اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ دعوت وتبلیغ کا کام اتنے وسیع
پیمانے پر دنیا بھر خصوصاًپاکستان میں ہورہا ہے ۔اس سے کیا تبدیلی یابہتری
آئی ہے ؟کیا فرق پڑا ہے؟ ان لوگوں کی خصوصی توجہ کے لئے یہ کام لکھ رہا ہوں
ویسے تبدیلی دیکھنے والے کو نظر آتی ہے جو پہلے سے ہی منفی سوچ رکھتا ہو
اپنی آنکھیں بند کرلے اسے ہرگز کبھی بھی تبدیلی نظر نہیں آئے گی ۔میں ان
سطور میں ملکی وغیر ملکی دونوں طرف اسلام کی برکت سے ہونے والے اثرات کا
مختصر جائزہ کا تذکرہ کروں گا۔ حال ہی میں برطانیہ کا ایک مسلمان پاکستان
میں چلہ لگانے آیا وہ اپنے ملک کی کارگزاری بیان کررہا تھا کہ آج سے تیس ،چالیس
سال قبل برطانیہ میں مساجد نہیں تھیں ۔لندن میں صرف ایک مسجد تھی وہ بھی
اتوار کو کھلتی تھی کیونکہ اتوار کی چھٹی ہوتی ہے ۔لوگ اپنے آپ کو مسلمان
کہتے ہوئے گھبراتے تھے ۔اسلامی لباس برقعہ پہننے کا تو سوال ہی نہیں پیدا
ہوتا تھا اپنے نام بھی انگریزوں والے رکھے ہوئے تھے ۔داڑھی رکھنا معیوب تھا
لیکن جب سے دعوت وتبلیغ کی محنت اﷲ پاک کے کرم سے اجتماعی طور پر دوبارہ
شروع ہوئی ہے ۔ہزاروں مساجد تعمیر ہوچکی ہیں ۔گرجا گھروں کو مخیر مسلمان
حضرات خرید کر مساجد بناتے رہے ہیں ۔لندن میں تین بڑے تبلیغی مراکز اور
سینکڑوں مدارس قائم ہوچکے ہیں جہاں پر دین کی تعلیم حاصل کی جارہی ہے ۔سینکڑوں
جماعتیں اﷲ کے راستے میں نکلتی ہیں ۔سالانہ سینکڑوں حفاظ کرام تیار ہورہے
ہیں پہلے حال یہ تھا کہ مساجد میں تراویح کے لئے دیگر ممالک سے حفاظ
منگوائے جاتے تھے لیکن اب برطانیہ سے حفاظ دیگر یورپی ممالک جن میں امریکہ
،کینڈا ،فرانس قابل ذکر ہیں بھجوائے جاتے ہیں ۔سالانہ ہزاروں کی تعداد میں
عیسائی ،یہودی لوگ خصوصاًنوجوان نسل لڑکیا ں اسلام قبول کررہی ہیں اور دھڑا
دھڑ مسلمان بچے پیدا کررہی ہیں چند سال قبل ایک سروے میں بتایا گیا کہ
نومولود بچوں کے جو نام سب سے زیادہ رکھے گئے وہ محمد ،ابوبکر ،عمر ،عثمان
،علی ،فاطمہ ،عائشہ ،خدیجہ تھے ۔خواتین برقعے ،سکارف اور مرد شرعی لباس میں
برطانیہ کے ہر کاروبار زندگی میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔تبلیغی اجتماعات
باقاعدگی سے سالانہ منعقد ہورہے ہیں جس سے سالانہ جماعتیں یورپ کے دیگر
ممالک میں جارہی ہیں ۔یہی حال امریکہ ،کینڈا ،فرانس ،چاپان ،اٹلی ،جرمنی
وغیرہ کا ہے ۔اٹلی کا ملک جو کہ عیسائیوں کے لئے ایک اہم مذہبی حثیت رکھتا
ہے ان کا بڑا پاپائے روم یہیں قیام کرتا ہے ۔اب پورے یورپ میں دعوت وتبلیغ
کے کام کا مرکزبناہوا ہے ۔پہلے یہاں مسلمان اور تبلیغ کے کام ،مساجد ،مراکز
کا تصور کرنا بھی مشکل تھا لیکن اب اﷲ کے فضل سے یہاں سے دین کی احیاء ،فروغ
کا بہت کام ہورہا ہے ۔تمام یورپی ممالک میں روزانہ کی بنیادوں پر مساجد کی
تعمیر ہورہی ہے ۔پاکستان کی جماعتوں کو ان ممالک میں کام کرنے کے لئے ویزہ
کا حصول بہت مشکل ہوگیا ہے لیکن اب انکے اپنے ممالک میں جماعتیں اﷲ نے پیدا
کردی ہیں جو کہ دنیا بھر میں تبلیغ کا کام کررہی ہیں ۔حتی کی اسرائیل جیسے
مسلمان دشمن ملک میں کام زوروں پر ہے ۔حال ہی میں اردن میں ایک اجتماع ہوا
۔35 ممالک کے افراد نے اس میں شرکت کی ۔وہا ں مسجد اقصٰی ،بیت المقدس کے
