تحریر اسریٰ نوشین ملک ،خوشاب ، پاکستان
میں پاکستان ہوں ، میں محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ لاکھوں مسلمانوں کی
دعاؤں اور قربانیوں کا ثمر ہوں۔ میں علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر اور قائد
اعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت اور کوششوں کا صلہ ہوں۔میرا نام چوہدری
رحمت علی نے تجویزکیا۔ 14 اگست 1947کو 27 رمضان المبارک کو دنیا کے نقشے پر
ابھرا ۔ مجھے اسلام کے نام پر قائم کیا گیا۔ جب میں معرضِ وجود میں آیا تو
میں بہت ناتواں اور کمزور تھا ۔مجھ میں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی سکت نہیں
تھی۔ غربت اور کسمپرسی نے میرے چاروں اطراف ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ میرے قائم
ہونے پر مسلمانوں نے بہت خوشیاں منائیں لیکن کئی قربانیاں بھی دیں ،کئی
سہاگ اجڑے ،کئی بچے یتیم اور دربدر ہوئے۔ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے
لٹے پٹے خاندانوں کو دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو رونے لگا ۔ میرے قیام کے
بعد میرے وجود کوختم کرنے کی کئی بار کوششیں کی گئیں، مجھے توڑنے کے لیے
سازشیں کی گئیں۔
میری شہ رگ، میرے خطہ کشمیر پر قبضہ کرلیا گیا اور مجھے اس سے محروم کرنے
کی کوشش کی گئی لیکن میں آج بھی پر امید ہوں کہ میرے خطہ کشمیر پر سے
بھارتی تسلط ختم ہوجائے گا ۔ میں پیدائش کے ایک سال بعد ہی یتیم ہوگیا،
میرے بانی قائداعظم محمد علی جناح مجھے چھوڑ کر دار فانی کوچ کرگئے ۔ان کے
جانے کے بعد ان جیسا کوئی مخلص نہ ملا۔ مفاد پرستوں نے مجھے جی بھر کے لوٹا
اور میرے خلاف سازشیں کیں ۔ 1962 اور 1965 میں میرے حریفوں نے مجھ پر حملہ
کیا لیکن میری فوج نے ان کو منہ توڑ جواب دے کر مجھے بچا لیا۔ تب مجھے
حوصلہ ملا اور کامل یقین ہوگیا کہ میرے چاہنے والے، مجھ پہ جان قربان کرنے
والے میرے محافظ مجھے دشمن کی میلی نگاہوں سے بچائے رکھیں گے ۔
آہستہ آہستہ میں نے ترقی کی راہ پر قدم رکھ دیے اور مستحکم ہونے لگا لیکن
اندونی اور بیرونی سازشوں کے سبب 1971 میں میرے ایک حصے کو مجھ سے ہمیشہ کے
لیے جدا کردیا گیا ۔ میں بہت تڑپا لیکن کسی نے میری نہ سنی۔ اس جنگ میں
مجھے جابجا زخم آئے جو آج بھی تازہ ہیں جن سے آج بھی خون رستا ہے ۔ کبھی
آمریت کا تسلط رہا مجھ پہ تو کبھی جمہوری نظام کے ذریعے حکمرانی کی گئی ۔دونوں
صورتوں میں مجھے استحکام نصیب نہ ہوا ۔ مفاد پرست حکمران ذاتی مفاد کے لیے
مجھے لوٹ کھسوٹ کر نوچ کر لہولہان چھوڑ جاتے۔ پھر اگلا حکمران مجھے روشنی
کے خواب دکھا کر اندھیروں میں چھوڑ جاتا ۔ مجھ پر کئی بار اندونی حملے بھی
کیے گئے میرے اپنوں نے میرے چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور عالمی
دنیا میں میرا تمسخر اڑایا گیا لیکن میں پھر بھی خاموش رہا خود پر ہوتے وار
سہتا رہا۔ ماؤں کو اپنے جگر گوشوں کی لاشوں سے لپٹ کر روتا سسکتا دیکھ کر
میرا کلیجہ چھلنی ہوجاتا۔ اسلحہ بارود کی بدبو سے میرا دم گھٹنے لگتا ہے ۔
آج میں اکہتر سال کا ہوچکا ہوں لیکن آج بھی میں اپنے پاؤں پہ مکمل کھڑا
نہیں ہوسکا۔ بے شمار قدرتی وسائل ہونے کے باوجود مجھ پہ قرضوں کا بوجھ لاد
دیا گیا جس سے میرے کندھے مزید جھک گئے ۔ میں خوبصورت پہاڑوں اور دریاؤں کی
سرزمین ہوں۔ میرے پاس بے شمار نعمتیں ہیں بہادر اور جری سپوت ہیں۔ میرے پاس
دنیا کی نمبر ون فوج ہے۔
دفاع، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں میں اب میں کسی سے پیچھے نہیں۔ پھر
بھی میری عوام غربت کا شکار ہے۔ میری اپنے باسیوں سے گزارش ہے میری رگوں سے
خون نچوڑنے والوں کا ساتھ نہ دیں۔ ہر فرد پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ پوری لگن اور دیانتداری سے کام کرے۔ اور مجھ پر کبھی بھی ذاتی مفاد کو
ترجیح نہ دے۔ کیونکہ میری عزت و وقار آپکے دم سے ہے اور آپ کی پہچان مجھ سے
ہے ، میرا روشن مستقبل آپ کا روشن مستقبل ہے۔خدارا اپنی شناخت برقرار رکھیں۔
مجھے ایسی ریاست بنائیں جہاں امن کا بول بالا ہو، عورتوں کی عزت محفوظ ہو ،جہاں
خوشحالی کا راج ہو۔ مجھے ویسا پاکستان بنائیں جیسا قائد اعظم چاہتے تھے ایک
مستحکم اور روشن پاکستان مجھے اپنے ذاتی مفاد اور تجوریوں کی نظر مت
کریں۔یہ ایک ملک کی اپنی قوم سے گزارش ہے۔ |