ساری دنیا میں فقظ دو ممالک ہی نظریاتی بنیادوں پر وجود
میں آئے ہیں ایک اسرائیل اور دوسرا وطن عزیز پاکستان ۔ ابھی پاکستان معرض
وجود میں آیا ہی تھا کہ اس کی سالمیت کے خلاف دشمنان پاکستان کی طرف سے
سازشوں کے جال بچھائے جانے لگے یہاں تک کہ پاکستان کی نظریاتی اساسوں کو ہی
متنازعہ بنایا جانے لگا ۔ اس لیے ہمیں نظریہ پاکستان کے بارے میں مکمل
آگاہی حاصل کرنے کیلئے مصور پاکستان علامہ محمد اقبال اور بانی پاکستان کے
فرمودات کے ساتھ ساتھ ان بزرگوں سے بھی رہنمائی حاصل کرنا ہوگی جنھوں نے
قیام پاکستان کے وقت بے پناہ قربانیاں پیش کی ہیں ۔
محترم قارئین! سب سے پہلے علامہ محمد اقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے 1930ء میں الہ
آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبہ میں ایک جداگانہ اسلامی
ریاست کا تصورپیش کیا جسے ہندوؤں کی طرف سے شاعر کا خواب کہہ کر مذاق اڑایا
جاتا رہا اسی مطالبے کی بنیاد پر شاعر مشرق علامہ اقبال کو مصور پاکستان کے
لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔
20مارچ 1940ء کو مہاتما گاندھی نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
’’میرے نزدیک ہندو، مسلم، پارسی اور ہریجن سب برابر ہیں ۔میں غیر سنجیدہ
نہیں ہو سکتا جب میں قائداعظم کے بارے میں بات کروں کیونکہ وہ میرے بھائی
ہیں۔‘‘
22مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں ایک عظیم الشان تاریخی جلسہ سے خطاب
کرتے ہوئے گاندھی کے بیان پر طنزیہ انداز میں کہا کہ
’’لیکن میراخیال ہے کہ وہ(گاندھی) غیر سنجیدہ ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ بھائی
گاندھی کے تین ووٹ (ہندو،پارسی اور ہریجن) ہیں اور میرا صرف ایک ووٹ (مسلم)
ہے ۔‘‘
اپنے اسی خطاب میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک برطانوی
اخبار کو ہدف تنقید بناتے ہوئے فرمایا
’’ لندن ٹائمز جیسے ایک مقتدر جریدے نے قانون حکومت ہند مجریہ 1935ء پر
تبصرہ کرتے ہوئے لکھا :بلاشبہ ہندو اور مسلمانوں میں اختلافات صحیح معنوں
میں صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ قانونی اور ثقافت کے اعتبار سے بھی ہیں کہا
جاسکتا ہے کہ وہ فی الحقیقت دو بالکل نمایاں اور علیحدہ تہذیبوں کے نمائندے
ہیں تاہم وقت کے ساتھ توہمات ختم ہو جائیں گے اور ہندوستان ایک قوم کی شکل
اختیار کرے گا ۔پس لندن ٹائمز کے نزدیک یہ دشواریاں محض توہمات ہیں ۔ان
بنیادی اور گہرے روحانی ، اقتصادی، معاشرتی،سیاسی اور اختلافات کو
تکلفاًتوہمات کہہ کر جھٹک دیا گیا ۔یقینی طور پر معاشرے کے بارے میں اسلام
اور ہندومت کے تصورات کے مابین فرق کو محض توہمات قراردینا برصغیر ہند کی
ماضی کی تاریخ کو بیّن طور پر نظرانداز کر دیتا ہے ہزار سال کے گہرے روابط
کے باوصف اگر قوموں میں اس قدر بعد ہے جتنا کہ آج ہے تو یہ توقع نہیں کی
جاسکتی کہ وہ کسی بھی وقت صرف اس لیے ایک قوم بن جائے گی کہ ان پر ایک
جمہوری دستور مسلط کر دیا گیا۔‘‘
بانی پاکستان محمد علی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی خطاب میں یہ بھی فرمایا
تھاکہ
’’ یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندومت کی
حقیقی نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں؟ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب ہی نہیں
ہیں فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے
کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترقہ قوم کی سلک میں منسلک ہو سکیں گے ۔ ایک
ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے
مصائب کی جڑ ہے ۔اور اگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظر ثانی نہ کر سکے تو یہ
ہند کی تباہی سے ہمکنار کر دے گا ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مذہبی فلسفوں
، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے متعلق ہے ۔نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے
ہیں ، نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں ۔دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے
متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے ۔یہ بھی بالکل
واضح ہے کہ ہندواور مسلمان تاریخ کے مختلف مأخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں
ان کی رزم مختلف ہے ، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا اکثر ایسا ہوتاہے کہ
ایک کاہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور
ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں ۔‘‘
(قائد اعظم :تقریر و بیانات ۔مترجم اقبال احمد صدیقی شائع کردہ بزم اقبال
لاہور صفحہ 370,371)
یہ تو تھے بانی پاکستان کے قرارداد پاکستان کے پاس ہونے سے ایک روز پہلے کے
فرمودات ۔ انہی فرمودات سے نظریہ پاکستان بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔ قبل اسکے
کہ ہم بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح رحمۃاﷲ علیہ کے مزید فرمودات
پیش کریں معروف ادیب اور دانشور آغاشورش کاشمیری کی سوانح حیات ’’بوئے گل
نالہ دل دودِ چراغ محفل ‘‘سے اسی ضمن میں ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں چنانچہ
آغاشورش کاشمیری رقمطراز ہیں کہ
’’فرقہ وارانہ مسئلہ انگریزوں کی حکمرانی ، ہندوؤں کی تنگ نظری اور
مسلمانوں کی پسماندگی سے پیداہوا انگریز اپنی حکومت کو طول دینے کے لیے اس
مسئلہ کو بڑھا کر لایخل رکھنا چاہتے تھے ۔ ہندوؤں کا مجلسی نظام معاشی
دستبرد اور تعلیمی برتری کچھ اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ہندوستان میں
مسلمانوں کے وجود کو مشخص کرنے کا سوال پیدا ہوتا تو ہندو متحدہ قومیت کی
آڑ لیتے ، حقوق یا سلوک کا مرحلہ آتا تو آنکھیں پھیر لیتے گویا مسلمانوں کا
ہندوستان پر کوئی حق نہیں ، جناح نے سیاسیات میں ہندو ذہنیت کی تلخیاں چکھی
تھیں ،مسلمانوں کی پسماندگی کابھی انہیں احساس تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس
پسماندگی کو اب تک مسلمانوں کے رجعتی عناصر نے اپنی موت ٹالنے کے لیے
استعمال کیا ہے ، انہوں نے اس ہتھیار کو حکومت ، کانگریس اور رجعتی
مسلمانوں کے ہاتھ سے اس طرح چھینا کہ فرقہ وارانہ مسئلہ جداگانہ انتخابات
کی مسافت طے کرنے کے بعد پاکستان کا نصب العین ہو گیا اور جناح اس استقلال
کے ساتھ اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے کہ انہیں ہٹانایا جھکانا ناممکن ہو گیا۔ فرقہ
وارانہ مسئلہ انگریزوں کاشوشہ تھا تووہ اس شوشہ کی مار اب خود کھارہے تھے
کیونکہ اس کانام مسلمانوں کاحق خود ارادیت ہو گیا تھا ۔ ہندو جو کل تک اس
مسئلہ کو نظر انداز کررہے تھے بلکہ ایک زمانہ میں پنڈت مدن موہن مالویہ نے
شملہ میں کہا تھا کہ:
’’انہیں پہلی دفعہ معلوم ہواہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے فرقہ وارانہ حقوق
بھی ہیں ‘‘
لیکن اب مہاتما گاندھی بھی اس مسئلہ کو تسلیم کر رہے تھے اور قائداعظم سے
کسی حل کے خواہاں تھے ، قائداعظم کے نزدیک حل ایک ہی تھا ہندوستان کی تقسیم
۔۔۔۔۔۔۔۔مارچ 1940ء میں مسلم لیگ نے لاہور ریزولیشن پاس کیا ۔ اس ریزولیشن
کو پاکستان کا نام ہندو اخباروں نے دیا ، قائد اعظم مارچ 1940ء سے پہلے
لفظ پاکستان کے استعمال میں بڑے محتاط تھے لیکن جب ہندو اخباروں نے پاکستان
کا ہوا کھڑاکیا تووہ اس ناؤ کے ملاح ہو گئے۔ انہوں نے اس لفظ کو اس گرمجوشی
سے اپنایا کہ پاکستان اور قائداعظم ہم معنی ہو گئے ۔‘‘
آگے چل کر آغاشورش کشمیری مزید لکھتے ہیں کہ
’’استعمار دشمن مسلمان رہنماؤں نے تب تک محسوس ہی نہیں کیا تھا کہ مسلمان
قوم کہاں کھڑی ہے ؟ اسکی شکایات کیاہیں ؟ اور پاکستان کامطالبہ دراصل ہے
کیا ؟ پاکستان کا مطالبہ ہندوؤں کی بالادستی کے خلاف مسلمانوں کی نفرت
کااحتجاج و اظہار نہیں بلکہ گمشدہ اسلامی سلطنت کی بازیافت کاایک دلفریب
تصور تھا ۔‘‘
محترم قارئین ! گمشدہ اسلامی سلطنت کا تصور بانی پاکستان فرمودات سے بھی
واضح ہوتاہے چنانچہ انہوں نے پشاور میں اپنے ایک خطاب کے دوران ببانگ دہل
فرمایا تھا کہ
’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکرا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا
بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرناچاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو
آزما سکیں ۔‘‘
