سوال: عصمت صدیقی صاحبہ اپنے بارے میں کچھ بتائیں اور اس
کے ساتھ ہی یہ بھی بتائیں کہ آپ نے پاکستان کو بنتے دیکھا، اس بارے میں
تفصیلات ہمیں بھی بتائیں؟
عصمت صدیقی: کہنے کو تو بہت آسان سا جملہ ہے کہ پاکستان بنتے دیکھا لیکن اس
جملے کے جواب میں جو درد کے احساسات ہیں وہ نہ قابل بیاں ہیں۔ شعر کا یہ
مصرع آندھیاں گھر کی یوں چلیں ۔۔۔گھر اجڑ کہ رہہ گیا، میرے جذبات کو کچھ
عیاں کرتا ہے ۔۔۔
اک لمبی سی آہ بھرکر آسمان کی جانب دیکھتی رہیں پھر گویا ہوئیں، دہلی کے
قریب بلند شاہ کے نام اک چھوٹا شہر آباد ہے ۔ 1940کے دوران اسی شہر میں
میری پیدائش ہوئی۔ قاضی انعام حیسن میرے والد تھے۔ جنہوں مدرسہ دیوبند اور
علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی تاہم میرے بچپن میں ہی ان کی وفات ہوگئی۔ جدوجہد
آزادی کے بعد جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت عمر سات برس تھی اور
ہم اپنے شہر میں 1956تک مقیم رہے۔ میری عمر 16برس تھی جب میں پاکستان آئی
اور اس وقت میںنویں جماعت کی طالبہ تھی۔ سات سال کی عمر میں پاکستان کو
بنتے دیکھا اور ہمارے سامنے بہت مظالم ہوئے لیکن مظالم کی پوری داستانیں
تھیں جنہیں ہمارے سامنے بتایاجاتا تھا۔ ہم سنتے تھے اور ہکا بکا سہ رہہ
جاتے تھے۔ خواتیں کے ساتھ ظلم، بزرگوں کے ساتھ حتی کہ بچوں کے ساتھ انگنت
مظالم کی داستانیں ہیں۔ ہمارے والد صاحب اور دادا کے سامنے مظلوم آتے تھے
اور اپنے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیاں بتاتے تھے، ہمارے بزرگ ان کی ہر
طرح سے مددو معاونت کرتے تھے۔ ہندووں اور سکھوں نے مسلمانوں کے ساتھ حد
درجا زیادتیاں کیں۔ وہ سکھ اور ہندو جو مسلمان کسانوں کے کاشتکار ہواکرتے
تھے انہوں نے بھی اپنے مالکان کے ساتھ ظلم کرکے پہار کردیئے۔ بس یہی کہونگی
کہ پاکستان کیلئے جس قدر قربیانیاں دی گئیں وہ اپنی نوعیت کی اپنی اک تاریخ
ہے۔ قائد اعظم سمیت اس وقت کے تمام مسلمان رہنماﺅں کو عوام جی جان سے چاہتے
تھے اور وہ بھی کسی طرح سے مظالم سے نہ بچ سکے ہیں۔ ہندو و سکھ قوم کے لوگ
پاکستان جانے والے مسلمانوںکو لوٹتے تھے ان کی زمینوں پر ان کے مال و متاع
پر ہی ان کی بہنوں، بیٹیوں تک کو جان سے مارتے تھے اور انکی عزتیں پامال
کرتے تھے۔ لیکن مظالم کی ان انگنت داستانوں کے باوجود مسلمان اپنی منزل کی
جانب رواں دواں رہے۔ قیام پاکستان کے بعد نو) 9)سال تک ہم اپنے علاقے میں
ہی رہے اور1956میں ہم لوگ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ سر جھکائے کچھ دیر خاموش
رہیں اور مزید کچھ کہنے کیلئے ہمت جمع کررہی تھیں۔ اسی دوران قدرے توقف کے
بعد ان سے دوسرا سوال کیا گیا۔
سوال: عصمت صدیقی صاحبہ، پاکستان کے موجودہ حال کے بارے میں آپ کیا کہیں
گی؟
عصمت صدیقی: یہ بات یاد رکھیں کہ پاکستان باآسانی معرض وجود میں نہیں آگیا
تھا اس دیس کیلئے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا، شہداءکی داستانیں بہت
ہیںاس کے ساتھ اسی ضمن میں بہت کچھ ہے۔ بس اس کو یاد رکھا جانا چاہئے اپنے
