ایوانِ پارلیمان سے قریب وسطی دہلی کےہائی سیکیورٹی علاقہ
کانسٹی ٹیوشنل (دستوری) کلب میں جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد پر جان
لیوا حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے۔ اس سرکاری عمارت میں مختلف قسم کی
تقریبات ہوتی رہتی ہیں ۔ ۱۳ اگست کو یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ(نفرت کے خلاف
اتحاد) کے زیر اہتمام وہاں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ اس کا عنوان
’خوف سے آزادی کی طرف‘تھا ۔ اس تقریب میں انسانی حقوق کےلیے کام کرنے والے
مشہور لوگ شرکت کے لے آرہے تھے۔ دعوتنامہ میں مقرر کے طور پرمعروف وکیل
پرشانت بھوشن، دی وائر کی صحافیہ عارفہ خانم ، رکن پارلیمان منوج جھا،
پروفیسر اپوروانند، سابق انسپکٹر جنرل ایس آئی داراپوری،سینیر صحافی امیت
سین گپتا، ایڈوکیٹ شاداب انصاری ، سابق رکن پارلیمان علی انور، پی ایم صالح
کا نام تھا۔ ان کے علاوہ جوروظلم کا شکار ہونے والے مختلف لوگوں کے افراد
خانہ شرکت کرنے والے تھے۔
اس موقع پر کسی نامعلوم دہشت گرد نےعمر خالد پر حملہ کردیا اور انہیں دھکا
دے کر نیچے گرادیا ۔ عمر خالد نے محسوس کیا کہ اس کے پاس پستول ہے۔ عمر کے
ساتھیوں نے اس کو پکڑنے کی کوشش کی اور شور مچا دیا تو وہ فرار ہوگیا اور
جاتے جاتے اس نے فائرنگ کردی ۔اس کی بزدلی کا یہ عالم تھا کہ ہڑبڑاہٹ میں
پستول اس کے ہاتھوں سے گر گئی ۔ اللہ کا کرم ہے عمر خالد محفوظ رہے اورجو
بدمعاش شرکاء کو خوفزدہ کرنے کے لیے آیا تھا خود ڈر کر بھاگ گیا مگر
پروگرام حسبِ معمول شروع ہوگیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خوف پھیلانے والے کس
قدر ڈرپوک لوگ ہیں اور اس کے خلاف لڑنے والے کیسے جری اور بہادر ہیں۔خوف کے
خلاف لڑنے والے کون ہیں ان کی بابت تو کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ
وہ اپنی جگہ ڈٹے رہے لیکن خوف پھیلانے والے کا نشانہ چوکنا اور اس کے
ہاتھوں سے پستول کا گرنا اس بات کا پکا ثبوت ہے کہ اس کا تعلق ہندو دہشت
گردوں سے ہوگا۔ اس سے قبل کئی مرتبہ بم بنا تے ہوئے اس کے ہاتھوں میں پھٹ
جانے سے وہ ہلاک ہوچکے ہیں ۔ بم کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے مارے جاچکے ہیں۔
ایسا انہیں کے ساتھ ہوتا کیونکہ وہ بہت بزدل اور ڈرپوک لوگ ہیں اور اس بار
بھی یہی ہوا۔ نالا سوپارہ میں سناتن سنستھا کے ذمہ داران کے گھر میں پستول
کے ڈخیرے کا پکڑا جانا اور عمر خالد پر حملہ ایک ہی وقت میں ہوا ہے اس لیے
دونوں وارداتوں کو جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ خدا شکر ہے کہ عمر خالد کا بال
بیکا نہیں ہوا۔ مثل مشہور ہے جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے ۔بقول شاعر؎
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خداکرے
ڈھائی سال قبل عمر خالد، کنھیا کمار اور ارنیبن کے ساتھ اس وقت ذرائع ابلاغ
کی زینت بنے جب ان تینوں پر پر جے این یو میں افضل گرو کی حمایت میں نعرے
لگانے کا الزام لگایا گیا اور ان کو غدارِ وطن کے لقب سے نوازا گیا۔ اس کے
بعد کنھیاکمار کو گرفتار ہوئے۔ عدالت کے احاطے میں ان کو زدو کوب کیا گیا
اور وہ ۲۳ دن تہاڑ جیل میں بھی رہے۔ عمر خالد کو میڈیا نے جیش محمد کا رکن
