ملک عزیز میں جس طرح منشیات کا کاروبار حکومت کی سر
پرستی میں جاری ہے ٹھیک اسی طرح فحاشی و عریانیت بھی عروج پر ہے۔اس کے
باوجود نہ اہل اقتدار اور نہ ہی سرکردہ حضرات اس ناسور کے خلاف آواز بلند
کرتے ہیں۔رہے وہ بے یارومددگار افراد و گروہ جو اس کے خلاف آواز اٹھاتے بھی
ہیں تو ایک طرف میڈیا ان کی زبانوں پر تالے لگادیتا ہے وہیں"مہذب افراد و
گروہ"بھی ان کی کبھی کھلے عام تو کبھی ڈھکے چھپے انداز سے مخالفت کرتے نظر
آتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا جو عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول
کراتا ہے،رائے عامہ ہموار کرنے اور کرانے میں اپنا موثر کردار ادا کرتا ہے،
سرمایہ داروں کے غلط رویوں پر لگام کستا ہے، ملک اور معاشرہ کو صحیح
بنیادوں پر استحکام بخشتا ہے،وہی میڈیاتعاون کی شکلیں اختیار کرتے ہوئے
فحاشی و عریانیت کے خلاف آواز اٹھانے والے افراد کو سہارادیتا اور یہ آواز
نہ صرف دیگر لوگوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرتی بلکہ اُن غیر اخلاقی وغیر
قانونی کاموں میں ملوث رہنے والوں پر بھی شکنجہ کستی جو اس سیلاب کے پھیلاؤ
کاذریعہ بنتے ہیں۔برخلاف اس کے حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف میڈیا سماج میں
پھلتے پھولتے اس ناسور کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی مطلوبہ حد تک مدد نہیں
کرتا وہیں دوسری طرف اس غیر اخلاقی عمل کے فروغ میں وہ بھی خود شریک ہے ۔
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ فحاشی و عریانیت کے بڑھتے سیلاب پر روک لگائی جا
سکے ؟ساتھ ہی قابل توجہ اور عبرتناک پہلو یہ بھی ہے کہ آج اس غیر
اخلاقی،غیر سماجی اور غیر انسانی عمل کو پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا مدد فراہم
کر رہا ہے ،کیونکہ میڈیا خود کاروباربن چکا ہے اور ہر خبر کے شائع ہونے میں
یا نہ ہونے میں نفع و نقصان کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔اس کے باوجود کہ ملک
میں اور دنیا کے بیشر حصوں میں مختلف نظریات کے حاملین میڈیا پر اپنا تسلط
رکھتے ہیں،جس میں قوم پرست ، سوشلسٹ،کمیونسٹ اور بظاہر خو د کو مذہبی کہنے
والے ،تما م ہی طرح کے افراد ،گروہ اورادارے اپنے مکمل افکار و نظریات کے
ساتھ راست یا بلاواسطہ وابستہ ہیں ،لیکن انہیں فحاشی و عریانیت اور اس کے
فروغ میں مصروف عمل اشہارات و پروگراموں سے پرہیز نہیں ہے۔ہماری مراد ملک
کے انگلش اور ہندی زبانوں میں شائع ہونے والے روزناموں سے ہے ساتھ ہی دیگر
علاقائی زبانوں کے اخبارات ،جرائد،رسائل اور نیوز و انٹر ٹینمنٹ چینلس ہیں
جواعمال فاحشہ کے فروغ میں سرکرداں ہیں اور جنہیں ملک عزیز ہند میں لائسنس
یافتہ کی حیثیت سے قانونی بھی جواز حاصل ہے۔
فحاشی و عریانیت کے پھیلتے ناسور کے نتیجہ میں عموماً سماج کا ہر طبقہ
اورخصوصاً سماجی اور اقتصادی لحاظ سے کمزور طبقات حددرجہ متاثر ہیں۔ہر دن
اعمال بدکے مظاہرہ سامنے آتے ہیں۔چھوٹی بچیوں،جوان لڑکیوں اورملک و معاشرہ
کی ماؤں کے ساتھ گھناؤنے افعال انجام دیے جاتے ہیں ۔نتیجتاً ان کی عزت و
