دنیا دلیل مانگتی ہے، عقل ثبوت چاہتی ہے،عقل اور دلیل کا
گہرا تعلق ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود نے کہا تھا کہ خدا کا
شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے۔ جن کے نزدیک
پاکستان بنانا گناہ تھا ، ان کا پورا ایک مسلک ، فرقہ اور مکتب تھا۔یہ وہ
لوگ تھے جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد پاکستان کو ایک مسجد کہہ کر قبول بھی
کرلیا۔
انہوں نے ببانگِ دہل پاکستان کو ایک مسجد کہہ کر قبول کیا چونکہ یہ مسجدوں
پر قبضہ کرنے کے ماہر ہیں، انہوں نے مساجد کی طرح پاکستان پر بھی قبضہ کرنے
کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن پاکستان آرمی ہمیشہ اس کوشش میں آڑے آئی، جب یہ
قبضہ مافیا اس کوشش میں ناکام ہو گیا اور انتخابات میں عوام نے اس مافیا کو
مسترد کر دیا تو انہوں نے پاکستان کا یومِ آزادی منانے کا ہی انکار کر
دیا۔
یہ کیا جانیں کہ یومِ آزادی کیا ہوتا ہے!؟
انہوں نے کون سی آزادی کے لئے قربانی دی تھی جو انہیں احساس ہوتا کہ ہم
آزاد ہیں!؟ یہ کونسے انگریزآرمی اور ہندو فوج کے ساتھ لڑے تھے جو انہیں
پاک فوج کی اہمیت کا اندازہ ہوتا۔ انہوں نے تو پاکستان کو ایک مسجد سمجھ کر
اس پر قبضے کی کوشش کی تھی سو ناکام ہوئی اور اب یومِ آزادی سے یعنی روشنی
سے ڈرتے ہیں۔
چلیں پاکستان بنانے کا گناہ تو بہت پہلے ہوچکا ، ان سے اب کہیے کہ کشمیر کی
آزادی کے لئے ہی کوئی ریلی دارلعلوم دیوبند سے نکال دیں تا کہ دنیا کو پتا
چلے کہ آپ کس قدر سربکف اور سر بلند ہیں، اچھا چلیں سعودی عرب سے ہی
فلسطین کی آزادی کے لئے کوئی آواز بلند کریں تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ آپ
مظلوم فلسطینیوں کے ہمراہ ہیں۔
لیکن۔۔۔ لیکن جیسے ان کے نزدیک پاکستان کی آزادی ایک گناہ ہے اسی طرح
فلسطین و کشمیر کی آزادی بھی ایک گناہ ہے۔ ہاں اگر کل کو کشمیر اور فلسطین
آزاد ہو جائیں تو یہ فوراً انہیں بھی مسجد کہہ کر قبضہ کرنے کے لئے اٹھ
کھڑے ہونگے۔
یہ قبضہ مافیا ملک پر فقط قبضہ کرنے کے درپے ہے، یہ قربانیوں کے وقت اغیار
کی آغوش میں عیاشیاں کرتا ہے اور آزادی کے بعد اقتدار کی دوڑ میں شریک
ہوکر ملک پر قبضہ جمانے کی سعی کرتا ہے۔
اس وقت تک یہ مافیا صرف کراچی میں مندرجہ زیل مساجد پر قابض ہو چکا ہے ،
باقی پورے ملک کا اندازہ آپ خود لگا لیں:
1۔ جامع مسجد نیو ٹائون (موجودہ بنوری ٹائون مدرسے کے علاوہ مسجد کی جگہ)
2۔ دکھنی مسجد پاکستان چوک کراچی
3۔ افضل مسجد ابل چوک میٹھادر کراچی
4۔ اکبری مسجد نیو کراچی
5۔ موتی مسجد بلاک آٹھ کلفٹن کراچی
