آزادی کی خونچکاں اور زہرہ گداز داستان

۱۹۴۷ ء میں دنیا کے نقشے پر ایک تبدیلی رونما ہوئی یعنی ایک اسلامی ملک پاکستان کے نام سے نقشے پر ابھرا۔ یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی آزادی کے لیے کئی سال سے کوششیں کی جارہی تھیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ آزادی پلیٹ میں سج کر نہیں ملتی ۔ آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ چاہے مال و زر لٹانا پڑے یا سرکٹا کر اپنے خون سے زمین کو رنگنا پڑے۔ تاریخ کے اوراق اٹھاکر دیکھ لیں، کہیں بھی آزادی بغیر خون بہائے نہیں ملی۔ لیکن پاکستان کی آزادی کی تاریخ میں وہ واقعات رقم ہیں جن کو دیکھ کر تاریخ کے بڑے بڑے ظالم ، سفاک اور کشت و خون کے دلدادوں کے دل بھی دہل جائیں۔ آزادی کی راہوں میں جہاں مرد وں، عورتوں، بوڑھوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا وہاں انتہا ئی بے رحمی اور سنگ دلی سے نہتے معصوم ماؤں کی گودوں میں پلنے والے بچوں کو بھی خون میں نہلایا گیا۔ آزادی کی خاموش داستانیں محفوظ ہیں کہ حریت کے اس سفر میں کتنی ہی معصوم جانوں نے جامِ اجل پیا۔ ظلم کی انتہا نہیں تھی۔ ماں کی گود سے چھین چھین کر معصوموں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیاجاتا۔ اندوہناک مناظر سے ماؤں کے کلیجے پھٹ جاتے ۔ اپنے معصوموں کی جان بخشی کے لیے مائیں درندوں کے آگے التجائیں کرتی رہ جاتیں۔ التجائیں بھی ایسی کہ ان سے زمین و آسمان ہل جائیں لیکن سفاکوں کے دلوں میں ذرہ برابر بھی انسانیت کا درد موجود نہیں تھا۔ سکھ درندے معصوم بچوں کو نہایت درندگی سے ہلاک کرتے تھے ۔ بعض بچوں کو گلا گھونٹ کر مارا گیا۔ کئی بچے اس طرح سے شہید کیے گئے کہ سفاک قاتل بچے کی ایک ٹانگ پاؤں میں دباکر دوسری ٹانگ اتنی زور سے کھینچتے کہ ننھے معصوم کے دو ٹکڑے ہوجاتے ۔ بعض نازک جسموں کو اوزار سے جا بجا چھیدا جاتا جس سے وہ شہید ہوجاتے۔

