ماہِ اگست شروع ہوتے ہی چہار سو ہریالی نظر آتی ہے۔ گلی
محلوں سے گزر ہو یا پھر بازاروں، مارکیٹوں سے، گردو نواح پر نظر ڈالیں تو
ہریالی ہی ہریالی دکھائی دیتی ہے۔ برقی قمقمے، روشنیاں، جھنڈیاں۔ جی خوش ہو
جاتا ہے کہیں سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے تو کہیں سبز و سفید رنگ کا تقرب
جی خوش کرنے کو کافی ہوتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ یہ سب مصنوعی ہوتا
ہے۔ جو ماہ اگست کے گزرتے ہی اتر جاتا ہے۔ ہم چودہ اگست تک ہر چیز پر سبزہ
و سفیدی چڑھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے جسم پر بھی مختلف النوع سبز اشیاء کا
استعمال کرتے ہیں۔ سر کے بالوں سے پاوں کی جوتیوں تک، بال، ناخن، چہرے پر
ماسک، گاڑی پر سبز رنگ یا پھر پرچم سے ڈھک دیتے ہیں۔ گھر کی چھتوں سے لے کر
گلی محلے کے کواڑوں تک، کچے گھروں کی منڈیروں سے کوٹھی بنگلوں کے ٹیرس تک،
دکانوں، اسکولوں، بازاروں سمیت ہر جگہ کو سبز کر دیتے ہیں۔ سبز و سفید رنگ
کے ملاپ سے وطنیت کا نعرہ اخذ کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب سجاوٹیں، رونقیں آزادی
کے جشن کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں۔
اس ماہ میں ہمارا جذبہ حب الوطنی اس زور سے اچھل اچھل کر ابل رہا ہوتا ہے
کہ ہمارا بس نہیں چلتا کیسے ہم دنیا جہاں کو سبز و سفید کر دیں۔ حتی کہ اس
روز ہم دیکھنا بھی سبز ہی چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے ہم سبز عینک کا سہارا
لیتے ہیں۔ بقول شخصے ہمارا تو بس نہیں چلتا کہ ہم کھائیں بھی یہ ہریالی اور
نکالیں بھی یہی ہریالی، یعنی ہر شئے کا رنگ سبز چاہتے ہیں۔ بعض مقامات پر
تو باقاعدہ مقابلہ کروایا جاتا ہے کہ کون اس دن اپنی دکان، اسکول، کلاس کو،
اپنی گلی، اپنی گاڑی کو زیادہ خوبصورت سجائے گا؟ جو جیتا وہی سکندر.....جیتنے
والا ڈھیروں انعام کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اور یہ کوئی عیب نہیں بہت اچھی
بات ہے۔ وطن سے محبت ایسی ہی ہونی چاہیے۔ زرا دیر کو سوچیے!! اس پر ہم کتنا
پیسا خرچ کرتے ہیں؟ ضرور کرنا چاہیے۔ وطن سے محبت میں وطن پر لٹانا کوئی
بری بات تو نہیں۔ لیکن اتنا خرچہ کرنے کے باوجود یہ ہری بھری سجاوٹ چند دن
کی ہوتی ہے اس کے بعد ختم، سوائے اس جھنڈے کے جو آپ نے اپنے گھر کی چھت پر
لگایا وہ بھی چند دن بعد پھڑپھڑا، پھڑپھڑا کر جان دے دیتا ہے۔
کیا ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ ایسی سجاوٹ کا سامان کریں جس سے ہمارا ملک سال
بھر ہریالی سے سجا رہے؟ اور آنے والے وقت میں بھی اس کی سجاوٹ برقرار رہے۔
کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم اس مصنوعی ہریالی کو قدرتی ہریالی سے بدل دیں؟؟
وطن پر ایسا رنگ چڑھائیں جو پھیکا نہ ہو؟ جس کا اثر تا دیر قائم رہے۔ تو