اسی طرح 1943ء میں کراچی میں ہونیوالے مسلم لیگ کے اجلاس میں خطاب کرتے
ہوئے فرمایا کہ
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں
؟ وہ کونسی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ؟ وہ کون سا لنگر
ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے؟ وہ رشتہ ،وہ چٹان، وہ لنگر
خداکی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے
ہم میں زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا ۔‘‘
علی گڑھ میں مارچ1944ء کو اپنے ایک خطاب میں بانی پاکستان نے فرمایا کہ
’’ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان کے مطالبے کا محرک اور مسلمانوں کے لیے
جداگانہ مملکت کی وجہ کیا تھی ؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس کی
وجہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریزوں کی چال بلکہ یہ اسلام کا بنیادی
مطالبہ ہے ۔‘‘
اسی طرح 1947ء میں پاکستان کے افسران کوخطاب کے دوران بانی پاکستان نے
اپنا نصب العین کچھ یوں بیان فرمایا کہ
’’ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد
انسانوں کی طرح رہ سکیں جوہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے اور
جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پنپنے کا موقع ملے ۔‘‘
کراچی میں جنوری 1948ء کو خطاب کرتے ہوئے بانی پاکستان نے کہا کہ
’’اسلام محض چند رسومات اور روایات کا مجموعہ نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے
مکمل ضابطہ حیات ہے اسلام سیاسی اور معاشی دونوں شعبوں میں ہماری رہنمائی
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے اصولوں کی بنیاد احترام انسانیت ، آزادی اور
انصاف پر مبنی ہے جو لوگ اس ملک میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کا
دستور شریعت اسلامیہ کے مطابق نہیں ہوگا انہیں جان لینا چاہیے کہ شرعی
قوانین آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو برس پہلے تھے۔‘‘
طلباء سے خطاب کے دوران 1944ء میں فرمایا کہ
’’اسلام ہمارا رہنما ہے اور ہماری زندگی کامکمل ضبطہ حیات ہے ہمیں کسی سرخ
یا پیلے کی ضرورت نہیں اور نہ ہمیں سوشلزم ، کیمونزم، نیشنلزم یاکسی دوسرے
ازم کی ضرورت ہے ۔‘‘
21مارچ1948ء کو ڈھاکہ میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایاکہ
’’میں چاہتاہوں کہ آپ بنگالی ،سندھی،بلوچی، اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں
میں بات نہ کریں ۔ کیا آپ وہ سبق بھول گئے ہیں جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو
سکھایا گیاتھا یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں ،سندھی ہیں،
پٹھان ہیں ۔ ہم تو بس مسلمان ہیں۔‘‘
یکم جولائی 1948ء کو کراچی میں سٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر فرمایا
’’اگر ہم نے مغرب کامعاشی نظام اپنایاتو ہمیں اپنے عوام کے لئے خوشحالی
حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہوں گی ۔ ہمیں اپنی تقدیر اپنے علیحدہ اور
منفرد انداز میں بنانی پڑے گی ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا مثالی معاشی
نظام پیش کرنا ہوگا جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی
اصولوں پر قائم ہو۔‘‘
قارئین کرام! بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح رحمۃاﷲ علیہ کے مندرجہ
بالا فرمودات سے نظریہ پاکستان اورحصول پاکستان کے مقاصد بالکل واضح ہو
جاتے ہیں۔ بانی پاکستان نے جہاں پر مسلمانوں کے حقوق کی بات کی ہے وہیں پر
غیرمسلم اقلیتوں کے بارے میں بھی واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے
فرمایاکہ
’’ہم ہندوؤں کو کامل یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ
منصفانہ سلوک کیا جائے گا ۔ اس کے ثبوت میں ہماری تاریخ شاہد ہے ۔اور
اسلامی تعلیمات نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔‘‘
اور پھر فرمایاکہ
’’ہم پاکستان میں تمام اقوام کا خیر مقدم کرتے ہیں جوپاکستان کی تعمیروترقی
میں ہمارے ساتھ شریک ہوناچاہتی ہیں ۔‘‘
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . (جاری ہے)
|