقت بیٹھ جاتا ہے مگر گدھے کھا کھا کر کچھ کچھ اثر ہم
بھی دکھانے لگے ہیں۔ ہر جگہ کام کی زیادتی اور نیت کی خرابی کی وجہ سے یا
تو سسٹم بیٹھتا ہے یا متعلقہ اہلکارکام کی زیادتی سے گھبرا کر چھٹی پر گیا
ہوتا ہے۔
بات ہو رہی تھی اپنے بنکوں کی ۔ہمارا ایک بنک تھوڑا بہت سرکاری ہے اور
ہماری قومی روایت یہ ہے کہ سرکاری شعبے میں کوئی بھی چیز نہ تو سلامت رہتی
ہے اور نہ ہی ٹھیک کام کرتی ہے۔چنانچہ ہمارے قومی بنک یا نیشنل بنک کی صورت
حال بھی کمال ہے ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کا سسٹم کب بیٹھتا اور کب کھڑا
ہوتا ہے۔ میں ایک ریٹائرڈ استاد ہوں۔ میری پنشن نیشنل بنک ماڈل ٹاؤن میں
آتی ہے۔اصولی طور پر یہ پنشن ہر مہینے کی یکم تاریخ کو مل جانی چاہیے مگر
پچھلے تین ماہ سات تاریخ کو ملتی رہی ہے۔ اب پتہ نہیں ہر مہینے سسٹم بیٹھا
ہوا ہوتا ہے یا کوئی متعلقہ اہلکار سسٹم پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔اس ماہ اتفاق
سے مجھے چار تاریخ کو پنشن مل گئی بس سمجھیں عید کا سماں ہے۔ پنجاب
یونیورسٹی کے ملازمین خوش قسمت ہیں کہ اکٹھے ایک جگہ موجود ہوتے ہیں ۔
احتجاج کے لئے کسی تگ و دو کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس ایک کال اور سب
موجود۔میرے جیسے ریٹائرڈ لوگ کیا کریں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ کیسے اکھٹے ہوں ،
کیسے احتجاج کریں۔لے دے کر ایک منت ہے جو بنک والوں کو کی جا سکتی ہے مگر
اس کی بھی صورت حال بھی بڑی مشکل ہوتی ہے۔
میرا گھر ماڈل ٹاؤن سے تقریباً پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر رائے ونڈ روڈ پر
ہے۔ میں اپنے تمام کام دوپہر ایک بجے یونیورسٹی اپنی کلاسز سے فارغ ہونے کے
بعد کرتا ہوں۔ پنشن کے سلسلے میں کسی مشکل کی صورت میں ایک بجے کے بعد بنک
جاؤ تو بنک تین بجے تک بند ہوتا ہے۔ میں نے ارد گرد بہت سے بنک دیکھے ہیں
جب سے صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک لگاتار بنکنگ کا تصور آیا ہے ،کوئی
دوسرا بنک اس دوران چند لمحوں کے لئے بھی بند نہیں ہوتا۔ مگر سرکاری بنک
ہونے کی وجہ سے یہ سہولت تو ہے کہ نیشنل بنک ماڈل ٹاؤن میں تین بجے تک
باقاعدہ تالا لگا ہوتا ہے کہ دوپہر کھانے کا وقفہ ہے۔ تین بجے تالا کھل
جاتا ہے اور عموماً اگربنک ملازمین لیٹ نہ ہوں تو سوا تین بجے تک آنا شروع
ہو جاتے ہیں۔ اب دوپہر ایک بجے یونیورسٹی سے فارغ ہو کر سوا تین بجے تک
نیشنل بنک کے شہزادگان کا انتظار بہت دوبھر ہوتا ہے اتنے لمبے انتظار کے
لئے تو بنک کو قیام اور طعام کی سہولتیں بھی فراہم بھی کرنا چاہیں۔جو نہیں
ہوتیں۔ اس لئے فقط کوفت ہی ہوتی ہے۔ قومی بنک کے عملے کو یہ اعزاز بھی حاصل
ہے کہ ان میں مسکرانا اور ہنس کر بات کرنا بھی کسی کسی کو آتا ہے۔ پنشن لیٹ
ملنے کی شکایت پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ان کی اپنی روٹین ہے جو وہ نہ بدلتے
ہیں نہ بدل سکتے ہیں۔ یہ شکایت میری نہیں۔ مجھے لیٹ ہونے کی صورت میں شاید
کوئی خاص مشکل پیش نہ آتی ہو۔ مگر نیشنل بنک سے پنشن وصول کرنے والے ہزاروں
لوگ بنک کی کارکردگی سے غیر مطمن ہیں۔یہ دور مقابلے کا ہے ،افسوس اس بات کا
ہے کہ تنخواہوں کی دوڑ میں نیشنل بنک کے تمام ملازمین بشمول ان کے صدر کے
بہت آگے ہیں۔ مگر دیگر چیزوں میں اس کی حالت افسوسناک ہے۔ امید ہے کہ سٹیٹ
بنک اور نئی حکومت اس صورت حال کا تدارک کرے گی اور اس موجودہ کھٹارا بنک
کو پرائیویٹ بنکوں کے مقابلے میں ایک بہتر بنک بنانے کی سعی کرے گی۔ |