ماضی کو یاد رکھیں گے تو اس قوم کا حال بھی بہتر ہوگا اور مستقبل اس سے
کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔ پاکستان کے حال میں بارے میں کیا کہوں، بس یہی
کہونگی کہ مقاصد پاکستان کی جانب
نہیں بڑھا گیا ہے۔ آنے والے حکمرانوں نے اپنی قوم سے زیادہ اپنی فکر کی،
اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں نہیںنبھایا، پرویز مشرف جیسے لوگ بھی اس
ملک کے حکمران بنے جنہوں نے قوم کی بیٹی کو ڈالروں کے عیوض امریکیوں کے
حوالے کیا۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو ابھی تک امریکہ کی جیل میں قید ہے اور
لیکن ابھی تک موجودہ حکمرانوں نے اس کیلئے کچھ نہیں کیا۔ نواز شریف بھی تو
اس ملک کا وزیر اعظم کرہا ہے نہ اس نے تو وعدہ کیا تھا کہ عافیہ کو سو دنوں
میں رہائی دلواکر وطن واپس لے کر آئیگا لیکن آج تلک وہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔
اک عام پاکستانی سے لے کر بڑے سیاسی و مذہبی رہنماتک غرض ہر ایک کیلئے
پاکستان کا موجودہ حال ٹھیک نہیں ہے، انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ
ہمیں اپنے پاکستان کو بہتر سے بہتر حال میں لانے کیلئے اور ماضی کے خوابوں
کو پوراکرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
سوال: پاکستان کے ماضی اور حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ ملک کے مستقبل کے
بارے میں کیا کہیں گی؟
عصمت صدیقی: تعلیم کے بعد عملی زندگی میں، ڈاکٹر محمد صالح میرے ہمسفر رہے
اور ان کے ساتھ ملک کر ہم نے وطن عزیز کیلئے خدمات سرانجام دیں۔ سابق صدر
رفیق تاڑر کے دور میں مجھے سینٹرل زکوتھ کونسل کی ذمہ داریاں دیں گئیں
جنہیں میں نے احسن انداز میں نبھایا۔ سابق صدر ضیاءالحق سے بھی ملاقاتیں
ہوئیں اور ان کے دور بھی ہم پاکستان کیلئے اپنے حصے کا کام کرتے رہے۔ ماضی
میں صدیقی ٹرسٹ قائم کیا جس کے تخت دینی کتب کی اشاعت کے ساتھ عوامی خدمات
سرانجام دی جاتی رہیں۔ بہرحال یاد رکھنا پاکستان کا مستقبل بہت روشن ہے یہ
ملک بہت قربانیاں دے کر حاصل ہوا اور پھر نادانیوں سمیت دشمنوں کی سازشوں
کے نتیجے میں یہ ملک دولخت بھی ہوا لیکن اس کے باوجود پاکستان کامستقبل بہت
اچھا ہوگا۔ دنیا کی کونسی نعمت ہے جو ہمارے ملک میں نہیں ہے ہر موسم یہاں
ہوتا ہے معدنیات کے ذخائر سے یہ ملک بھرا ہوا ہے اس کا محل وقوع بہترین ہے،
گوکہ اس کے دشمن بھی بہت ہیں اس کے مخالفین بھی ہیں لیکن اس کے باوجود اس
کے دوست ممالک بھی ہیں۔ اسلامی ممالک میں ہی نہیں اقوام متحدہ کے دوسو سے
زائد ممبر ممالک میں اس کی اک ساخت ہے اور مجھے اس بات کی امید ہے کہ آنے
والے وقتوں میں پاکستان ان تمام خوابوں کو اعراض ومقاصد کو پورا کرے گا جن
کیلئے یہ ملک بنا تھا۔ حال ہی میں انتخابات ہوئے ہیں اور اب اک نئی حکومت
بنے گی مجھے اس حکومت کے سربراہ عمران خان سے امید ہے کہ وہ قوم کی بیٹی کو
بھی واپس لائے گا اور اس کے ساتھ پاکستان کو تیزی سے آگے کی جانب لے کر
بڑھے گا۔
|