ایک تاجر کتب اپنی زہرہ گداز داستان اس طرح بیان کرتا ہے کہ میرا گھر جل چکا تھا اور میں دکان میں بیٹھا تھا ۔ جب مجھے پتہ چلا کہ میرا گھر جلادیا گیا ہے تو میں گھر پہنچا توصرف دو سال کا بچہ زخمی حالت میں زندہ تھا ۔ میں نے اسے اٹھا یا اور دکان کی طرف چل دیا ۔ جب دکان کے قریب پہنچا تو کچھ غنڈے دکھائی دیے ۔ میں نے بچے کو چادر میں چھپالیا لیکن خونخوار درندوں نے مجھے اور میرے بچے کو دیکھ لیا ۔ وہ میری طرف لپکے اور جھپٹ کر ننھے کو مجھ سے چھین لیا۔ زخمی معصوم چیخ اٹھا ۔ لیکن درندوں کے دل میں رحم کا ذرہ بھی نہیں جاگا۔ میں نے ان لوگوں کی بہت خوشامد کی ، ان کے پاؤں چھوئے لیکن سفاک بالکل بھی نہ پسیجے ۔ انہوں نے مجھے ڈنڈے مار کر میرے ہاتھ زخمی کردیے۔ پھر غنڈوں نے آپس میں کچھ اشارہ کیا اور اس کے ساتھ ہی بچے کو زور سے پختہ فرش پر پھینکا کہ وہ بلبلا اٹھا اور آنکھوں کے ڈھیلے کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ ایک بے د رد سفاک آگے بڑھا اور اور اس نے چھری سے وار کرکے اس کا بازو کاٹ دیا۔ دوسرے لعین نے اس کی ناک کاٹ دی۔ اسی طرح وہ ایک ایک کرکے اس کے اعضاء کاٹتے گئے ۔ جب بچہ چیختا تڑپتا تو وہ درندے کھل کھلا کر ہنستے اور تالیاں بجاتے۔ اس طرح میرے جگر کے ٹکرے کی جان میری آنکھوں کے سامنے مالک حقیقی سے جاملی۔ تھانہ ڈیگ کا واقعہ ہے کہ وہاں سے مسلمان عورتوں کو نکال کر ایک میدان میں جمع کیا جانے لگا۔ اس میں ایک عورت کی گود میں ڈیڑھ سال کا معصوم لڑکا تھا ۔ ظالموں نے اس معصوم کو ماں کی گود سے چھین کر آگ میں پھینک دیا ۔ وہ ننھا اپنی ماں کے سامنے آگ میں جل کر شہید ہوگیا۔لدھیانہ میں وحشیوں نے محلہ کریم پورہ کا محاصرہ کرکے مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دی تھی۔ ایک ماں کی گود سے بچے کو جھپٹ کر چھین کر اس معصوم کے پیٹ میں چھری گھونپ دی ۔ اسی طرح دوسرے بچوں کو بھی برچھیوں سے چھید ڈالا۔جالندھر شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے دھوگڑی۔ وہاں سے ایک معزز مسلمان گھرانہ تانگے پر سوار ہوکر اپنی جان بچانے نکلا تھا۔ راستے میں درندوں نے اس خاندان پر حملہ کرکے مردوں کو شہید کردیا اور عورتوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ان میں ایک عورت حاملہ تھی اسے نزدیک کھیت میں لے گئے۔ وہیں اس نے بچہ جنا۔ بچہ کی پیدائش کے بعد ظالموں نے اسے ماردیا اور ماں سے کہنے لگے کہ تو گائے کا گوشت کھایا کرتی تھی اب اپنے بچے کا گوشت کھا۔ایک نوعمر بچے کی دونوں آنکھوں میں خنجر گاڑ دیے گئے تاکہ اس کی معصوم آنکھیں صبحِ آزادی کے سورج کو طلوع ہوتے نہ دیکھ سکیں۔جلال آباد تحصیل ترنتارن میں بھی آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی جس میں زندہ بچوں کو آگ میں پھینکا گیاتھا۔ اگلے روز ایک لڑکی کی جلی ہوئی نعش ملبہ سے نکالی گئی جس کی بغل میں قرآن مجید دبا ہوا تھا۔