وقار مجروح ہوتی ہے،ذہنی جسمانی اور معاشرتی سطح پر انہیں مختلف طرح کی
اذیتیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے،یہاں تک کہ متاثرین کو زندگی گزارنا دشوار
ہو جاتی ہے۔ان کی خوشیاں غارت اور ان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔اس پس
منظر میں میڈیا جو کبھی مضامین، تبصرے، جائزے تو کبھی ٹی وی پر بحث و
مباحثہ میں سرکاری و نیم سرکاری ذمہ داران سے ان کی ناکامی پر سوال اٹھاتا
ہے(ہم نہیں کہتے کہ ان کی نااہلی پر سوال نہ اٹھائے جائیں،لیکن )اگر میڈیا
خود اس برائی کے فروغ میں حصہ دار ہو توکیونکر اس بے باکانہ انداز میں سوال
کرنے کا حقدار ہے؟معاملہ یہیں میڈیا پر ہونے والی بحثوں تک نہیں رکتا بلکہ
جہاں ایک حکومت دوسری حکومت کو(ریاستی حکومتیں تو کبھی مرکزی حکومت)کٹہرے
میں کھڑا کرتی ہیں وہیں سرکردہ حضرات اور عوام بھی ایک دوسرے پر لعن طعن
میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔اس پس منظر میں تصور فرمائیں کہ برائی کے خلاف
فکری و نظریاتی اور عملی ذہن سازی کرنے والے (رائے عامہ ہموار کرنے والے )ادارے
اگر خود ہی برائی کے فروغ کا ذریعہ بنیں تو پھر کون صحیح نہج پر معاشرہ اور
عوام کی رہنمائی کر سکے گا؟
موجودہ دور کی ایک بد ترین شکل یہ بھی ہے کہ آج "خدمت "کے نام پر نفسیاتی
اور جسمانی استحصال کیا جا رہا ہے،خد مت کو بھی کاروبار کی شکل دے دی گئی
ہے۔بات صرف اتنی ہی ہوتی تو وہ بھی برداشت کی جا سکتی تھی لیکن اگر خدمت کے
نام پر لوگوں کی عصمتیں تار تار کی جائیں تو اسے کیا کہا جائے گا؟ اسے کیا
نام دیا جائے گا؟اس سوال کا جواب کم از کم ہمارے پاس نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے
کہ ملک میں ایک بڑی تعداد میں ایسے ادارے قائم ہو چکے ہیں جہاں تیم بچوں
اور بچیوں کی پرورش کا اہتما م کیا جاتا ہے، اور اس عظیم اور بڑے کام کی آڑ
میں عصمتیں نیلام کی جارہی ہیں۔حالیہ دنوں بہار کے مظفر پور شیلٹر ہوم کا
معاملہ ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ اترپردیش کے دیوریا میں بھی ایسا ہی
گناؤنا معاملہ سامنے آگیا۔اس شیلٹر ہوم سے آزاد کرائی بچیوں نے جو کہانیاں
سنائی ہیں وہ رونگٹے کھڑے کرنے والی ہیں۔گرچہ اس شیلٹر ہوم سے 24لڑکیوں کو
آزادکرالیا گیا ہے اس کے باوجود 18لڑکیا ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ملک کی عدالت
عظمیٰ نے پوچھا ہے کہ اس طرح کی خوفناک وارداتیں کب رکیں گی؟یتیم خانے میں
عصمت دری کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس دیئے ہیں۔جسٹس مدن
بی لوکور، جسٹس عبدالنذیر اور جسٹس دیپک گپتا کی بنچ نے کہا ،کہ اترپردیش
کے پرتاپ گڑھ میں حالیہ واقعات ہوئے اور 26خواتین شیلٹرہوم سے غائب پائی
گئی ہیں۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ حال کے دنوں میں ہم نے دیکھا کہ بہت سی
خواتین کے ساتھ اترپردیش اور بہار میں عصمت دری ہوئی ،یہ سب کیا ہو رہا
ہے؟اور یہ واقعات کب رکیں گے؟سپریم کورٹ کے ریمارکس کا سب سے زیادہ توجہ
طلب پہلو جو سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کورٹ مشیر ارپنا بھٹ