بالکل ایسا ممکن ہے۔ ہم وطن پر رنگِ برگ و شجر سے ایسی خوبصورت چادر چڑھا
سکتے ہیں جس سے چہار سو حقیقی ہریالی پھیلے۔ جس کا رنگ ہمیشہ تازہ رہے زائل
نہ ہو۔ خوش رنگ و خوش نما ایسا کہ موسم کا بدلاو اس پر اثر انداز نہ ہو
بلکہ وہ موسم پر اثر انداز ہو جائے۔ سوچیے!چودہ اگست پر لٹانے والی رقم سے
ہم چند پودے خرید کر نہ لگا لیں؟ پٹاخے، رنگ رنگیلی کے سامان کے بدلے پودے
خرید لیں؟
قارئین!! ایک پودا بھی لگا لیا تو وہ کار ثواب کے ساتھ ساتھ ضرورت کو بھی
پورا کرے گا۔ آکسیجن کی کمی دور کر کے آپ کو، آپ کے ہم وطن کو سایہ فراہم
کرے گا۔ دوسری طرف موسمیاتی تبدیلی پر نظر کریں تو ہمارے وطن کو شجر کاری
کے عمل کی بہت ضرورت ہے۔ جنگلات کو بڑھاوا دینے کی ضرورت ہے۔ جو نہایت تیزی
سے تنزل کی طرف رواں ہیں۔ 1990ء کی دہائی کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اُس
وقت ملک میں 3.3فیصد جنگلات تھے۔ جب کہ 2015ء کے ورلڈ بینک کے ترقیاتی
اعداد شمار بتاتے ہیں کہ جنگلات 1.9فیصد رہ چکے ہیں۔ جب کہ ہمارے پڑوسی ملک
بھارت میں غالبا 23.77 فیصد جنگلات موجود ہیں۔ درخت و جنگلات کی کمی کے
باعث ملک خداداد میں گرمی کا عرصہ اور شدت دونوں بڑھوتری کی طرف جا رہے ہیں۔
فصلوں کی کاشت کا وقت متاثر ہوتا ہے تو وہیں انسانوں سمیت چرند و پرند کو
بھی دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ یہ ملک ہمیں تحفے میں ملا اب ہمیں بھی چاہیے
کہ ہم اس پاک وطن کو تحفہ دیں۔ اور وہ تحفہ برگ و شجر سے بڑھ کر کیا ہو
سکتا۔ آپ اپنے لیے نہ سہی اپنے وطن کے لیے ہی تکلیف اٹھا لیجیے۔ درخت
لگائیے، زیادہ سے زیادہ پودے لگا کر مصنوعی ہریالی کو حقیقی ہریالی سے
بدلیے۔ آپ اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے لیے، قدرتی ہواؤں کے لیے آگے
بڑھیے، پودے لگائیے۔
آزادی کی خوشی کے اس موقع پر کوشش کیجیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ تا کہ
یہ ہمارا وطن صحیح معنوں میں سبز و شاداب بن جائے۔ اس بار ایک جھنڈا کم
خریدیں اس کی جگہ پودا خرید کر لگائیں۔ اسکول و کالج، مدارس، مکاتب والے
خاص طور پر مہم چلائیں۔ مقامی عہدیدار اپنی نگرانی میں مہم آگے بڑھائیں۔
مقابلے منعقد کروائیں۔ اپنی طرف سے اپنے گردو نواح میں پودے لگوائیں۔ سبز و
شاداب پاکستان بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ہر ہر شخص اپنے اوپر اس بات کو
لازم کر لے کہ اس نے کم سے کم ایک پودا تو لازما لگانا ہے۔ اچھا !آپ کے پاس
وقت نہیں پودے لگانے کو، تو خرید کر کسی کو دے دیجیے۔ جھنڈیاں تقسیم کرنے
کی جگہ پودے تقسیم کیجیے۔ آئیں وطن منتظر ہے کہ اس میں بسنے والوں کو وہ ہر
خوشی دیتا ہے آج آپ کے تحفے کی باری ہے ۔اسے شجر کا تحفہ دے کر خوش کیجیے۔
ہربھرا وطن ہی ہماری نسلوں کے محفوظ اور بہتر مستقبل کا ضامن ہو گا۔ |