ایک جگہ درندوں نے حملہ کیا تو ایک عورت خوش قسمتی سے بچ گئی اور وہ دیگر مُردہ عورتوں کے ساتھ ساکت انداز میں لیٹ گئی اس کی ایک چھ ماہ کی بیٹی سینے سے چپکی ہوئی تھی۔ ماں کی آغوش میں جب بچی کو کچھ سکون محسوس ہوا تو اس نے کھیلنا شروع کردیا جس کی وجہ سے آواز پیدا ہونے لگی۔ ماں ساکت بنی ہوئی تھی کہ اسے چپ کرانے کی وجہ کسی درندے کی نظر نہ پڑجائے ۔ لیکن بچی اپنی ماں کی آغوش میں انتہائی اطمینان سے کھیلتی جارہی تھی۔ اس دوران ایک دشمن نے اس آواز کو سن لیا اور اس کی طرف لپکا اور آتے ہی اپنا نیزہ بچی کے سینے میں پیوست کردیا۔ لیکن اسے صبر نہیں آیا ، اس قاتل نے دوسری مرتبہ نیزہ بچی کے مارا جس کی وجہ سے بچی کی معصوم جان قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ میوات آبادی کی تحصیل میں ایک روز کچھ سپاہی ایک گاؤں کی بربادی کے بعد چار شیر خوار بچوں کواپنے بڑے میجر کے پاس اٹھا لائے ۔ انسانیت کا ذرہ برابر احساس رکھنے والے کچھ لوگوں نے کہا کہ انہیں یتیم خانے بھجوادیں لیکن میجر نے کہا کہ سانپ کے بچے سانپ ہوتے ہیں ان کو ماردو۔ جب سپاہیوں نے تامل سے کام لیاتو میجر نے خود اپنے ہاتھ سے دو بچوں کو سڑک پر پھینک کر اپنے فوجی جوتوں سے کچل دیا۔ تیسرے بچے کو ہوا میں اچھالا اور سنگین میں پرو لیا۔ چوتھے کو آگ کے ڈھیر میں ڈال دیا۔ قرول باغ میں جب حملہ ہوا تو درندوں نے مردوں سمیت بچوں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور وہ ٹکڑے عورتوں کی گود میں ڈال دیے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ قربانی کا گوشت کھاؤ۔ اسی طرح حاملہ عورتوں کا پیٹ چاک کرکے جنینوں کو نیزوں پر لٹکا کر کہا کہ پاکستان کا جھنڈا بن گیا۔ اس سے بھی چین نہ ملا تو سفاکوں نے بچوں کے گوشت کے ٹکڑے ان کی ماؤں کے منہ میں ٹھونس دیے اور کہا کہ ان کو چباؤ۔

درندوں کے ظلم و ستم سے زندہ بچ جانے والوں نے جب پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کی غرض سے ٹرین میں سفر کیا تو وہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر قرار پایا۔ درندوں نے پوری پوری ٹرینوں کو اتنی بے دردی سے کشت و خون میں نہلایا کہ مرد، عورتیں اور بوڑھے سمیت بچے بھی شہید ہوئے ۔ ننھے پھول جیسے بچوں کو سفاک درندوں نے زمین پر پٹخ پٹخ کر مارتے جس کی وجہ سے ان کی کھوپڑیا ں چٹخی اور پچکی ہوئی ملتی تھیں۔خون کی خوفناک ہولی کا سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے والے ایک شخص کی روئیداد ہے کہ میں نے زخمیوں مین ایسے ایسے ضعیف العمر بوڑھوں کو دیکھا جن پر ہاتھ اٹھاتے بھی انسان کو شرم آنی چاہیے۔ ایک پانچ برس کی بچی دیکھ کر تو بے اختیار آنسو نکل گئے ۔ اس کے ماں ، باپ، بہن اور بھائی سب شہید کردیے گئے تھے اور اس بچی کی پسلی میں نیزہ گھسا دیا تھا۔ اس بچی کے کپڑے خون میں لت پت تھے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ۔ یہ تو چند جھلکیاں ہیں۔ اس طرح کے کئی واقعات اور مثالوں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں جو ا س بات کی غمازی کرتے ہیں کہ آزادی پلیٹ میں سج دھج کر نہیں ملی۔ آزادی کے لیے مسلمانوں نے اپنے مال و زر کے ساتھ جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا۔صرف اس لیے کہ ایک آزاد اسلامی ملک حاصل ہوسکے اور بغیر کسی روک ٹوک کے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ممکن ہوجائے ۔ دلِ مسلم ہر گز یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ آزادی کی راہ میں جان ، مال اور اولاد کی بازی لگانے والوں نے محض سیکیولر ریاست حاصل کرنے کے لیے اپنا تن ، من، دھن سب کچھ قربان کیا ہو۔ ظلم و بربریت کے اس سانحے میں نہتے معصوم بچوں کی شہادت کے واقعات اُن لوگوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکیولر ریاست قرار دینے پر تُلے ہو ئے ہیں۔ خدارا قائد کے پاکستان کے ساتھ غداری نہ کریں۔ اﷲ پاکستان کو سلامت رکھے۔ پاکستان پائندہ باد۔
 

Muhammad Riaz Aleemi
About the Author: Muhammad Riaz Aleemi Read More Articles by Muhammad Riaz Aleemi: 79 Articles with 75476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.