ثابت کردیا لیکن عدالت نے ان سب کو ضمانت دے دی اور وہ آزاد ہوگئے۔ اس وقت
سے اب تک سنگھ پریوار جے این ایو انتظامیہ کی آڑ میں ان کے خلاف محاذ
کھولے ہوئے ہے اور عدالت برابر عمر خالد اور اس کے ساتھیوں کی پشت پناہی
کررہی ہے۔ انتظامیہ کا یہ حال ہے کہ وہ ابھی تک ان طلباء کے خلاف فرد جرم
بھی داخل نہیں کرپایا ہےمگر یونیورسٹی کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے عمر خالد کو
معطل کررکھا ہے اور کنھیا کمار پر دس ہزار کا جرمانہ ٹھونک دیا ہے۔
پچھلے مہینے عمر خالد اور کنھیا کمار کو اپنی پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کرانا
تھا ۔ عدالت نےچونکہ کنھیا کا مقدمہ کوالگ کرکے انتظامیہ کے احکامات کو
نامعقول قرار دے چکی تھی ان لیے اس کا مقالہ منظور کر لیا گیا لیکن عمر
خالد کا مقالہ جرمانہ نہیں ادا کرنے کے سبب قبول نہیں کیا گیا۔ اس پر عمر
نے عدالت سے رجوع کیا تو اس نے انتظامیہ کو انتہائی اقدام کرنے سے روک دیا
اور اگلی سماعت کے لیے ۱۶ اگست کی تاریخ مقرر کردی۔ عمر خالد کا اصرار ہے
کہ وہ جرمانہ ادا نہیں کریں گے کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ عدالتی فیصلوں سے
روگردانی کررہا ہے۔ اس سال کی پہلی تاریخ کو عمر خالد نے جگنیش میوانی کے
ساتھ پونے ضلع میں کورے گاوں بھیما کے احتجاج میں شرکت کی اور اس پر تشدد
بھڑکانے کا فرضی مقدمہ بھی درج کیا گیا۔ اس کے بعد اسی سال جون میں عمر
خالد نے پولس تھانے جاکر معروف بدمعاش روی پجاری کے ذریعہ ان کو ملنے والی
جان سے مارنے کی دھمکی کی شکایت بھی درج کرائی ۔ یہ دھمکی رکن اسمبلی
میوانی کو بھی مل چکی ہے۔ اس شکایت کے بعد یہ حملہ بہت معنی خیز ہوجاتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ پولس کوئی ٹھوس کارروائی بھی کرتی ہے یا یونہی بہانہ بازی
کرکے مجرموں کی ڈھال بن جاتی ہے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ ان طلباء کے ہاتھوں یکے بعد دیگرے منہ کی کھانے کے
باوجود زعفرانی دہشت گرد عقل کے ناخون نہیں لیتے اور اپنے آپ کو ذلیل
کروائے جاتے ہیں۔ عمر خالد اگر ان کی طرح بزدل ہوتے تو وطن سے غداری جیسے
سنگین الزامات کے بعد ٹوٹ جاتے، میڈیا ٹرائل میں نقاب پوش زعفرانیوں کے
چھکے نہیں چھڑاتے۔ مہاراشٹر میں آکر کورے گاوں بھیما کے احتجاج میں شرکت
نہیں کرتے بلکہ دہلی میں دبک کر بیٹھا رہتے۔ اپنے اوپر لگائے جانے والا
جرمانہ ادا کرکے پی ایچ ڈی کا مقالہ جمع کرادیتے انتظامیہ دو دو ہاتھ کرنے
کا فیصلہ نہیں کرتے ۔ عمر خالد ایک دلیر طالبعلم ہےجو مظلوموں کے لیے حکومت
اور انتظامیہ سے سینہ سپر ہے۔ وہ بھلا اقتدار کی آڑ میں چھپ کر حملہ کرنے
والوں سے کیسے ڈر سکتا ہے؟ اپنے والد ڈاکٹر سید قاسم رسول سے فکری اختلاف
کے باوجود اس حقیقت سے کون انکارکرسکتا ہے کہ اس کی رگوں میں ایک مجاہد کا
خون دوڑ رہا جس نے کبھی بھی ظلم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ ویسے بھی مسلمان
کب موت کی پرواہ کرتے ہیں اور بزدلوں سے ڈرتے ہیں۔ مسلمان ڈرپوک ہوتے توبی
جے پی کی ناک کے نیچےخوف سے آزادی کے عنوان پر مذاکرے کا اہتمام ندیم خان
نہیں کرتے اور اس میں شرکت کے لیے عمر خالد وہاں نہیں جاتے بقول شاعر ؎
نورخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
|