نے کہا کہ مرکزی حکومت کو چائلڈ کیئر انسٹی ٹیوشن کی فہرست پیش کرنی
چاہیے۔ساتھ ہی سوشل آڈٹ بھی پیش کرنا چاہیے۔کورٹ کا کہنا ہے کہ ہم اس وقت
تک کچھ بھی نہیں کرپائیں گے جب تک مرکزی حکومت کے وکیل پیش نہیں ہوتے۔عدالت
نے سوال کیا کہ مرکزی حکومت کے وکیل کیوں پیش نہیں ہوتے؟اس کے بعد مرکزی
حکومت کے وزرات داخلہ اور خواتین و اطفال بہبود کی وزرات کے وکیل اس معاملے
میں پیش ہوئے ہیں۔
یہ دو ریاستیں جن کا اوپر تذکرہ کیا گیا ان میں ایک ریاست میں راست بھارتیہ
جنتا پارٹی حکومت کر رہی ہے تو دوسری میں بلاواسطہ اتحاد ی حکومت
برسراقتدار ہے۔لیکن معاملہ ان دو ریاستوں تک ہی نہیں رکا بلکہ ان میں ایک
اور ریاست مدھیہ پردیش بھی شامل ہو گئی ،جہاں کل ہی ایک دردناک واقعہ سامنے
آیا ہے ۔ایک نجی ہاسٹل میں چار لڑکیوں نے عصمت دری کا الزام لگاتے ہوئے
شکایت درج کرائی ہے۔23سالہ لڑکی کا الزام ہے کہ مجھے قیدی بنا کے رکھا گیا
اور چھ مہینہ تک میری عصمت دری کی گئی۔ان حالات اور مسائل کو سامنے رکھتے
ہوئے توجہ فرمائیے کہ ایک ایسی حکومت جو خود کو مذہب سے وابستہ کرتی ہے،جسے
اپنی ثقافت پر ناز ہے،جو ملک کو ہندونظریہ اور نظام میں ڈھالنے کی خواہش
مند نظر آتی ہے۔سمجھنے کی کوشش کی جائے تو باآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ
کیا چاہتی ہے اور کیا کچھ انجام دے رہی ہے،اور کس قدر ان ریاستوں میں لا
اینڈ آرڈرکا فقدان ہے ۔لیکن افسوس صد افسوس حکومت کے کارندوں پر جو ایک
جانب تو خواتین کی عزت اور وقار کی باتیں کرتی ہے، انہیں مسائل سے
چھٹکارادلانے کے لیے جملہ بازی میں مصروف ہے ۔وہیں دوسری جانب وہ ان معصوم
اور زیادتیوں کی شکار بچیوں کے مسائل کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کا کوئی
پروگرام نہیں رکھتی۔بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ بہت تذبذب کے بعد اور حکومت وقت
ہم جنس پرستی کی حمایت میں سامنے آچکی ہے۔مرکزی قانون وزیر روی شنکر پرساد
کہتے ہیں کہ ہم جنس پرست ،تعلقات بنانا ،کسی کی ذاتی سوچ یا پسند ہوسکتی
ہے۔ٹائمس آف انڈیاکو دیئے ایک انٹرویو میں روی شنکر پرساد نے کہاہے کہ
'مختلف معاشروں میں تبدیلی ہورہی ہے،دفعہ377پر حکومت کا موقف بھی اسی کو
دکھاتاہے،ایسامانا جاتا ہے کہ جنسی ترجیح کسی کی ذاتی ترجیح ہو سکتی ہے،تو
اسے جرم کے زمرے سے باہر کیوں نہ کردیا جائے؟گفتگو کے اس پورے پس منظر میں
آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ فحاشی و عریانیت کا خاتمہ نہ این جی ایوز
چاہتی ہیں،نہ حکومت اور نہ ہی قانون داں۔ان حالات میں معاشرے میں جس قدر
تیزی کے ساتھ بے راہ روی کے معاملات سامنے آرہے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔لہذا
ضروری ہے کہ وہ لوگ جو معاشرے کو ان برائیوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور
جو چاہتے ہیں کہ ان کی بہو بیٹیاں اور مائیں اُن غلاظتوں سے پاک رہیں جن
میں معاشرے تیزی سے لت پت ہوتا جا رہا ہے،تو چاہیے کہ بلا تفریق مذہب و ملت
اس برائی کے خلاف متحد ہوں اور کامن پروگرام کے تحت منصوبہ بند انداز میں
سرگرمیوں کا آغاز کریں! |