6۔ فیصل مسجد گلشن فیصل کلفٹن باتھ آئی لینڈ
7۔ گلزار حبیب مسجد فریئر ٹائون پی ایس او پمپ کے پاس کلفٹن کراچی
8۔ جامع مسجدغوثیہ ریلوے کالونی کراچی
9۔ صدیق اکبر مسجد نزد ویڈیو سینٹر مارکیٹ کلفٹن کراچی
10۔ صدیقی مسجد بلاک پانچ کلفٹن کراچی
11۔ محمد بن قاسم مسجد کھڈہ مارکیٹ نیا آباد کراچی
12۔ سفید مسجد موسیٰ لین (نالے کے پاس) کراچی
13۔ صدیقی مسجد نیا آباد کراچی
14۔ حاجیانی مسجد نیا آباد کراچی
15۔ لاکھانی میمن مسجد حسین آباد کریم آباد کراچی
16۔ حنیفہ مسجد کپڑا مارکیٹ بولٹن مارکیٹ کراچی (مسجد میں اب بھی یامحمدﷺ)
کندہ ہے)
17۔ حاجیانی مسجد نیا آباد کراچی
18۔ جامع مسجد غوث اعظم (نیا نام فاروق اعظم) سلطان آباد کراچی
19۔مریم مسجد (دھوراجی کالونی) مدنی کالونی کراچی
20۔ شریفی مسجد جوڑیا بازار کراچی
21۔ بخاری مسجد (بٹاٹا مسجد) جیولری مارکیٹ کراچی
مساجد پر قبضہ کرنے کے لئے یہ حضرات دو طرح کی ترکیبیں استعمال کرتے ہیں:
ایک ترکیب یہ ہے کہ وہ چالاکی اور مکاری سے مساجد پر قبضہ کرتے ہیں اور
دوسری ترکیب یہ ہے کہ وہ اسلحے کے زور پر مساجد اہلسنت پر قبضے کرتے ہیں۔
ان لوگوں کو اگر کسی مسجد پر قبضہ کرنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے مسجد میں
اپنا ایک تنخواہ دار ایجنٹ بھیجتے ہیں۔ سیدھے سادھے لوگ اسے مسجد کا خادم
رکھ لیتے ہیں جو مسجد کی صفائی وغیرہ سے اپنا کام شروع کرتا ہے اور پھر
موذن اور بعد ازاں آہستہ آہستہ پیش نماز بن کر مسجد پر قابض ہوجاتا ہے ۔
اسی طرح بعض مقامات پر نام نہاد جہادی تنظیمیں مناسب موقع دیکھ کر اسلحے کے
ساتھ مساجد پر قابض ہو جاتی ہیں ۔ اگر اہلسنت آگے سے مزاحمت کریں تو پولیس
مداخلت کر کے مسجد کو سیل کر دیتی ہے۔ سیل شدہ مسجد کا مقدمہ چلتا رہتا ہے
اور اداروں کے اندر قبضہ مافیا کے سہولتکار مسجد کو اہل سنت کے ہاتھوں سے
نکال لیتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کا بھی یہی حال ہے، قبضہ مافیا چاہتا ہے کہ پاکستان کو بھی
ایک مسجد کہہ کر لوگوں کو گمراہ کیا جائے اور بعد ازاں مسجد پر قبضے کی طرز
پر جدوجہد کر کے پاکستان پر قابض ہوا جائے۔ یہ ہم سب پاکستانیوں کی اولین
زمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھرپور طریقے سے یومِ آزادی منا کر اور اپنی فوج
سے اظہار یکجہتی کرکے قبضہ مافیا کو عملا شکست دیں۔
پاکستان بنانے کا گناہ جنہوں نے کیا تھا ، ان کی اولاد سے پوچھیں کہ یومِ
آزادی کسے کہتے ہیں!؟ غلامی کی تاریکی میں روشنی کسے کہتے ہیں!؟ جو ہوں ہی
غلام ابن غلام وہ کیا جانیں آزادی کی بہار۔ |