امام بھی آئے ہوئے تھے ۔ان کے چار ماہ لگے ہوئے تھے ۔انہوں نے بیان میں
بتایا کہ مسجد اقصٰی میں روزانہ مشورہ ہوتا ہے ۔ہر نماز کے بعد گشت ہوتا ہے
۔ ماہ رمضان میں تین سے پانچ لاکھ کا مجمع ہوتا ہے نمازوں میں ۔ہر ایک کا
الگ الگ حال بیان کرنا یہاں ممکن نہیں ۔پاکستان کا حال دیکھ لیں پہلے ہماری
مساجد ،مدارس ،مراکز میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہوتی تھی ۔نماز پڑھنا ،داڑھی
رکھنا ،حج کرنا ،رمضان کے روزے رکھنا صرف بوڑھے لوگوں کا کام سمجھا جاتا
تھا لیکن اب اس محنت کی برکت سے ہمارے نہ صرف مدارس ،عالم ،حافظ ،مفتی بننے
والوں سے بھرے پڑے ہیں نوجوانوں کو داخلہ نہیں ملتا ۔لوگ دین کی تعلیم کی
طرف مائل ہورہے ہیں ۔مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے گو کہ تاحال صر
ف دس فیصدلوگ ہی نماز جیسا اہم فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لیکن پہلے تو اتنے
بھی نہیں تھے اگر مسلسل ہم اجتماعی طور پر اس امر بالمعرف ونہی عن المنکر
کی ذمہ داری کو پورا کرتے رہیں گے تو تعداد میں مذید اضافہ ہوگا ۔ہماری اصل
کامیابی اﷲ پاک کے دین ہی میں رکھی ہے ۔ دین کا علم حاصل کرکے اس پر عمل
کرنے اورا سکی دعوت دینے کی بھاری ذمہ داری امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے ۔ہم
تمام دنیاوی محنتوں کو کام سمجھتے ہیں لیکن دین کی محنت کو کام ہی نہیں
سمجھتے ۔حال ہی میں ایک جماعت ڈیرہ اسماعیل خان سے قطر گئی وہاں کے لوگ
پاکستانیوں کو تبلیغ کا کام میں اپنا استاد مانتے ہیں اور برملا کہتے ہیں
کہ اہل عرب سے اﷲ تعالی نے اس کا م کی ابتداء کی وہ چونکہ اسے ذمہ داری
سمجھ کر کرتے رہے ترقی وخوشحالی ،فتوحات ان کے قدم چومتی رہی لیکن جب سے ہم
نے اس کام کو چھوڑا ہم اﷲ مدد ونصرت سے بھی محروم ہوگئے اور عیاشیوں ،حب
مال ،حب جاہ میں پڑ گئے ۔قطر کے بادشاہ شاہ فہد کے بھائی شاہ تمیم جو کہ
چیف آف آرمی سٹاف ہیں چار ماہ لگائے ہوئے ہیں ۔انہوں نے ڈیرہ کی جماعت سے
قطر کی پارلیمنٹ میں بیان کروایا ۔جماعت کا تمام ایام میں بھرپور اکرام ہوا
انکے چولہے نہیں کھولنے دیئے گئے ۔ماشاء اﷲ دنیا کے ہر ملک میں اﷲ تعالی نے
پاکستان کو اگر کوئی مقام دیا ہے تو وہ رائے ونڈ کے تبلیغی مرکز اور ان کی
محنت کے باعث ہے ۔لوگ پاکستان کو اس کام کے باعث عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
اوریہاں آنا چاہتے ہیں ۔اس کام کو سیکھنے کے لئے لیکن ہماری حکومتیں ان کی
راہ میں روڑے اٹکاتی ہیں ۔انہیں ویزوں میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا
پڑتا ہے ۔پانچ ارب کی تعداد میں کفربے قرارہے ہماری آمد کا منتظر ہے لیکن
پہلے خویش بعد درویش کے محاورے کے مصداق ہمیں اپنوں میں محنت کی بہت
ضرورت ہے ابھی تو بیرون ملک جماعتیں صرف مسلمانوں کوراہ راست پر لانے کے
لئے جاتی ہیں لیکن غیر مسلم ان جماعتوں کے لباس ،آذان ،وضو ،نماز ،پیدل
چلنے سے بھی متاثر ہوکر اسلام قبول کررہے ہیں جب ہم نے کفر پر محنت شروع
کردی تو نہ جانے کتنی انسانیت ،امت محمدیہ جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائے
گی ۔اﷲ ہمیں انبیاؤں والے کا م کی سمجھ بوجھ عطافرمائے اور اسے اپنی ذمہ
داری سمجھ کر کرنے کی توفیق دے آمین
٭٭٭٭
|