رکن اسلام یعنی حج قولی، بدنی، قلبی، مالی عبادات کا ایسا
مجموعہ ہے ،جو اﷲ تعالیٰ اطاعت ،اظہارِعبدیت ،اور اتحاد امت کی بھرپور
عکاسی کرتا ہے،اس منزل کا ہر راہی جذبہ عشق و محبت سے سرشار ہو کر اپنے
سابقہ گناہوں بھری زندگی سے توبہ تائب ہو کر اﷲ کریم کا تقرب حاصل کرتا ہے
۔
حج شریعت کی اصطلاح میں اُن خاص افعال کا نام ہے جو حج کی نیت سے احرام
باندھ کر ایامِ حج میں ادا کئے جاتے ہیں۔ حج سن 9 ہجری میں ہر ذی استطاعت
عاقل،بالغ،مسلمان مرد اور عورت پر زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض کیاگیا۔اﷲ
کریم کا ارشاد مبارک ہے ''اور لوگوں پر اﷲ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ جو اس (کعبہ)
تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے۔'' (سورہ اٰل عمران 97)نبی
کریم ﷺ نے فرمایا کہ ''استطاعت سے مراد راستے کا انتظام اور سواری کا
انتظام ہے۔(المستدرک للحاکم:442/1)اہتمام حج کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ
ہے''اور لوگوں پر اﷲ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور
رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو خدا بھی اہلِ
عالم سے بے نیاز ہے۔'' (سورۃ اٰل عمران: 97) حضرت ابو ہریرہؓ روایت فرماتے
ہیں کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد
فرمایا’’اے لوگو! بلا شبہ تم پر حج فرض کیا گیا ہے، لہٰذا تم حج کیا کرو‘‘۔
(مسلم )اسی طرح حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
فرمایا کہ جس شخص کو خرچ ،اخراجات، سواری وغیرہ سفربیت اﷲ کے لیے روپیہ
میسر ہو (اور وہ تندرست بھی ہو) پھر اس نے حج نہ کیا تو اس کو اختیار ہے
یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔(ترمذی)
بلاشبہ اﷲ کریم نے تمام مسلمانوں کے دلوں میں بیت اﷲ اور حرمین شریفین کی
محبت کو اس انداز سے ڈال دی ہے،ہر ایک مسلمان حرمین شریفین کی زیارت اور حج
و عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ بے چین رہتا ہے ، جب کہ حضرت
سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کے بعد اﷲ کریم سے دعا مانگی ،اے
ہمارے رب! ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی فرمانبردار
امت پیدا فرما اور ہمیں ہماری عبادت (مناسکِ حج) کے طریقے سکھلا اور ہماری
توبہ قبول فرما، یقینا تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان
ہے۔(البقرۃ)اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو یہ حکم
دیا''اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے، وہ تیرے پاس آئیں گے، پیدل اور
دُبلے دُبلے اونٹوں پر، جو دور دراز کے راستوں سے چلے آئیں گے''۔(سورۃ
الحج۔21)
اسلامی کیلنڈر کے مطابق شوال ،ذی قعدہ اورذی الحجہ کے دس دنوں کو حج کے
مہینے کہا جاتا ہے جب کہ ارکان حج کی ادائیگی آٹھ ذی الحجہ سے تیرہ ذی
الحجہ تک کی جاتی ہے ۔حج کے چار ارکان ہیں پہلا رکن صرف حج یا حج و عمرہ کی
نیت سے احرام باندھنا،دوسرا رکن میدان عرفات میں وقوف یعنی ٹھہرنا،تیسرا
رکن طواف زیارت اور چوتھا رکن صفا ومروہ کے درمیان سعی کرنا ہے جب کہ سات
واجبات ہیں اول میقات سے احرام باندھنا،دوم وقوف عرفہ کے دن غروب آفتاب تک
میدان عرفہ میں ٹھہرنا، سوم مزدلفہ میں فجر تک رات گزارنایہاں تک کہ خوب
روشنی ہو جائے سوائے عورتوں اور کمزور لوگوں کے کہ انہیں آدھی رات کے بعد
جانے کی اجازت ہے،چہارم جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حلق یاقصر کروانا،پنجم
ایّام تشریق میں منیٰ میں رات گزارنا،ششم ایّام تشریق میں رمی کرنا، ہفتم
طواف وداع کرنا۔ اور ان دونوں کے علاوہ تمام کام یعنی طوافِ قدوم، آٹھ اور
نو ذو الحجہ کی درمیانی رات منی میں گزارنا، اضطباع کرنا، رمل کرنا، حجر
اسود کو بوسہ دینا، صفا اور مروہ پہاڑی پر چڑھنا مسنون ہے۔
بلاشبہ حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردئیے جاتے
ہیں، اگر تمام ارکانِ حج مسنون طریقے اور شرعی تقاضوں کے عین مطابق اور
لغویات و بیہودہ باتوں، گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا سے اجتناب کرتے ہوئے ادا
کرے تو اس کے بارے میں رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ''جس شخص نے اﷲ کے لیے
حج کیا، (اس دوران میں) کوئی فحش گوئی کی نہ کوئی برا کام، تو وہ گناہوں سے
اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا''۔(صحیح
البخاری، الحج، حدیث: 1521)
اسلامی عبادات میں سے ہر عبادت ہمیں نظم و ضبط ،سلیقہ اور اتفاق ،اتحاد اور
یگانگی کا درس دیتی ہے ،حج بیت اﷲ کے دوران دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے ہر
عام و خاص اورہر شاہ و گداکو صرف دو سفید چادریں زیب تن کیے صرف ایک امام
کی اقتداء میں تمام ارکان کو ادا کرتا ہے ،جہاں وہ ہر آن " لبیک اللھم لبیک
"کی صدا بلند کرکے" اﷲ وحدہ لاشریک لہ" کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کررہا
ہوتا ہے وہیں پوری دنیا میں بسنے والے انسانوں کو عملا ً اسلام کی آفاقیت
کا پیغام بھی دے رہا ہوتا ہے،اس میں دو رائے نہیں کہ حج کے موقع پر پوری
دنیا سے ہوئے ہر رنگ و نسل کے مسلمانوں کا غیر معمولی اجتماع مساوات
،یکسانیت ،محبت اور اتفاق و اتحاد کو عملی مظاہرہ ہوتا ہے جس کی مثال پیش
کرنے سے باقی مذاہب قاصر ہیں ،حج کا فقید المثال اجتماع واضح پیغام دیتا ہے
کہ ہم سادگی اورتواضع کواپناتے ہوئے ،لسانی ،قومی اور گروہی تفریق سے
بالاتر ہو کر صرف ایک مسلمان کی حیثیت سے مساوات اور بھائی چارہ کواپنی
معاشرتی،سماجی اور انفرادی زندگی میں عملاً لانے کی کوشش کریں تاکہ اتفاق و
اتحاد،امن و سلامتی اور اطاعت و فرمانبرداری کی فضا ء قائم ہوسکے۔ |