تحریر: رقیہ فاروقی، راولپنڈی
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پورے ملک میں یوم آزادی منانے کی تیاریاں شروع
ہو جاتی ہیں۔ نوجوان طبقہ سبز ہلالی پرچم لہرا کر وطن عزیز سے محبت کا
اظہار کیا کرتا ہے۔ لڑکے بالے گلی کے نکڑ پر ٹھیلے سجا کر لوگوں کو رنگا
رنگ کے اسٹیکر بیچتے ہیں، ہر خاص و عام اپنے سینے پر ارض پاک کے پرچم کا
بیج سجا کر اپنے پاکستانی ہونے کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ہر طرف جھنڈیاں لگاء
جاتی ہیں۔ اندھیرے کو مٹانے کے لیے قمقمے روشن کیے جاتے ہیں۔
اس گہما گہمی میں 14 اگست 1947ء کو لوگ بھول جاتے ہیں۔ آتش بازی کی چمک میں
سکھوں کے بھالوں کی چمکتی روشنیاں دب جاتی ہیں۔ پٹاخوں کی آوازیں ان کربناک
چیخوں کی صدا کو معدوم کر دیتی ہیں، جو کسی حاملہ کے پیٹ پر نیزہ پار ہوتے
وقت آسمان کے پار چلی گئی تھی۔ شور مچاتے موٹر سائیکل، جن پر ون ویلنگ کر
کے موت کے قریب جاتے لڑکے اس وقت کے موت کے بھیانک سائے بھول جاتے ہیں۔ جب
لاشوں سے بھری ٹرینیں کسی ویران قبرستان کا منظر پیش کر رہی تھیں۔
برصغیر میں قرنوں سے ساتھ بسنے والے لمحوں میں اجنبی بن گئے۔ مسلمانوں کے
لیے الگ دھرتی کا مطالبہ پیام اجل بن گیا۔ جس سے مقیم ومسافر کوئی بھی
محفوظ نہ رہ سکا۔ ہمسایے قاتل بن گئے تھے۔ عزتوں کے سودے ہونے لگے۔
چاروناچار ہر مسلمان کو رخت سفر باندھنا پڑا، لیکن موت جا بجا گھات لگائے
ہوئے تھی۔کوئی گنجان آبادیوں میں لٹا اور کسی کو ویرانے میں تہہ خاک سلا
دیا گیا۔کتنی جوانیاں اس پاک دھرتی کے حصول میں کام آگئی۔ لوگ خوشی سے
قربان ہوگئے کہ آئندہ نسلیں پر سکون زندگی کا مزہ لے سکیں۔
اس وقت کی بہن اور بیٹی نے عزت کی حفاظت کے لیے جان کے نذرانے پیش کر دیے۔
کوئی کنویں میں کود گئے تو کسی کو اپنے محارم نے ابدی نیند سلا دیا۔ یہ
انتہائی قدم اس وقار کی حفاظت کے لیے تھا۔ جو قدرت نے مسلم قوم کو ودیعت
کیا ہے۔ رشتوں کے امتیاز کو پاکی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ پھر عورت کوئی شوکیس
پر سجا شو پیس نہیں رہی۔ اس نے اپنے ناموس کے تحفظ کے لیے سر دھڑ کی بازی
لگا کر دنیا کو یہ بتایا ہے کہ کلمہ گو عورت کوئی عام چیز نہیں ہے۔
یہ سب کسی خواب کا منظر نامہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ سسکتی یادیں ہیں۔ جو پچھلی
صدی کی کسی نشانی کے پیٹ میں مدفون ہیں۔ پھر کسی ہزار گز کے بنگلے کے مکین
جب یوم آزادی کو یادگار بنانے کی تیاری میں مشغول ہوتے ہیں۔ دور کسی کونے
میں کوئی اﷲ دتہ آنسوؤں کی برسات میں خون کی ندیوں کو بھلانے کی کوشش کرتا
ہے، کوئی صغری اپنے بھنبھوڑے ہوئے جسم سے رستے لہو کو قطرہ قطرہ دل میں جذب
کرتی ہے اور سسکتی یادوں کو بھلانے کی کوشش میں اپنے نحیف وجود کے ساتھ پل
پل ہلکان ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ جب زخموں کی کھرانڈ اترتی ہے تو انسان پہروں
تڑپتا ہے۔
ہاں! کچھ ایسا ہی ہم اپنے ماضی کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ۔ جنہوں نے اس
زمین کو اپنے خون سے سینچ کر آبیاری کی ہے۔ سارے پیاروں کو لٹا کر سجدہ شکر
ادا کیے ہیں۔ اے کاش! ہم اپنی تاریخ کو یاد رکھیں اور پھر صرف رنگ رلیاں
منانے کے بجائے شکرانے کے نوافل ادا کریں اور رب کریم کے حضور سجدہ ریز ہو
کر اس نعمت عظمی کی سلامتی کی دعائیں مانگیں تاکہ یہ پاک دھرتی روز افزوں
ترقی کی راہ پر گامزن ہو، پاکستان زندہ باد
|